اللہ تعالی نے سیدنا ابراھیم علیہ السلام کو آزماتے ہوئے جب اُن سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا مطالبہ کیا تو سیدنا ابراھیم و سیدنا اسماعیل علیھما السلام دونوں سر تسلیم خم ہو گئے مگر اللہ تعالی نے سیدنا اسماعیل کی جگہ ایک دنبہ کی قربانی کروا دی۔۔۔
اللہ تعالی کو یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ سنت ابراھیمیؑ کو جاری رکھنے کیلئے اس قربانی کے عمل کو فرض قرار دے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی عیدالاضحٰی آتی ہے تو پوری امت مسلمہ سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالی کی راہ میں قربانی کی ادائیگی کرتی ہے۔
1-قربانی یہ لفظ “قرب” سے بنا ہے اور عربی میں قرب کا معنیٰ ہے: ” قریب ہونا، نزدیک ہونا ” اور قربانی کے ذریعہ چوں کہ اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں۔
اصطلاح شریعت میں قربانی ایک مالی عبادت کو کہتے ہیں کہ خاص جانور کو خاص دنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے ثواب اور تقرب کی نیت سے سے ذبح کرنا۔
2-قربانی کے شرکاء کی نیت۔۔
قربانی صحیح ہونےکیلئےضروری ہےکہ تمام شرکاء کی نیت ثواب کا حاصل کرنا ہو،کسی کی نیت گوشت کھانے یا فروخت کرنے کی نہ ہو، ورنہ کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہو گی۔۔
3-قربانی کس پر واجب ہے۔۔۔؟؟؟
جس مرد وعورت میں قربانی کے ایام میں درج ذیل باتیں پائی جاتی ہوں اس پر قربانی واجب ہے ۔
1-مسلمان ہو کیونکہ قربانی عبادت و قربت کا نام ہے اور کافر عبادت و قربت کا اہل نہیں ۔
2-آزاد ہو۔ قربانی غلام پر واجب نہیں کیونکہ وہ کسی چیز ما مالک نہیں ۔
3-مقیم ہو کیونکہ مسافر پر قربانی واجب نہیں۔
4-صاحب نصاب ہو۔ قربانی کے واجب ہونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو ایسے مرد و عورت پر قربانی کرنا واجب ہے ۔۔
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کو وسعت ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کیلئے صاحب وسعت ہونا ضروری ہے جسے صاحب نصاب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اہم تنبیہ ۔۔!! اگر چند بھائی ایک ساتھ رہتے ہیں اور مکان و زمین سب والد کے نام ہے تو سب بھائی اگر کما کر آمدنی والد کو لا کر دیتے ہیں اور اولاد کسی چیز کی مالک نہیں تو صرف قربانی والد پر واجب ہو گی اور اگر سب بھائی کماتے ہیں اور انتظام کیلئے آمدنی والد یا والدہ کو لاکر دیتے ہیں اور حقیقت میں سب مالک ہیں،تو الگ الگ قربانی سب پر واجب ہو گی۔اسی طرح اگر عورت کے پاس مہر کی رقم یا زیور ہو یا ضرورت سے زائد اتنے سوٹ وغیرہ ہوں جو نصاب کو پہنچ جائیں تو اس وقت پر قربانی واجب ہو گی ۔
4–قربانی کے جانور ۔۔۔۔!!!
جو جانور قربانی کیلئے ذبح کیے جا سکتے ہیں بھیڑ،بکری،گائے،اونٹ،بھینس (نر اور مادہ) ہیں۔۔آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے،اور دو بکریوں میں سے،دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔قربانی بھینس کی بھی جائز ہے کیونکہ یہ گائے کی ایک قسم ہے،”( الجاموس“ نوع من البقر یعنی بھینس از قسم بقر ہے۔)
1-بکرا،بکری،بھیڑ،دنبہ جو ایک سال کا ہو، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ بکری (کی قربانی) ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے(اعلاء السنن)۔
2-گائے،بیل اور بھینس جو دو سال کے ہوں۔3-اونٹ جو عمر میں پانچ سال کا ہو،واضح رہے کہ بڑے جانور (گائے،بھینس بیل ) میں سات حصے ہوتے ہیں۔
چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حج کا احرام باندہ کر نکلے تو آپ ﷺنے حکم فرمایا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی ) شریک ہو جائیں۔(مسلم شریف )
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہے کہ ہم نے حدیبیہ والے سال حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ قربانی کی،چنانچہ اونٹ اور گائے کی سات سات آدمیوں کیطرف قربانی کی گئی۔(مسلم شریف )
نوٹ۔۔ اگر جانور فروخت کرنے والا پوری عمر بتلائے اور دیکھنے میں بھی پوری عمر معلوم ہو تو اس بیچنے والے کے قول پر عمل کرنا درست ہے۔
5- عیب دار جانور ۔۔۔۔۔؟؟؟
سینگ ٹوٹا (جڑ سے) کان کٹا(تہائی یا اس سے زیادہ)دم کٹا(تہائی یا اس سے زیادہ)اندھا(کہ تہائی روشنی یا اس سے زیادہ ختم ہو جائے)لنگڑا(جو تین ٹانگوں پر چلتا ہو)ایسا دبلا جو مذبخ تک نہ جا سکے ،پوپلا جسکے دانت نہ ہوں،ایسا مادہ جانور جس کے تھنوں کی نوکیں کٹی ہوئی ہوں یا سوکھ گئی ہوں اسکی قربانی درست نہیں ۔۔ اسی طرح جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں،اندھے یا کانے جانور کی قربانی درست نہیں،
