انتخاب راحیلہ ساجد
صبح پرئیر ہال کی کشادہ سفید سیڑهیاں وہ ننگے پاؤں سست روی سے اتر رہی تهی- سفید شلوار قمیص کے اوپر پنک اسکارف نفاست سے اوڑهے، ایک ہاتھ ریلنگ پہ رکهے، وہ جیسے پانی پہ چلتی غائب دماغی میں نیچے آئی تهی-
پرئیر ہال کے گلاس ڈورز بند تهے- شیشوں کے پار تازہ صبح اتر رہی تهی- اس کو آج کچھ بهی اچها نہیں لگ رہا تها، وہ چپ چاپ اپنی جگہ پہ آئی- بیگ ڈیسک پہ رکها اور گرنے کے انداز میں بیٹهی-
اگر کالج ہوتا تو یقینا آج وہ نہ آتی، اتنی ڈپریسڈ ہو گئی تهی کہ وہ پڑھ نہ سکتی تهی- مگر وہ کالج نہ تها، نہ ہی وہ پڑهنے آئی تهی- وہ تو سننے آئی تهی-
بعض چیزیں اتنی حیرت انگیز ہوتی ہیں کہ انسان ان پہ حیران ہونا ترک کر دیتا ہے- معجزانہ کتاب بهی ایسی ہی تهی، عاجز کر دینے والی، مبہوت کر دینے والی- وہ جو سوچتی تهی، اس کتاب میں لکها آ جاتا تهااب محمل نے حیران ہونا ترک کر دیا تها- اسے لگا وہ اب کبهی حیران نہ ہو سکے گی- مگر آج کی آیات پہ وہ پهر چونکی تهی-
اور لوگوں میں سے کوئی ہے، اچهی لگتی ہے تمہیں اسکی بات دنیا کی زندگی کے متعلق….. ” اس نے سر گهٹنوں پہ رکھ دیا اور بازو گهٹنوں کے گرد لپیٹ لیے-
” اور وہ اپنی بات پہ اللہ کو گواہ بنا لاتا ہے، جبکہ حقیقت میں وہ سخت جهگڑالو ہے-”
اس نے سر اٹهایا، چہرہ دائیں جانب گهمایا، پنک اسکارف میں ملبوس لڑکیاں سر جهکائے تیزی سے قلم پیپر پہ چلا رہی تهیں- وہاں کوئی نہیں جانتا تها کہ اس کے دل پہ کیا گزر رہی ہے- کوئی نہیں سمجھ سکتا تها کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے-
بس وہی جانتا تها جس نے یی کتاب اس کے لیے اتاری تهی- اسے کبهی کبهی لگتا تها، یہ بس اسی کی کہانی ہے، کسی اور کو سمجھ آ ہی نہیں سکتا-
” اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے -”
اس نے دونوں کنپٹیوں انگلیوں سے سہلایا-
” اچهی لگتی ہیں تمہیں-”
وہ آہستہ سے اٹهی، سیپارہ بند کیا اور کچھ بهی لیے بغیر سیڑهیوں کی طرف بڑهی-
” اس کی بات-”
وہ دهیرے دهیرے زینے چڑھ رہی تهی-
” دنیا کی زندگی سے متعلق…….”
وہ آخری زینہ عبور کر کے راہداری کی طرف بڑهی-
” اور وہ اپنی بات پہ اللہ کو گواہ بنا لاتا ہےجبکہ حقیقت میں وہ سخت جهگڑالو ہے-” وہ تهکاوٹ سے باہر برآمدے کی سیڑهیوں پہ بیٹھ گئی- سامنے ہرا بهرا لان تها-
یہ تو اس نے اپنے دل سے بهی نہ کہا تها کہ اسے فواد کی بات اچهی لگی تهی- اس کی آفر دلفریب تهی، دلکش تهی- وہ اپنے دل سے اقرار کرنے سے ڈرتی تهی، مگر وہ تو ہر نگاہوں کی خیانت بهی جانتا ہے، اس سے کیسے چهپ سکتی تهی کوئی بات مگر اس نے اسے ڈانٹا نہیں ، ذلیل نہیں کیا جیسے لوگ کرتے تهے، اسکا تماشا نہیں بنایا جیسے خاندان والے بناتے تهے- اس کی بات سنی ان سنی نہیں کی جیسے نادیہ کرتی تهی، کوئی ڈانٹ ڈپٹ ، لعن طعن نہیں- بس وہی ایک نرم ، مہربان انداز جس کی تڑپ میں وہ قرآن سننے آتی تهی، وہ ڈانٹتا ہی تو نہیں تها، اس کی طرح کوئی سمجهاتا ہی نہیں تها- کوئی اس کی طرح تها ہی نہیں-
وہ وہیں بیٹهی تهی جب ساتھ ہی وہ لڑکی آ بیٹهی- غالبا مڈبریک تهی- اور لڑکیاں اس میں بهی بیٹھ کر تجوید کرتی تهیں-
وہ تهوڑی ہتهیلی تلے رکهے، چہرہ موڑے یونہی اسے دیکهے گئی-
وہ لڑکی گهٹنوں پہ قرآن رکهے بائیں ہاتھ سے صفحے پلٹ رہی تهی، دایاں ہاتھ ہونہی ایک طرف گرا پڑا تها- مطلوبہ صفحہ کهول کر اس نے بائیں ہاتھ سے گرے ہوئے ہاتھ کو اٹهایا اور گود میں رکها، پهر ٹهیک ہاتھ سے صفحے کا کنارہ پکڑے پڑهنے لگی-
” ان المسلمین اولمسلمات…..”
