قربانی پر دل کھول کر خرچ کیجیئے مگر
قربانی کرنے سے پہلے جدہ کے اس ٹھرکی بابے کا قصہ سن لیجیئے:
آپ “باخشوین” قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور احراموں کے بزنس کے ٹائیکون شمار ہوتے تھے۔ کام کے دوران حرکتیں وہی جو اس عمر کے ہر فشار خون کے مارے بابے کی ہوتی ہیں۔ وقت کی پابندی کرانا، کام پر کوئی سمجھوتا نا کرنا، تُن کے رکھنا۔ اگر کوئی خوبی تھی تو بس اتنی سی کہ تنخواہ وقت پر دے دیتے تھے اور رمضان شریف میں اپنے پاس کام کرنے والوں کو عیدی وغیرہ سے بھی نواز دیتے تھے۔
کنجوس وہ بلا کے کہ رات کو گھر پر کھانا ہی نہیں کھاتے تھے۔ ایک ریال کا سینڈوئچ اور ایک ریال کا سن توپ جوس، وہ بھی کسی بوفیہ (سینڈوئچ-جوس کارنر) سے لیکر اور اسی کے تھڑے یا اس کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھا لینا۔ چسکیل اس درجے کے کہ ایک سینڈوئچ کو لیکر دو دو گھنٹے بیٹھے رہنا اور آتی جاتی دنیا کا کوئی نظارہ چوکنے نا دینا۔
پیسے ہی بچانے کا مقصد تھا تو بوفیہ کسی پوش علاقے کا کیوں پسند کرتے، اور پھر ادھر سینڈوئچ مہنگا ملتا تو اور بھی نقصان ہونا تھا۔اس لیئے ان کے پسندیدہ بوفیہ “بخش ہسپتال” کی پارکنگ لاٹ میں بنا ہوا، ملک فہد میڈیکل کمپلیکس کے احاطے میں بنا ہوا یا پھر سعودی جرمن ہسپتال کے احاطے میں بنا ہوا۔ (اس کے ٹھرکی مزاج کی تشفی شاید ایسی جگہوں پر ہوتی تھی)۔
اور پھر یہ ایک دن ایسے ہی اپنی آئی مر گئے جیسے باقی سب کیلیئے قدرت کا قانون بنا ہوا ہے۔ ان کے جنازے پر تاجر پیشہ، حق ہمسائے اور رشتے دار تو تھے ہی، نچلے طبقے کے بھی کئی میلے کچیلے کپڑوں والے لوگ دیکھنے میں آئے۔ اچھا خاصا اُجلے اُجلے کپڑے والے سوگواران کا مجمع میلا میلا لگ رہا تھا۔
بات آئی گئی ہو گئی۔ مہنیے کا اختتام ہوا تو پتہ نہیں جدہ کے کس کس گوشے سے فقیر
فُقرے اس کی دکان پر چلے آئے۔ بات اب کھلنا شروع ہوئی کہ مرحوم تو مسکینوں کے باپ بنے ہوئے تھے۔ کئی گھروں کا باقاعدگی سے چولہا ہی ان کی ماہانہ امداد سے چل رہا تھا۔ ہسپتالوں کے بوفیہ پر بیٹھ بیٹھ کر، سب کی سُن گُن لیکر، روزانہ بیسیوں لاچاروں کے بل چکاتے تھے تو دسیوں مفلسوں کے آپریشن اور علاج کی سبیل بنتے تھے۔ آپ کو لوگ روئے تو تھے مگر مہینوں کے بعد جا کر۔ آپ کے نیک اعمال کھلے تو تھے مگر مہینوں کے بعد جا کر، آپ کے بائیں ہاتھوں کی کارکردگی بھی آپ کے دائیں ہاتھ کی کارکردگی اوجھل رہی تھی۔ شاید آپ جانتے تھے میری دنیا اور میرا پیسہ بھی جائے گا
اور مجھے میرا “ریا” میری آخرت کو بھی برباد کرے گا۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
اگر آپ قربانی کر رہے ہیں تو آپ صاحب نصاب ہیں۔ اللہ پاک آپ کو اور دے اور آپ کی قربانی قبول فرمائے۔
اگر آپ مہنگی قربانی کر رہے ہیں تو آپ صاحب استطاعت ہیں۔ اللہ پاک آپ کے جذبوں کو جوان رکھے اور آپ کو دنیا کیلیئے مفید بنائے۔
اور اگر آپ بہت ہی مہنگی یا اچھوتی قربانی کر رہے ہیں تو ایک تو بات پکی ہے کہ: آپ کے گھر میں، کھانے پینے کی رزق کی وافر مقدار کی وجہ سے، شاید آپ تو پتہ ہو، مگر آپ کے بچوں کو کبھی بھی اس بات کا پتہ نہیں ہوگا کہ حکومت پاکستان نے غذائی قلت پر قابو رکھنے کیلیئے ملک میں گوشت والے جانور ذبح کرنے اور بیچنے پر ہفتہ میں دو دن کا ناغہ بھی رکھا ہوا ہے۔ آپ کو یا آپ کے بچوں کو اس بات کا اس لیئے پتہ نہیں کہ آپ کو ہر چیز وافر ملنے کی وجہ سے اس بات کا کبھی احساس ہی نہیں ہوا۔
آپ کیلیئے گوشت کھانا، بے تحاشہ گوشت کھانا یا دل بھر کر گوشت کھانا قربانی سے جڑا ہوا بالکل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اتنا بڑا یا اتنا مہنگا جانور کیوں؟ کہیں نمائش کا دل تو نہیں کر رہا۔ خیال رکھنا کہیں پیسہ بھی جائے اور ریا سے قربانی بھی جائے۔
گھر میں مناسب قیمتوں والے کئی جانور لائیے، زیادہ گھروں میں گوشت بھجوانے کا سبب بنیئے۔
بہت سارے جانوروں میں اپنے حصے ڈالیئے اور اس گوشت کو حاصل کرنے کیلیئے اپنے نادار دوستوں رشتہ داروں کو پابند کیجیئے۔ خوشیاں پھیلائیے۔
گوشت کو شمالی علاقہ جات یا مستحقین تک پہنچانے کیلیئے با اعتماد اداروں کو اپنی قربانی دور دراز علاقوں میں کرنے کا کہیئے۔
اللہ پاک آپ کی قربانی قبول فرمائے۔ آمین