6- خصی جانور کی قربانی۔۔
خصی جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے ( سنن ابی داؤد جلد 2 )
اسی طرح ایک دوسری روایت ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جب قربانی کا ارادہ فرماتے تو بڑے موٹے تازے،سینگوں والے،سیاہ سفید رنگت والے دو خصی مینڈے خریدتے ایک اپنے اہل وعیال کیطرف سے اور دوسرا اپنے ان امتیوں کی طرف سے جنہوں نے اللہ کی توحید اور آپ ﷺ کی تبلیغ کی گواہی دی قربان فرماتے۔ (مسند احمد )
7- قربانی کے گوشت کی تقسیم۔
اگر قربانی کے شرکاء اپنے حصے کا گوشت پورا لینا چاہیں تو وزن کر کے برابر برابر حصہ لیں،اندازے سے لینا درست نہیں ،اگر شرکاء اپنا حصہ پورا نہ لینا چاہیں بلکہ کچھ لیکر باقی گوشت لوگوں کو دینے کا ارادے کریں تو وزن کر کے تقسیم کرنا لازم نہیں۔ اگر شرکاء میں کسی کی نذر کی قربانی ہے تو اس کیلئے وزن کر کے لینا ہی ضروری ہے کیونکہ اسکو اپنی حصے کے گوشت کا صدقہ کرنا لازم ہے ۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم میں مستحب یہ ہیکہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں ایک حصہ فقرآء و مساکین کیلئے،دوسرا حصہ عزیز واقارب اور پڑوسیوں کیلئے اور تیسرا حصہ اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کیلئے ۔۔اگر فیملی بڑی ہے اور ایک کی بجائے دو حصے یا تینوں حصے ہی اپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے تو جائز ہے ۔
8- غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا۔۔
غیر مسلم پڑوسیوں کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ۔۔۔
9-قربانی کرنے والا ناخن اور بال نہ کاٹے اور نہ کٹوائے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو جائے اور تم میں سے جو قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔( مسلم شریف ) اس حدیث مبارکہ اور دیگر احادیث مبارکہ کی روشنی میں قربانی کرنے والوں لیجئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔لہذا اگر بال یا ناخن کاٹنے کی ضرورت ہو تو ذی القعدہ کے آخر میں یہ کام کر لیں ۔
10- قربانی کا پیغام۔
قربانی کے اس عظیم عمل میں مسلمانوں کیلئے دو پیغام ہیں۔
1-ایک پیغام ہے کہ دین درحقیقت اتباع کا نام ہے اور اصل مقصود اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری ہے،سیدنا ابراھیم و سیدنا اسماعیل علیھما السلام کی عملی قربانی کی یادگار ہے تو جس طرح انہوں نے اللہ تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہمیں بھی اپنی پوری زندگی اسی کے مطابق ڈھالنی چاہیئے، اسی بات کو قرآن مجید میں سورت الحج کی آیت نمبر 37 میں بیان کیا گیا ہے ترجمہ ! اللہ کو ہرگز نہ اُن کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون اور لیکن اُسے تمہاری طرف سے تقوی پہنچے گا۔اسی لئے اس نے اُنہیں تمہارے لئے مسخر کر دیا،تاکہ تم اُس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو ،کہ اُس نےتمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والے کو خوشخبری سنا دیجیئے۔
اور یہی حکم دوسری تمام عبادات کا ہے کہ نماز کی نشست و برخاست،روزہ میں بھوکا پیاسا رہنا،زکوۃ میں محض مال کا خرچ کر دینا،حج میں محض کعبہ مشرفہ میدان عرفات وغیرہ کا چکر لگانا مقصودِ اصلی نہیں ،بلکہ اصل مقصود قلبی اخلاص ومحبت کے ساتھ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے۔ اگر یہ عبادات اس اخلاص ومحبت سے خالی ہیں تو صرف صورت اور ڈھانچہ ہے ،روح غائب ہے۔۔
2-دوسرا پیفام قربانی کی اس عظیم یادگار سے ہمیں یہ ملتا ہے کہ آج اس جانور کا خون اللہ تعالی کے حکم پر بہایا جا رہا ہے،اگر ضرورت پڑی تو تو دین اسلام کی خاطر اسی طرح اپنے مال اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دوں گا، یہی وجہ ہیکہ قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے،اور اگر بڑے جانور میں زیادہ حصہ دار ہوں تو قربانی کرنے کے وقت سب کا جانور کے پاس حاضر ہونا افضل ہے،جسکی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ سب لوگوں کے دلوں میں جان ومال کی قربانی کا یہی جذبہ پیدا ہو۔۔۔
اللہ تعالی مسلمانانِ عالم کو سنت ابراھیمی ( علیہ السلام) اور سنت مصطفویﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائیں اور قربانی کے مبارک عمل کو بارگاہ جلیلہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں۔
آمین یا رب العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