وہ رک رک کر اٹک اٹک کر پڑهتی، بار بار آواز ٹوٹ جاتی، وہ پهر سے شروع کرتی، مگر ہکلاہٹ زدہ زبان پهر ساتھ چهوڑنے لگتی- مخارج صحیح نہ نکل پاتے، وہ بدقت تمام ایک لفظ بولتی تو ساتھ “گاں گاں “آواز بهی آتی-
یکدم محمل کو احساس ہوا وہ رونے لگی تهی- اس کا مفلوج دایاں ہاتھ بار بار نیچے گر جاتا، وہ بائیں ہاتھ سے اسے اٹهاتی، پهر سے تجوید پڑهنے کی کوشش کرتی- اس کی آنکهیں سرخ یو گئیں، اور آنسو ابل کر گال پہ لڑهکنے لگے- وہ بائیں ہاتھ سے آنسو رگڑتی، دبی دبی سسکیوں کے ساتھ پهر سے کوشش کرنے لگی-
محمل گم صم سی اسے دیکهے گئی- وہ اپاہج لڑکی اپنے اللہ سے بات کر رہی تهی، وہ اس کا بہت ہمدرد تها- اسے محمل کی ہمدردی کی اس وقت ضرورت نہ تهی- لمحے بهر کو بهی اسے اس پہ ترس نہ آیا تها، بلکہ رشک ہوا تها، کوئی ایسے بهی تڑپ کر قرآن پڑهتا ہے جیسے وہ پڑه رہی تهی-؟ اور ایک ہم ہیں، برسوں اس مصحف کو لپیٹ کر سب سے اونچے شیلف میں سجائے رکهتے ہیں اور بس سجائے ہی رکهتے ہیں- وہ اسی طرح ہتهیلی ٹهوڑی تلے جمایے گردن پوری اس کی طرف موڑے پلک جهپکے بنا اسے دیکهے جا رہی تهی-
وہ پهر سے ہکلاتی زبان سے پڑهنے لگی، مگر ٹهیک پڑها نہ جا رہا تها، آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکهوں سے گر رہے تهے- دبی دبی سسکیوں کے درمیان وہ مسلسل استغفراللہ کہتی جا رہی تهی- عام سی شکل کی اپاہج لڑکی- اسے بے اختیار سیاه فام لنگڑی لڑکی یاد آئی-
وہ کتنوں کو سہارا دیے ہوئے تها، اور وہ کتنے بدنصیب ہوتے ہیں جو تلاوت کی آواز سن کر کان بند کر لیتے ہیں- کبهی میں بهی ان بدنصیبوں میں تهی-
وہ آہستہ سے اٹهی اور سر جهکایے چل دی-
برآمدے کی سیڑهیوں پہ بیٹهی اپاہج لڑکی اسی طرح رو رہی تهی-
وہ گیٹ بند کر کے اندر داخل ہوئی تو لان میں کرسیاں ڈالے تقریبا تمام کزنز بیٹهے تهے- فواد بهی ان کے ساتھ ہی تها- وہ کسی بات پہ ہنس رہا تها، شرٹ کا اوپری بٹن کهولے، قیمتی رسٹ واچ پہنے، اس کے پرفیوم کی مہک یہاں تک آ رہی تهی-
وہ کرسیوں کا دائرہ بنا کر بیٹهے تهے- یہ ندا تهی جو اس کی بات دلچسپی سے سن رہی تهی- جبکہ آرزو بهی اس دائرے میں لاتعلق سی بیٹهی تهی اور فائقہ بهی- رضیہ پهپهو کی فائقہ وہ بهی جیسے فواد سے احتراز برت رہی تهی- جیل جانے کے بعد بهلے تائی مہتاب جتنی تاویلیں پیش کرتیں، فواد کی اہمیت اب وہ نہ رہی تهی- وہ کتابیں سینے سے لگائے سر جهکائے تیز تیز چلنے لگی-
” محمل!” وہ برآمدے کے اسٹیپ پہ تهی جب فواد نے بےاختیار پکارا- اس نے ایک پاؤں سیڑهی پہ رکهے گردن موڑی- وہ مسکرا کے اسے دیکھ رہا تها-
” آؤ بیٹهو-”
