تحریر عمیرہ احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
” برا نہ ماننا مہتاب بهابهی! مگر وسیم کو میرے سمیع نے ہی نشے کی حالت مین رات کے دو بجے سڑک سے اٹها کر تمہارے گهر پہنچایا تها”
” ہاں تو سمیع خود اس وقت ادهر کیا کر رہا تها؟” تائی ہاتھ نچاتے ہوئے غصے سے بےقابو ہو کر بولی تهیں-
وسیم کی بات بچپن سے آغاجان کے چچا زاد آغاسکندر کی بیٹی کے ساتھ طے تهی- کچه عرصے سے آغاسکندر کی فیملی کهنچی کهنچی سی رہنے لگی تهی ¡اور جب یہ باتیں منظر عام پہ آئیں تو انہوں نے فون پہ ہی دوٹوک رشتہ ختم کر دیا-
” گزرے برسوں کی ایک نادانی تهی، وہ مہتاب بهابهی! بهلا کس طرح ہم اپنی بیٹی کو ایسے لڑکے سے بیاہ دیں جسے پورے خاندان مین کوئی رشتہ دینے کو تیار نہیں؟”
” اور میں بهی آ پ کو خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی وسیم کی دلہن بنا کر دکهاؤں گی-” تائی نے بهی کهولتے ہوئے فون پٹخا تها-
محمل کو قابو کرنے، اس کی جائیداد حاصل کرنے اور وسیم کو بیاہ کر خاندان میں گردن اونچی کرنے کا بہترین حل تائی کو نظر آ ہی گیا تها- انہوں نے ایک تیر سے تین شکار کر لیے تهے-
وہ سر جهکائے تیز تیز سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تهی- آنکهوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے جا رہے تهے- لمبے سیدهے بهورے بال شانوں پہ پهیل کر کمر پہ گر رہے تهے، کہاں ، کدهر، اسے کچھ پتا نہ تها-
زندگی اس کے ساته یوں بهی کر سکتی ہے، اس نےتو سوچا بهی نہ تها، ایک تنگ پهندا تها جو اسے اپنی گردن کستا محسوس ہو رہا تها-
اداس درختوں کی گهنی باڑ آج بهی ویسے ہی کهڑی تهی- شام کے پرندے شاخوں پہ لوٹ آئے تهے- وہ راستہ جانا پہچانا تها- وہ تیزتیز قدم اٹهارہی تهی، جب اس خی سماعتوں نے وہ آواز سنی-
” محمل،….رکو-”
مگر وہ نہیں رکی، اسے رکنا نہیں تها، وہ رکنے والا راستہ تها بهی نہیں-
” محمل!” وہ تیز دوڑتا اس کے ساتھ آ ملا- “بات تو سنو-”
پهولی سانسوں سے اس کے بائیں طرف اس کی رفتار سے بمشکل مل پاتا وہ ہمایوں تها، ٹریک سوٹ میں ملبوس، وہ شاید جاگنگ سے آ رہا تها-
” کیا ہوا ہے محمل؟ مجهے نہیں بتاؤ گی-؟”
اس کے قدم تهمے بہت آہستہ سے اس نے گردن اٹهائی ، بهیگی سنہری آنکهوں سے مسلسل آنسو گر رہے تهے-
” میرا اور آپکا کیا رشتہ ہے جو میں آپ کو بتاؤں؟”
” کیا انسانیت کا رشتہ کچھ نہیں ہوتا-؟”
” کچھ نہیں ہوتا-” وہ تیزی سے چلنے لگی تهی-
” مگر ہوا کیا ہے؟”
” میری تائی نے میرا رشتہ اپنے آوارہ بیٹے سے طے کر دیا ہے-”
” تو تم رو کیوں رہی ہو؟”
” پهر کیا خوشی مناؤں؟” وہ پوری طرح اس کی طرف گهومی- غصہ بہت شدت سے ابلا تها- یہی شخص تها اس کی ہر مشکل کا ذمےدار-
