قسط   نمبر                                                                                                                   19   مصحف  

مصحف

1قسط   نمبر ۔ 9
تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد
سامنے شلوار قمیص میں ملبوس، سر پہ دوپٹہ لپیٹے، ہاتھ میں کتاب پکڑے، الجهی نگاہوں سے اسے ديکھ  رہی تهی-
محمل کا دل زور سے دهڑکا- وہ رنگے ہاتهوں پکڑی گئی تهی، جانے اب کیا ہو گا؟
” وہ میں آپ کی آواز سن کر آئی تهی- بہت اچهی تلاوت کرتی ہیں آپ-”
” تلاوت نہیں …… وہ دعائے نور تهی- میری آواز نیچے تک آ رہی تهی کیا؟” لڑکی کا انداز سادہ مگر محتاط تها-
محمل کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تها- اسے کسی طرح اس لڑکی کو باتوں میں الجها کر وہاں سے نکلنا تها- ایک دفعہ وہ سڑک تک پہنچ جائے تو آگے گهر کے تمام راستے اسے آتے تهے-
” خوبصورت آواز ہر جگہ پہنچ جاتی ہے، میں تلاوت سمجھ کر آئی تهی، معلوم نہ تها کہ آپ دعا مانگ رہی ہیں -”
” دعا مانگ نہیں ، یاد کر رہی تهی- آپ نے بتایا نہیں ، آپ کا نام؟”
شائستگی سے کہتی وہ لڑکی دو قدم آگے آئی تو گرل سے چهن کر آتی چاندنی میں اسکا چہرہ واضح ہوا-
چکنی سپید رنگت- بےحد گلابی ہونٹ اور بادامی آنکهیں جن کی رنگت سنہرے پکهراج کی سی تهی- گولڈن کرسٹل یہ پہلا لفظ محمل کے ذہن میں آیا تها اور اسے دیکهتے ہی وہ لمحے بهر کو چونکی تهی- بہت شدت سے محمل کو احساس ہوا تها کہ اس نے اس لڑکی کو پہلے کہیں ديکھ  رکها ہے- کہیں بہت قریب، ابهی کچھ  وقت پہلے- اس کے نقش نہیں، یہ وہ بهوری سنہری آنکهیں تهیں جو شناسا تهیں-
” میں محمل ہوں-” جانے کیسے لبوں سے پهسل پڑا – ” مجهے دراصل راستے نہیں معلوم تو بهٹک جاتی ہوں-”
” اوہ آپ ہاسٹل میں نئی آئی ہیں؟ نیو کمر ہیں؟”
اور اسے امید کا ایک سرا نظر آ گیا- وہ شاید کوئی گرلز ہاسٹل تها-
” جی ، میں شام میں ہی آئی ہوں- نیو کمر! اوپر آ تو گئی ہوں مگر نیچے جانے کا راستہ نہیں مل رہا-”
” نیچے، آپ کے رومز تو تهرڈ فلور پہ ہی ہیں نا، پهر نیچے…… اوہ آپ تہجد پڑهنے کے لیے اٹهی ہونگی یقینا-” وہ خود سے ہی کہہ کر مطمئن ہو گئی- ” میں بهی تہجد کے لیے نیچے prayer Hall میں جا رہی ہوں، آپ میرے ساتھ  آ جائیں-”
اس نے آگے بڑه کر دروازہ کهولا، پهر گردن موڑ کر اسے دیکها-
” میں فرشتے ہوں، آ جائیں-” وہ دروازہ دهکیل کر آگے بڑھ گئی تو محمل بهی متزبزب سی پیچهے ہو لی- سامنے سنگ مر مر کی طویل راہداری تهی- دائیں طرف اونچی کهڑکیاں تهیں جن سے چهن کر آتی چاندنی سے راہداری کا سفید مرمریں فرش چمک اٹها تها- فرشتے راہداری میں تیز تیز آگے چلتی جا رہی تهی-