” مجهے کام ہے-” روکهے سے تاثرات دے کر وہ برآمدے کا دروازہ پار کر گئی- لان میں بہت سی معنی خیز نگاہوں کا تبادلہ ہوا تها-
” اس کی ہمت کیسے ہوئی کہ یوں مجهے سب کے سامنے بلائے- مائی فٹ!” وہ پیر پٹختی اندر آئی تهی- لاؤنج میں حسن نظر آیا تو ایک دم ٹهٹهک کر رکی، پهر سر جهٹک کر اپنے کمرے کی طرف جانے لگی-” محمل!” اس کے قدم رک گئے مگر پلٹی نہیں-
” تمہیں فواد کی ہر بات پہ یقین ہے-”
“مجهے آپ پہ بهی یقین نہیں ہے-” اس کا گلا رندھ گیا تها، تیزی سے کہہ کر اس نے دروازہ کهولا اور پهر دهڑام سے اپنے پیچهے بند کیا-
حسن نے تاسف و بےبسی سے چند لمحے ادهر دیکها، سست روی سے اوپر سیڑهیاں چڑهنے لگا-
اس نے چمچہ ہلا کر پتیلی کا ڈهکن بند کیا، جهک کر چولہا قدرے آہستہ کیا، اور واپس کٹنگ بورڈ کی طرف آئی جہاں سلاد سبزیوں کا ڈهیر لگا تها- وہ وہیں کهڑے کهڑے، سر جهکائے کهٹ کهٹ سبزیاں کاٹنے لگی-
” ادهر ہو محمل!” رضیہ پهپپهو نے اندر جهانکا-
محمل نے سر اٹهایا- آج اس نے پونی نہیں باندهی تهی، اور بهورے لمبے بال شانوں پہ گر رہے تهے- جنہیں اس نے کانوں کے پیچهے اڑس رکها تها-
” جی پهپهو؟” وہ آہستہ سے گویا ہوئی- یہ محمل کے اندر ایک واضح تبدیلی تهی وہ پہلے جیسی بدلحاظ نہ رہی تهی، ورنہ پہلے تو اسے مخاطب کرتے ہوئے ڈر لگتا تها-
” میں نے سوچا ذرا تمہاری کوئی مدد کروا دوں – مسرت کو تو بهابهی نے دوسرے کاموں پہ لگا رکها ہے- کوئی تک ہے بهلا؟ جب دیکهو، بےچاری سے کام ہی کرواتی رہتی ہیں-”
” تو کوئی بات نہیں پهپهو! ہمارا فرض ہے- وہ نرمی سے مسکرا کر پهر سے سبزی کاٹنے لگی-
” یہ فواد رہا کب ہوا؟” پهپهو سامنے کاونٹر سے ٹیک لگائے، رازداری سے گویا ہوئیں-
” معلوم نہیں-”
” ہک ہا- بڑا ظلم کیا اس نے تمہارے ساتھ- میرا تو مانو اس کی شکل دیکهنے کا دل نہیں کرتا-”
وہ سر جهکائے کهٹا کهٹ پیاز کاٹتی جا رہی تهی- آنکهوں میں آنسو سے گرنے لگے تهے-
” بڑا دل تها میرا اپنی فائقہ کے لیے- مگر دل ایسا ٹوٹا کہ ادهر آنے کو ہی نہیں چاہتا تها، کتنے چہرے نکلتے ہیں نا لوگوں کے، محمل!-”
” جانے دیں پهپهو، انا اللہ پڑھ لیں- فائقہ باجی کوئی کم تهوڑی ہیں- وہ کسی اچهے بندے کے قابل ہیں، اچها ہی ہوا جو بهی ہوا-”
اسے پهپهو کے آزردہ چہرے کو دیکھ کر دکھ ہوا تها، یہ پہلی دفعہ تها کہ وہ اس کے ساتھ یوں بات کر رہی تهیں ، ورنہ پہلے تو درمیان میں محمل نے اتنی دیواریں کهڑی کر رکهی تهیں کہ انہیں پاٹنا مشکل تها، وہ اس کے ابا کی ایک ہی بہن تهیں- وہ کیوں لوگوں سے شکایت کرے؟ اس نے خود بهی تو کبهی بنا کر رکهنے کی کوشش نہ کی تهی-
” ہاں وہ تو ٹهیک ہے مگر…..-”
اسی لمحے فواد نے کچن کا دروازہ کهولا – ان دونوں نے چونک کر ادهر دیکها، محمل کے لب سختی سے بهنچ گئے- وہ تیز تیز سبزی کاٹنے لگی-