” ٹهیک ہے، تم صاف انکار کر دو- کچھ اور کر لو- لیکن اگر یوں اپنے آپ پہ ظلم سہتے روتی رہو گی تو گهٹ گهٹ کر مر جاؤ گی-” اس نے بهیگی آنکهوں سے ہمایوں کا چہرہ دیکها، مغرور مگر فکر مند چہرہ-
” میں مروں یا جیوں، آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟”
اس کے انداز پہ وہ چند لمحے لب بهنچے خاموش کهڑا رہا، پهر گہری سانس اندر کو کهینچی- ” ہاں ، مجهے فرق نہیں پڑتا-” اور واپس پلٹ گیا-
” ہونہہ-” محمل نے استیزائیہ سر جهٹکا- ” آپ وہی ہیں نا، بیچ راہ میں چهوڑ دینے والے-” وہ جیسے چونک کر پلٹا-
اسی پل ہوا کا ایک تیز جهونکا آیا تها- اس کے بهیگے چہرے کے اطراف میں گرے بال پیچهے کو اڑنے لگے تهے-
” اور آپ کو پتا ہے ہمایوں! اسی لیے آپ سے میں نے کبهی امید ہی نہیں لگائی تهی، پهر کیا میں نہ روؤں-” وہ کہہ کر واپس پلٹ گئی، ہوا بهی پلٹ گئی، شام کے پرندے بهی پلٹ گئے-
وہ ساکت سا تارکول کی ویران سڑک پہ کهڑا رہ گیا-
درختوں کی باڑ اب بهی اداسی سے سر جهکائے کهڑی تهی-
اس نے اسٹاف روم کے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی- چند لمحے منتظر سی کهڑی رہی، پهر جواب نہ پا کر اندر جهانکا- اسٹاف روم خالی تها-
وہ کتابیں سینے سے لگائے متذبذب سی واپس پلٹ گئی- اسی پل سامنے سے ایک گروپ انچارج آتی دکهائی دی-
” السلام علیکم، باجی میم فرشتے کدهر ہیں؟”
” فرشتے جی ہاسٹل کی لائبریری مین ہوں گی، ان کو کچھ کام تها’ اسی لیے وہ آج آ نہیں سکیں-”
” اچها-” _وہ تیزی سے سیڑهیاں پهلانگنے لگی-
لائبریری کا گلاس ڈور کهلا تها- اس نے قدرے جهجهکتے ہوئے اندر قدم رکها-
کتابوں کے اونچے ریکس ، اور دیوار گیر فرنچ ونڈوز لائبریری کا مخصوص خاموش ماحول-
” فرشتے؟” اس نے ہولے سے پکارا- خاموش لائبریری کا تقدس زخمی ہوا تو وہ گڑبڑا کر چپ ہو گئی-
” لائبریرین نے کسی کونے سے نکل کر آئی ،اور ایک طرف اشارہ کیا، وہ شرمندہ سی ادهر لپکی-
چند ریکس سے گزر کر اس نے دوسری طرف جهانکا-
وہ کتاب اٹهائے کهڑکی سے باہر دیکھ رہی تهی، ہلکے گلابی شلوار قمیص پہ گرے دوپٹہ شانوں کے گرد لپیٹے، فرشتے کی اس کی طرف پشت تهی، محمل کو اس کی کمر پہ گرتے سیدهے بهورے بال دکهائی دیے تهے-
وہ ذرا سی حیران ہوئی تهی- اس نے ہمیشہ حجاب میں ملبوس فرشتے کو دیکها تها- سر ڈهکے بغیر تو وہ قطعا مختلف لگ رہی تهی-
” فرشتے؟” وہ جیسے چونک کر مڑی، اسے دیکها تو مسکرا دی- ” ارے ماشاءاللہ، آج تو لوگ لائبریری آیۓ ہیں-”
” مگر صرف آپ سے ملنے کے لیے-”
” بیٹهو-” وہ کهڑکی سے لگی کرسی پہ آ بیٹهی، جس کے سامنے میز تهی- میز کے اس طرف ایک خالی کرسی رکهی تهی- وہ محمل نے سنبهال لی اور کتابیں میز پہ رکھ دیں-
” مجهے ہمایوں نے کچھ بتایا تها-” وہ کہنے لگی تو محمل خاموشی سے اسے دکهے گئی-