وہ ننگے پاوں اس کے تعاقب میں چلنے لگی- مردانہ کهلے پائنچے اس کے پاوں میں آ رہے تهے، مگر اوپر عبایے نے ڈهانپ رکها تها-
راہداری کے اختتام پر سیڑهیاں تهیں- سفید چمکتے سنگ مرمر کی سیڑهیاں جو گولائی میں نیچے جاتی تهیں- اس نے ننگے پاوں زینے پہ رکهے- رات کے اس پہر زینوں کا سنگ مرمر بےحد سرد تها- یخ ٹهنڈا- وہ محسوس کیے بغیر تیز تیز اترنے لگی-
تین منزلوں کے زینے ختم ہوئے تو سامنے ایک کشادہ برآمدہ تها- برآمدے کے آگئ بڑے بڑے سفید ستون تهے اور سامنے لان نظر آتا تها- ہلکی چاندنی میں برآمدہ نیم تاریک سا لگ رہا تها-
ایک کونے میں چوڑی، بےحد چوڑی سیڑهیاں نیچے جاتی دکهائی دے رہی تهیں- فرشتے ان سیڑهیوں کی طرف بڑهی تو لمحے بهر کو تو اسے خوف آیا-  وہ بےحد چوڑی سیڑهیاں خاصی نیچے تک جا رہی تهیں- مدهم چاندنی میں چند زینے ہی دکهتے تهے، آگے اب تاریکی میں گم تها- جانے کیا تها نیچے؟
فرشتے کے پیچهے وہ سہج سہج کر نیم تاریک زینے اترنے لگی- بہت نیچے جا کر فرش قدموں تلے آیا تو محسوس ہوا کی نیچے نرم سا قالین تها جس میں اس کے پاوں دهنس گئے تهے- وہ ایک بےحد طویل و عریض کمرے میں کهڑی تهی- وہ کدهر شروع ، کدهر ختم ہوتا تها، کچھ  پتا نہ چلتا تها- وہ ادهر ادهر گردن گهماتی اندهیرے میں آنکهیں پهاڑ پهاڑ کر دیکهنے کی کوشش کرنے لگی-
فرشتے نے دیوار پہ ہاتھ  مارا- بٹن دبانے کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے جیسے پورا آسمان روشن ہو گیا- محمل نے گهبرا کر ادهر ادهر دیکها-
وہ ایک بہت بڑا سا ہال تها- چهت گیر فانوس اور اسپاٹ لائٹس جگمگا اٹهی تهیں- ہال چھ  اونچے ستونوں پہ کهڑا تها- بے حد سفید ستون، سفید دیواریں، روشنیوں سے جگمگاتی اونچی چهت اور دیواروں میں اونچی گلاس ونڈوز-
” وضو کی جگہ وہ سامنے ہے-” فرشتے نے اپنے دوپٹے کو پن لگاتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا تو جیسے وہ چونکی، پهر سر ہلا کر اس طرف بڑھ  گئی-
وضو کی جگہ نیم تاریک تهی- سنگ مرمر کی چوکیاں اور سامنے ٹونٹیاں- ایک ایک ٹائل چمک رہا تها- وہ ہر شے کو ستائش سے دیکهتی ایک چوکی پہ بیٹهی اور جهک کر ٹونٹی کهولی-
فواد، اور وہ اے ایس پی…… محمل ابراہیم کو سب فراموش ہو چکا تها-
“سنو-” کهلے دروازے سے فرشتے سے جهانکا- ” بسم اللہ پڑھ کر وضو کرنا-”
محمل نے یونہی سر ہلا دیا اور پهر اپنے گیلے ہاتهوں کو دیکها جن پہ ٹونٹی سے نکل کر پانی پهسل رہا تها- وہ سر جهٹک کر وضو کرنے لگی-
فرشتے جیسے اس کے انتظار میں کهڑی تهی-
محمل اس کے برابر نماز کے لیے کهڑی ہو گئی شاید تہجد پڑهنی تهی اس نے ہاتھ  اٹهائے تو رات بهر کے تمام مناظر ذہن میں تازہ ہو گئے- درد کی ایک تیز لہر سینے میں اٹهی تهی-