” محمل! ایک کپ چائے مل سکتی ہے؟”
” وہ فارغ نہیں ہے- اپنی بہنوں سے کہہ دو- وہ فارغ ہی بیٹهی تهیں باہر-” پهپهو نے نہایت بےرخی سے کہا، وہ چند لمحے کهڑا رہا ، پهر واپس مڑ گیا-
” ہونہہ، حکم دیکهو کیسے چلا رہا ہے- تم ذرا بهی اس کی نہ سنا کرو- میرے بهی کتنے خواب تهے- ہمیں کوئی کمی تهوڑی ہے- فائقہ کے پاپا کا تو بزنس تمہیں پتا ہے، کروڑوں میں کهیلتے ہیں- ان کی طرح یتیموں کا مال نہیں کهاتے-”
” میں یتیم نہیں ہوں پهپهو- میں بالغ ہوں، اور بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ہوتی-”
وہ اب سلاد میں لیموں نچوڑ رہی تهی-
” ہاں ہاں، تمہیں پتا ہے، ابهی فائقہ کے پاپا نے نیا گهر بنوایا ہے، دوسرا گهر تو پهر سے فرنش کر کے فائقہ کو جہیز میں دیں گے-”
محمل کے لیموں نچوڑتی انگلیاں تهمیں- ایک خیال کے پیش نظر اس نے چونک کر سر اٹهایا-
” پهپهو!” اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تها-” آپ کو مدد کی ضرورت ہو گی نا گهر شفٹ کیا ہے- آپ اکیلے کیسے کریں گی سب؟ نوکروں پہ بهروسہ کر ہی نہیں سکتے- میں آ جاؤں آپ کے پاس ہیلپ کروا دوں گی-”
” ہاں ہاں کیوں نہیں-” پهپهو تو نہال ہو گئیں- “بس تم سے کہنے ہی لگی تهی پهر سوچا تمہاری پڑهائی ہے-” ( تو اسی لیے اتنا پیار جتا رہی تهیں- خیر کوئی بات نہیں-)
” کوئی بات نہیں، ویک اینڈ ہے، پهر…آپ کی ہیلپ بهی تو کرانی ہے نا-”
اسے فواد سے دور رہنے کا یہی طریقہ نظر آیا تها، پهپهو نے تو فورا ہامی بهر لی- وہ جلدی سے اپنا بیگ تیار کرنے لگی-
تیاری کیا تهی دو جوڑے رکهے، چند ضروری چیزیں ، اور پهر قرآن رکهتے رکهتے وہ رہ گئی-
” قرآن تو وہاں ترجمے والا مل ہی جائے گا، دو دن کی تو بات ہے، اب ساتھ کیا رکهوں- کوئی بات نہیں-” اس نے بیگ کی زپ بند کی
پهپهو کا سامان شفٹ ہو گیا تها، بس ڈبوں میں بند تها- وہ جاتے ہی کام میں لگ گئی، فائقہ تو ٹی وی ہی میں مگن تهی- ڈش بهی لگ گئی تهی، اور رہ بہت شوق سے کچھ دیکھ رہی تهی- پهپهو نے اسے کچھ نہ کہا، محمل ہی ساری چیزیں نفاست سے سیٹ کرتی رہی-
راگ گیارہ بج گئے جب اس نے آج کے لیے بس کی- اور پهر نہا کر نیا سوٹ پہنا- پهر نئے سرے سے وضو کیا، اور دوپٹہ سر پہ لپیٹے، وہ پهپهو کے پاس گئی-
” پهپهو آپ کے پاس ترجمے والا مصحف ہو گا؟”
” کیا…..ترجمے والا” وہ اپنے کپڑوں کی الماری سیٹ کر رہی تهیں –
” قرآن…..قرآن ہو گا-” اس نے جلدی سے وضاحت کی-
“ترجمے والا تو….. فائقہ کی دادی کا تها پچهلے گهر میں – مگر وہ کسی نے مانگ لیا تها، ترجمے بغیر والا ہو گا-
” اچها….. چلیں وہی دے دیں-”
” کتابوں کے ڈبے سے نہیں نکلا؟”