لمبے سیدهے بهورے باک جو اس نے کانوں کے پیچهے کر رکهے تهے- دمکتی رنگت والا چہرہ اور کانچ سی سنہری آنکهیں، اس کے نقش مختلف تهے ، مگر آنکهیب اور بال یوں تهے جیسے وہ آئینہ دیکھ رہی ہو-
” تو تمہارا رشتہ انہوں نے اپنے بیٹے سے طے کر دیا ہے؟”
محمل نے ہلکا سا اس بات میں سر ہلایا-
” توتم انکار کر دو-”
” کس کے لیے انکار کروں؟ اس کے لیے جو بیچ راہ میں چهوڑ جاتا ہے؟ وہ کہنا چاہتی تهی، مگر کہہ نہ سکی- یہ تو ابهی اس نے اپنے دل سے بهی نہ کہا تها، فرشتے سے کیسے کہتی؟
” میں کیوں انکار کروں؟ کیا میں صبر کر کے اجر نہ لوں؟”
” محمل! مظلومیت اور صبر میں فرق ہوتا ہے اور وہ فرق احتجاج کرنے کا حق رکهنے کا ہوتا ہے، بجائے اپنی زندگی خراب کرنے کے، تم ایک بہتر راستہ چن لو، صاف صاف انکار کر دو-”
” مجهے ان کے ری ایکشن سے ڈر لگتا ہے-”
” اس پہ تم صبر کرلینا-” وہ ہلکی سی مسکرائی- ” رشتہ داروں کے ساتھ بہت صبر سے گزارا کرنا پڑتا ہے لڑکی-”
” آپ کرتی ہیں صبر؟”
” کیا مطلب؟”
” آپ کے رشتے دار ہیں فرشتے؟ آپ کے پیرنٹس؟ اور ہمایوں کے پیرنٹس-” اس نے سوال ادهورا چهوڑ دیا- جانتی تهی فرشتے کو ادهورے سوال پڑهنے آتے ہیں-
میری امی کی ایک ہی بہن تهیں- ہمایوں انکا بیٹا ہے- ان کی ڈیتھ کے بعد امی نے ہمایوں کا گود لے لیا تها – یہ بہت پرانی بات ہے، ڈیڑھ سال پہلے میری امی کی ڈیتھ ہو گئی- پهر میں نے اور ہمایوں نے فیصلہ کیا کہ گهر میں ہمایوں رہے اور میں ہاسٹل میں رہوں-”
” اور آپ کے ابو؟”
” میں میٹرک میں تهی جب ان کی ڈیتھ ہوئی-”
” آپ کے ابو کی کوئی بہن تو ہونگی؟” اس نے اندهیرے میں تیر چلایا-
” ہاں، ایک بہن ہیں-” فرشتے کهڑکی سے باہر دیکھ رہی تهی-
” کدهر رہتی ہیں؟”
” یہیں، اسی شہر مین-”
” وہ آپ سے ملتی ہیں؟”
” نہیں، کچھ پرابلمز کی وجہ سے وہ لوگ مجھ سے نہیں ملتے-”
” اورآپ؟”
” میں کوشش تو کرتی ہوں کہ ہر عید پہ ان کے گهر ہو آؤں، لیکن وہ میرے اوپر دروازے بند کر دیتے ہیں-”
” پهر؟” وہ بنا پلک جهپکے اسے دیکهتی آگے کو ہوئی-
” پهر میں کیک اور پهول دے کر واپس آ جاتی ہوں- میری اتنی ہی استطاعت ہے، آگے کیا کر سکتی ہوں؟” وہ سادگی سے مسکرائی-
( کیک اور پهول؟ عیدوں پہ تو بہت جگہوں سے مٹهائی اور کیک اور پهول آتے تهے، کیا وہ بهی بهیجتی تهی؟)
” آپ کی پهپهو کے کتنے بچے ہیں؟”
” ایک ہی بیٹی ہے-” اور اسے پتا تها فرشتے جهوٹ نہیں بولتی- اس کا تجسس تها کہ بڑهتا ہی جا رہا تها-
” کیا عمر ہوگی اس کی؟”
” مجھ سے تو چند سال چهوٹی ہی ہے؛”
” نام کیا ہے؟”
” یہ ضروری تو نہیں محمل! فرشتے جیسے مضطرب سی ہوئی تهی-
” ہو سکتا ہے مین آپ کی فیملیز کو ملانے میں کچھ مدد کر سکوں؟”
” نہیں-” فرشتے نے بغور اسے دیکهتے نفی میم سر ہلایا- ” تم میری پهپهو کی بیٹی کو نہیں جانتیں-”
” پهر بهی……”
” کیا ہم ٹاپک چینج کر سکتے ہیں؟”