دهوکہ دہی، اعتماد کا خون، فراڈ ، بےوقوف بنائے جانے کا احساس…… کیا کچھ  فواد نے نہیں کیا تها اس کے ساتھ ؟ وہ کس کس کا ماتم کرتی؟
سلام پهیر کر دعا کے لیے ہاتھ  اٹهائے تو ساری عمر کی محرومیاں اور نارسائیاں سامنے آنے لگیں-
” میں کیا مانگوں ؟” مانگنے کی ایک طویل فہرست ہے میرے سامنے- مجهے کبهی وہ نہ ملا جس کی تمنا میں نے کی تهی، جو ایک اچهی زندگی گزارنے کے لیے انسان کے پاس ہونا چاہیے، مجهے کبهی بهی وہ نہ ملا جو لوگ جمع کرتے ہیں- کیوں؟ کیوں میرے پاس وہ سب نہیں ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں؟”
اور جب دل نے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے چہره پہ ہاتھ  پهیر کر آنسو خشک کیے اور سر اٹهایا-
سامنے، ہال کے سرے پہ ایک بڑا سا اسٹیج بنا ہوا تها- درمیان میں میز اور کرسی رکهی تهی، ایک طرف فاصلے پی ڈائس بهی رکها تها- شاید وہاں درس و تدریس کا کام بهی ہوتا تها-
کرسی کے  پیچهے دیوار پہ ایک بہت خوبصورت خطاطی سے مزین فریم آویزاں تها- اس پہ وہ سرسری سی نگاہ ڈالتی یک دم ٹهٹهک کر رکی-
خوبصورت عربی عبارت کے نیچے اردو میں خوشخط لکها تها-
” پس لوگوں کو چاہئے کہ اس پہ خوشی منائیں- قرآن ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں-” ( یونس: 58)
وہ یک لخت چونکی-
” کیا ديکھ  رہی ہو محمل؟” فرشتے بغور اسے ديکھ  رہی تهی-
” یہی کہ میں نے بهی ابهی ایسا ہی کچھ سوچا تها- جو ادهر لکها ہے کتنا عجیب اتفاق ہے نا؟”
” اتفاق کی کیا بات ہے؟ یہ فریم اسی ليے تو ادهر لگا تها کیونکہ تم نے آج صبح یہاں یہی بات سوچنی تهی-”
” مگر فریم لگانے والے کو تو علم نہیں تها کہ میں یہی سوچوں گی-”
” لیکن اس آیت اتارنے والے کو تو تها نا-”
وہ چونک کر اسے دیکهنے لگی-
” کیا مطلب؟”
” جس نے قرآن اتارا ہے، وہ جانتا ہے کہ تم نے کب کیا سوچنا ہے، اور یہ تمہاری سوچ کا جواب ہے-”
” نہیں، اس نے شانے اچکائے-” میری سوچ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، میں تو بہت کچھ  سوچتی رہتی ہوں-” “مثلا کیا؟” وہ دونوں دوزانو ہو کر بیٹهی تهیں اور فرشتے بہت نرمی سے اسے ديکھ  رہی تهی-
یہی کہ اچانک کسی بےقصور انسان پہ خومخواه مصیبت کیوں آجاتی ہے؟”
” وہ اس کے اپنے ہاتهوں کی کمائی ہوتی ہے، ہم قطعا بهئ بےقصور نہیں ہوتے محمل-”
“غلط، بالکل غلط- میں نہیں مانتی-” وہ جیسے بهڑک اٹهی -” ایک لڑکی کو اسکا سگا تایازاد پروپوز کرنے کے بہانے ڈنر کا جهانسہ دے کر اسے خوب بننے سنورے کا کہہ کر، اپنے کسی عیاش دوست کے گهر لے جا کر ایک رات کےليے بیچ آئے، یہ خوامخواه کی مصیبت، خوامخواه کا ظلم نہیں ہے کیا؟”
” نہیں-”