” نہیں تو، میں نے خود ساری کتابیں ادهر رکهی ہیں-”
” پهر شاید کہیں مس پلیس ہو گیا ہو، فائقہ سے پوچهو-” وہ پهر سے کام میں مگن ہو گئیں-
وہ بےدلی سے فائقہ کے پاس آئی-
” فائقہ باجی ، آپ کے پاس قرآن ہو گا؟”
” میرے پاس؟ میں نے کیا کرنا ہے؟ ” وہ الٹا حیران ہوئی- ” اماں سے پوچهو، ان کو ہی پتا ہو گا-
وہ مایوس سی خود ہی ڈهونڈنے لگی- کتابوں کے ریک کو پهر سے دیکها’ ایک ایک چیز چهان ماری، مگر قرآن نہ تها نہ ملا-
وہ اپنے کمرے میں آئی، اور اپنا بیگ پهر سے کهولا- شاید کوئی معجزہ ہو جائے اور شاید اس نے قرآن رکھ دیا ہو، سارے کپڑے اوپر نیچے کیے- مگر وہ ہوتا تو ملتا-
وہ پهر سے لاؤنج میں گئی-
” فائقہ باجی، آپ کے پاس کوئی کیسٹ ہو گی تلاوت کی؟”
” نہیں!” فائقہ نے لاپرواہی سے شانے جهٹکے-
” کوئی چینل ہو گا جس پہ تلاوت آ رہی ہو-؟”
” تنگ مت کرو محمل، میں مووی دیکھ رہی ہوں -” وہ اکتا کر رخ پورا ٹی وی کی طرف موڑ کر بیٹھ گئی-
محمل تهکے تهکے قدموں سے واپس آئی اور پهر بیڈ پہ گر کر نہ جانے کیوں وہ رونے لگی تهی- اسے قرآن پڑهنا تها-
رات وہ بےچین سی نیند سوئی- اگلا سارا دن کام کرواتے وہ مغموم، بےچین رہی، کهانے کے بهی چند لقمے لے سکی- اس سے کهایا ہی نہیں جا رہا تها-
ہفتے اور اتوار کے وہ دو دن اس کی زندگی کے جیسے بدترین دن تهے- اس کا بس نہیں چلتا تها وہ اڑ کر گهر پہنچ جائے ، اور اپنا قرآن تهام لے- کوئی ایسا اتفاق تها کہ رضیہ پهپهو کا ڈرائیور چهٹی پہ چلا گیا، وہ اب ان کے میاں نفیس انکل سے کہہ بهی نہیں سکتی تهی- گهر سے بهی کوئی نہیں دے کر جائے گا، وہ جانتی تهی-
اللہ اللہ کر کے اتوار کی رات گهر سے گاڑی اسے لینے آئی-
پهر جس لمحے وہ گهر میں داخل ہوئی، بجائے کہیں اور جانے کے، بجائے کسی سے ملنے کے وہ بهاگ کر اپنے کمرے میں گئی، شیلف پہ بیگ ایک طرف ڈالا اور شیلف پر سے قرآن اٹها کر سینے سے لگا لیا-
اسے لگا اب وہ زندگی بهر قرآن کے بغیر کہیں نہیں جا سکے گی- لوگ چابی، بٹوہ اور موبائل کے لیے آتے ہیں، قرآن کے لیے کوئی واپس نہیں آتا نہ جانے کیوں-
” محمل!” اماں پکارتی ہوئی آئیں، تو اس نے آنسو خشک کیے اور اپنے صحف کو احتیاط سے شیلف پہ رکها-
” محمل…. یہ لو-” اماں نے دروازہ کهولا اور ایک خط کا لفافہ اس کی طرف بڑهایا- ” تمہاری ڈاک آئی تهی کل-”
” میری ڈاک؟” اس نے حیرت سے لفافہ تهاما- مسرت جلدی میں تهیں، لفافہ دے کر پلٹ گئیں-
اس نے الجهتے ہوئے لفافہ چاک کیا، اور اندر موجود کاغذات نکالے-
وہ اسکالر شپ تها جو اس کو دے دیا گیا تها- انگلینڈ میں اعلی تعلیم کا اسکالرشپ-
وہ بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تهی-
جاری ہے…….!