رابعہ صادق
برمنگھم
بیگم کی اس میں کوئی غلطی نہیں تھی ۔
قصور سراسر میرا تھا ۔
آدھی رات کو پیاس کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی ۔نیند میں چلتا کچن تک جاپہنچا ۔
ادھ موئی آنکھوں سے فریج میں جھانکا تو پیپسی کی ڈیڑہ لیٹر والی بوتل میں آدھ لیٹر پیپسی پڑی تھی۔
“گیس کا جن تو نکل چکا ہوگا ۔پھر بھی چلے گی ”
یہ سوچ کر ڈھکن کھولا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔اور سیدھی حلق میں انڈیل لی ۔۔۔ذائقہ سمجھ آنے تک آدھی معدے میں تھی ۔
پینے کے بعد سمجھ آیا کہ ڈھکن وہ نہیں تھا جو کھولا گیا تھا ۔۔۔۔۔
کچھ نمکین تیکھا اور عجیب سا پی گیا ۔۔
کتنی دیر سکتے میں کھڑا رہا کہ کیا پی گیا ہوں ۔زندگی میں چکھے ہوئے ہر ذائقے کو یاد کیا ۔اتنا برا” اورل ٹیسٹ” پہلی بار تھا ۔
بھاگ کر بیگم کو اٹھایا ، پوچھ لوں
” کس جرم میں زہر دیا ھے “؟
بیگم نے کچن تک آنے میں اتنی دیر لگائی جتنی دیر میں لاہور لیجا کر مجھے بچایا جاسکتا تھا ۔اس نے وہ ایٹمی فارمولہ ایمپائر والی انگلی سے چیک کیا ۔۔اسے بھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ ھے کیا؟ ”
گھر بھر کو جگا کر تحقیقات شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ سویا ساس کی پلاسٹک والی بوتل کا ڈھکن خراب تھا ۔چنانچہ اسے پیپسی کی خالی بوتل میں ڈال کر مجھ پہ قاتلانہ حملہ کیا گیا ھے ۔
“سویا ساس سے کوئی نہیں مرتا” بیگم نے مایوسی سے بیان جاری کیا اور سوگئی ۔
میں جاگ رہا ہوں ۔
پیٹ کی عجیب “حاملائی “کیفیت ھے ۔
کوئی چیز حرکت کرتی محسوس ہورہی ھے ۔
ایسے لگتا ھے جیسے میرینیٹ ہورہا ہوں ۔اس تابکاری عمل سے “کہیں پھٹ نہ جاؤں