“نہیں؟” محمل نے بےیقینی سے پلکیں جهپکائیں-”
” ہاں، قطعا نہیں- اسی صورتحال سے بچنے کو اللہ تعالی نے اسے بہت پہلے ہی بتا دیا تها- یقینا اس لڑکی کو یہ تو علم ہو گاکہ اسے ایک نامحرم کے لیے تیار نہیں ہونا چاہیے، اس کے ساتھ  ڈنر پہ نہیں جانا چاہیئے- کزن بهی تو نامحرم ہے نااور اسے یہ بهی پتا ہو گا کہ اسے اپنا چہرہ اور جسم اس طرح ڈهکنا چاہیے کہ کسی نامحرم ، بالفرض اس کے کزن کو ، کبهی علم ہی نہ ہو سکے کہ وہ اتنی خوبصورت ہے کہ وہ اسے “بیچنے” کا سوچے- اب بتاو، یہ ظلم ہے یا اس کے اپنے ہاتهوں کی کمائی؟”
وہ دهواں دهواں ہوتے چہرے کے ساتھ  بنا پلک جهپکے فرشتے کو ديکھ  رہی تهی جو سر جهکائے دوزانو بیٹهی آہستہ اور نرمی سے کہہ رہی تهی-
“اور یقینا اپنے کزن کے دهوکے میں آنے سے قبل کسی نے اللہ کے حکم سے اسے خبردار ضرور کیا ہو گا- اس کے ضمیر نے یا شاید کسی انسان نے اگر اس نے پهر بهی نہیں سنا اور اس کے باوجود اللہ نے اسے عزت اور حفاظت سے رکهے تو یہ تو اللہ کا بہت بڑا احسان ہے ، آوٹ آف دی وے فیور ہے- ہم اتنے بےقصور ہوتے نہیں ہیں محمل! جتنا ہم خود کو سمجهتے ہیں-”
وہ کہے جا رہی تهی اور اس کے ذہن میں دهماکے ہو رہے تهے-
چچاوں کا قطعیت سے فواد کو محمل کے آفس میں کام کرنے سے منع کرنا….. حسن کے الفاظ…… اور وہ تنبیہہ جو سدرہ کی منگنی والے روز اس نے کی تهی-
اس نے اپنی دائیں کلائی دیکهی- اس پہ ادھ مندمل ہوئے زخم کے نشان تهے- ہاں، حسن نے اسے خبردار کیا تها-
” میں…… فرشتے! واقعی مجهے-”
” اپنی نادانیوں پہ کسی کو گواہ نہیں بناتے محمل- چلو فجر کی اذان ہو رہی ہے، نماز پڑهتے ہیں-”
وہ سادگی سے کہتی پهر سے کهڑی ہو گئی تهی، مگر محمل اپنی جگہ سے نہ ہل پائی-
آگہئ کا آئینہ بہت بهیانک تصویر پیش کر رہا تها- اسے ایک ایک کر کے تمام باتیں یاد آنے لگیں- فرشتے ٹهیک کہہ رہی تهی- سب سے زیادہ قصور اس کا خود کا ہی تها- وہ آخر فواد کی گاڑی میں بیٹهی ہی کیوں تهی؟ اس نے دل اور مصحف میں سے دل کا انتخاب کیوں کیا تها-
اس نے بهیگی آنکهیں اٹهائیں – فرشتے اسی سکون سے رکوع میں کهڑی تهی اور سامنے وہی الفاظ چمک رہے تبه-
” قرآن ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں-”
اس کا دل رو دیا تها-
کیسے ڈهٹائی سے اس نے سیاه فام لڑکی کو اسکا مصحف واپس کیا تها- اس سمے اس کی آواز میں کیسی بےرخی تهی-
ٹی وی پہ اذان لگتی یا تلاوت ہوتی تو وہ چینل بدل دیا کرتی تهی- یہ آواز کانوں پہ بوجھ  لگتی تهی- سیپارے پڑهنا کتنا کٹهن لگتا تها اور سوائے پیپرز کے فجر تو اس نے کبهی نہ پڑهی تهی- اب وہی فجر پڑهنے کے لیے وہ فرشتے کے برابر کهڑی ہو گئی-
جاری ہے……..!

 
مصحف

اپنا تبصرہ لکھیں