مہتاب تائی نے کمرے کے کهلے دروازے سے اندر جهانکا-
” محمل سے کہو، شاپنگ کے لیے چلے- اس کے جوتے کا ناپ لینا ہے- ورنہ بعد میں خود کہے گی کہ پورا نہیں آتا-
وہ بیڈ پہ کتابیں کهولے بیٹهی تهی، جبکہ مسرت الماری سے کچھ نکال رہی تهیں- تائی کی آواز پہ دونوں پہ بری طرح چونک کر انہیں دیکها تها جو اسے نظر انداز کیے مسرت سے مخاطب تهیں-
( تو وہ وسیم والا قصہ ابهی تک باقی ہے؟) اس نے کوفت سے سوچا تها- پچهلے کچھ دنوں میں پے در پے ہونے والے واقعات نے وقتی طور پہ اسے وہ معاملہ بهلا دیا تها- یہ بهی کہ حسن کی مخالفت ابهی برقرار تهی-
” مگر تائی اماں، میں انکار کر چکی ہوں-”
” لڑکی! میں تمہاری ماں سے بات کر رہی ہوں-”
” مگر میں آپ سے بات کر رہی ہوں-” اسکا لہجہ نرم مگر مضبوط تها-
” مسرت؟ اس سے کہو، تیار ہو جائے ، میں گاڑی میں اسکا ویٹ کر رہی ہوں- ” وہ کهٹ کهٹ کرتی وہاں سے چلی گئیں- اس نے بے بسی سے ماں کو دیکها- وہ اس سے بهی زیادہ بےبس نظر آ رہی تهیں-
” اماں آپ…….”
” ابهی چلو جاؤ، محمل ! ورنہ وہ ہنگامہ کر دیں گی-”
” یہ سمجهتی کیوں نہیں ہیں؟” وہ زچ سی ہو کر کتابیں رکهنے لگی-
” شاید حسن کچھ کر سکے- مجهے حسن سے بہت امید ہے-”
” اور مجهے اللہ سے ہے!” وہ کچھ سوچ کر عبایا پہننے لگی- پهر سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹا اور پن لگائی- خوامخواہ ہنگامہ کرنے کا فائدہ نہ تها- چلی ہی جائے تو بہتر ہے- باقی بعد میں دیکها جائے گا-
لاؤنج میں سیڑهیوں کے پاس لگے آئینے کے سامنے وہ رکی- ایک نظر اپنے عکس کو دیکها- سیاہ حجاب میں سنہری چہرہ دمک رہا تها- اونچی پونی ٹیل سے حجاب پیچهے سے اٹھ گیا تها اور بہت اچها لگ رہا تها-
وہ یونہی خود کو دیکهتی پلٹی ہی تهی کہ آخری سیڑهی اترتے حسن پہ نظر پڑی-
” کدهر جا رہی ہو؟”
” تائی اماں کے ساتھ، شادی کی شا پنگ پہ-”
” تم راضی ہو محمل؟” وہ بهونچکا سا اس کے قریب آیا- وہ بےاختیار دو قدم پیچهے ہٹی-
” اس گهر میں، مجهے اپنی رضا سے اس فیصلے کا اختیار نہیں ملا حسن بهائی-
وہ کتنے ہی لمحے خاموش کهڑا اسے دیکهتا رہا- پهر آہستہ سے لب وا کیے-
” ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں-”
اور محمل کو لگا اس نے تهپڑ دے مارا ہے-
” آپ کو پتہ ہے ، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟” وہ بمشکل ضبط کر پائی تهی-
” ہاں، میں تمهیں اس دلدل سے نکالنے کی بات کر رہا ہوں-”
” آپ کورٹ میرج کی بات-؟ اناللہ واناالیہ راجعون- میں سوچ بهی نہیں سکتی تهی کہ آپ مجھ سے یہ بات کریں گے-”
” تمہیں اعتراض کیوں ہے محمل! یہ تمہاری شادی زبردستی وسیم سے کر دیں گے اور تم…”
” حسن بهائی پلیز، آپ کو پتا ہے کورٹ میرج کیا ہوتی ہے؟ سرکاری شادی، کاغذوں کی شادی- میں ایسی شادی کو نہیں مانتی جس میں لڑکی کے ولی کی مرضی شامل نہ ہو-
اور میں کیوں یوں چهپ کر شادی کرونگی؟ نہ آپ سے، نہ وسیم سے- میرا راستہ چهوڑ دیں- وہ بےبس سا سامنے سے ہٹا تو وہ تیزی سے باہر نکل گئی-
گاڑی کی پچهلی سیٹ کا دروازہ کهول کر کوئی اندر بیٹها – اس نے ڈرائیور سمجھ کر یونہی بیک ویو میں دیکها تو جهٹکا سا لگا-
وہ وسیم تها- اپنے ازلی معنی خیز انداز ميں مسکراتے، وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تها- اسے لگا اس سے غلطی ہو چکی ہے- مگر اب کیا کیا جاسکتا تها-؟
لب کچلتی وہ کهڑکی سے باہر دیکهنے لگی-
تائی مہتاب منگنی کی شاپنگ کر رہی تهیں یا شادی کی، وہ کچھ نہ سمجھ سکی- بس چپ چاپ ان کے ساتھ میٹرو میں چلی آئی- وہ جہاں بیٹهیں، ان کے ساتھ بیٹھ گئی-
” سنا ہے ، تم نے بڑا شور ڈالا تها- ” تائی اٹھ کر ایک شو کیس کے قریب گئیں تو وہ اس کے ساتھ صوفے میں دهنس کر بیٹها- محمل بدک کر اٹهی-