اس نے ازلی ٹهوس اور قطعی انداز پہ وہ گہری سانس لے کر رہ گیی-
” یہ کهڑکیاں بہت خوبصورت ہیں-” وہ کہہ کر پرسوچ انداز میں باہر اترتی صبح کو دیکهنے لگی-
رات کهانے کے بعد اس نے سب کے کمروں میں چلے جانے کا انتظار کیا، یہاں تک کہ لاؤنج میں ٹی وی کے آگے جم کر بیٹهی لڑکیاں بهی اٹھ اٹھ کر جانے لگیں اور لاؤنج خالی رہ گیا تو وہ دبے قدموں باہر نکلی- آج اسے آغاجان کو صاف انکار کرنا تها-
لاؤنج اندهیرے میں ڈوبا ہوا تها – آغاجان کے بیڈروم کے دروازے سے روشنی کی لکیر آ رہی تهی- وہ آہستہ آہستہ قدم اٹهاتی دروازے تک آئی- قریب تها کہ وہ دستک سے ڈالتی کہ اندر سے آتی آوازوں نے اس کا ہاتھ روک لیا-
” اس لڑکی سے کوئی بعید نہیں- آج پهر میرے آفس آ گئی تهی–”
آغاجان کی سوچ میں ڈوبی آواز آئی-
” کون؟ فرشتے؟” تائی کا حیران کن لہجہ- ” پهر وہی پرانی بات کرنے کہ محمل کی جائداد میں اسکا بهی حصہ نکالیں-؟”
محمل کو لگا کہ پوری چهت اس پہ آن گری ہے-
” ہاں آج وہ آفس آئی تهی اور یہ بهی کہہ رہی تهی کہ اگر ہم نے وسیم سے محمل کا رشتہ کرنے کی کوشش کی تو……”
تایاجان کچھ کہہ رہے تهے اور چند دن پہلے کی پڑهی گئی ایک حدیث اس کے کان میں گونجی، جس کا فہم کچھ اس طرح تها کہ اگر کوئی تمہارے گهر میں جهانکے اور تم پتهر مار کر اس کی آنکھ پهوڑ دو تو تم پہ کوئی گناہ نہیں- نہیں- وہ گهبرا اٹهی- اسے نہیں دیکهنا چاہیے- وہ غلط کر رہی ہے- وہ کسی کی پرائویسی میں جهانک رہی ہے-
اگلے ہی لمحے وہ واپس کمرے کی طرف بهاگی تهی-
دروازے کی کنڈی لگا کر وہ پهولی سانس کو قابو کرتی بیڈ پہ گر سی گئی اور دونوں ہاتهوں میں سر تهام لیا-
” محمل کی جائیداد میں فرشتے کا حصہ؟-
گو کہ اسے شک تها کہ فرشتے کا اس سے تعلق ضرور ہے اور شاید بلکہ یقینا وہ اس کے ان قطع تعلق کیے ہوئے ننهیالی رشتےداروں میں سے ہے، لیکن پهر بهی تائی کے منہ سے اس کا نام سن کر اسے بہت بڑا جهٹکا لگا تها- اس سے بهی بڑا جهٹکا فرشتے کا مطالبہ جان کر ، کیا فرشتے نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ محمل کے حصے میں سے اسے بهی کچھ دیا جائے؟ مگر کیوں؟ فرشتے ایسے کیوں کرے گی-؟
سیاه سبایا میں ملبوس گرے اسکارف میں ملائم چہرے کو مقید کیے سنہری آنکهوں کو جهکائے دونوں ہاتهوں میں چهوٹا قرآن پکڑے بال پوائینٹ سے صفحے پہ کچھ مارک کرتی فرشتے-
وہ کون تهی؟ اس کا پورا نام کیا تها؟ وہ ہمایوں سے زیادہ ملتی نہ تهی، لیکن محمل کے متعلق ہر خبر اس کے پاس ہوتی تهی- وہ کیوں اس کی خبر رکهتی تهی؟ اور وہ کیوں آغاجان سے ملتی تهی-؟
بہت سی الجهنوں کے سرے وہ سلجها نہ پا رہی تهی- لیکن ایک بات طے تهی، فرشتے کا عظمت بهرا وہ تصور جو اس نے ذہن میں بنا رکها تها، گر کر پاش پاش ہو گیا تها- پتا نہیں کیوں؟
جاری ہے…….