” ارے، بیٹهو بیٹهو- مجهے تم سے بات کرنی ہے-”
شاپ کی تیز پیلی روشنیاں وسیم کے چہرے پہ پڑ رہی تهیں، گریبان کے کهلے بٹن، گردن سے لپٹی چین، اور شوخ رنگ کی شرٹ اف، اسے اس سے کراہت آئی تهی-
” کیا بات کرنی ہے؟”
” تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتیں تو کس سے کرنا چاہتی ہو؟” وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ رہا تها- اس کے ذہن کے پردے پہ ایک چہرہ سا ابهرا- ایک اندرونی خواہش- ایک دبتی، دباتی محبت کی ادهوری داستان- اس نے بے اختیار سر جهٹکا-
” نہ آپ سے، نہ کسی اور سے- آپ میرا پیچها چهوڑ کیوں نہیں دیتے؟”
” ایسے نہیں محمل ڈئیر، ابهی تو ہم نے بہت سا وقت ساتھ گزارنا ہے-” وہ کهڑے ہو کر اس کے قریب آیا- وہ پهر دو قدم پیچهے ہٹی- دکان لوگوں سے بهری ہوئی تهی- پهر بهی محمل کو اس کے بے باک انداز سے خوف آتا تها- نہ معلوم وہ کیا کر ڈالے-
اچها ادهر آؤ، مجهے تم سے کچھ بات کرنی ہے-” وہ قدم اٹهاتا اس کے نزدیک آ رہا تها” ادهر آئس کریم پارلر میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں-” تائی……. تائی اماں-” بےبس سی وہ بهیڑ میں تائی مہتاب کو تلاش میں ادهر ادهر دیکهنے لگی-
” تمہاری تائی کو ان کی کوئی فرینڈ مل گئی ہے، وہ ابهی نہیں آئیں گی- تم ادهر قریب تو آؤ نا محمل ڈئیر-” وسیم نے ہاتھ بڑها کر اس کی کلائی تهامنا چاہی، اس کی انگلیاں اس کی کلائی سے ذرا سی مس ہوئیں- محمل کو جیسے کرنٹ سا لگا – ہاتھ میں پکڑا ہینڈ بیگ اس نے پوری قوت سے وسیم کے منہ پہ دے مارا-
” گهٹیا آدی، پیچهے ہو!” وہ چلائی تهی-
بیگ اس کی ناک پہ زور سے لگا تها- وہ بلبلا کر پیچهے ہٹا- شور کی آواز پہ بہت سے لوگ ادهرمتوجہ ہوئے- سیلز بوائز کام چهوڑ کر ان کی طرف لپکے-
” یو…… یو بچ…..! وسیم تو غصے سے پاگل ہی ہو گیا- ناک پہ ہاتھ رکهے، وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑها ہی تها کہ ایک لڑکے نے اسے پیچهے سے پکڑ لیا-
” کیا تماشا ہے؟ کیوں بچی کو تنگ کر رہے ہو؟”
” میڈم، کیا ہوا یے؟ یہ بندہ تنگ کر رہا تها آپ کو؟”
بہت سی آوازیں آس پاس ابهریں- کچھ لڑکوں نے وسیم کو بازوؤں سے پکڑ رکها تها-
” یہ مجهے تنگ کر رہا تها، اکیلی لڑکی جان کر-” اس نے بمشکل خود کو سنبهالا اور کہہ کر پیچهے ہٹ گئی- اسے معلوم تها، اب کیا ہو گا- اور واقعی ، وہی ہوا، اگلے ہی لمحے وہ لڑکے وسیم پہ پل پڑے- وہ گالیاں بکتا خود کو چهڑانے کی کوشش کر رہا تها، مگر وہ سب بہت زیادہ تهے-” مارو…….. اسے مارو…….. شریف لڑکیوں کو چهیڑتا ہے-” ایک عمر رسیدہ صاحب ہجوم کے پاس کهڑے غصے سے کہہ رہے تهے-
” زور سے مارو، اسے عبرت کی مثال بنا دو-”
” اپنے گهر ماں بہن نہیں ہے کیا؟”
اور وہ ماں جب تک دکان میں لگے ہجوم تک پہنچی، وہ وسیم کو مار مار کر ادھ موا کر چکے تهے- تائی اس کی طرف لپکیں- تهوڑی ہی دور صوفے پہ محمل بیٹهی تهی- ٹانگ پہ ٹانگ رکهے، مطمئن سی وسیم کو پٹتے دیکھ رہی تهی-
” محمل- یہ اسے کیوں مار رہے ہیں؟”
” کیونکہ اس کے باپ کے کہنے پہ مجهے کبهی ایسے ہی مارا گیا تها-”
” بکواس مت کرو-”
” بڑی دلچسپ بکواس ہے یہ، آپ بهی انجوائے کريں نا-” وہ محفوظ سی وسیم کو پٹتے دیکھ رہی تهی- شاپ کا بوکهلایا ہوا مینیجر اور سیلز بوائز مشتعل نوجوانوں کو چهڑانے کی کوشش کر رہے تهے-
” سر پلیز- سر دیکهیں-” سیلز بوائز کی منت کے باوجود وہ لڑکے ان کو دیکهنے کی زحمت ہی نہیں کر.رہے تهے- حواس باختہ سی تائی مہتاب ان کی طرف کی دوڑیں-
“میرے بیٹے کو چهوڑو، پرے ہٹو مردودو!” وہ چلا چلا کر ان لڑکوں کو ہٹانے کی سعی کر رہی تهیں-
” اب یہ مرتے دم تک مجهے ساتھ نہیں لائیں گی-” ساری صورتحال سے لطف اندوز ہوتی وہ چپس نکال کر کترنے لگی-
جاری ہے……..!