ناروے کی رنگ ریک کی جیل میں قیدیوں پر اس بات کی پابندی لگا دی گئی ہے کہ وہ پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کا ذکر کریں۔اس کے علاوہ اس طرح کی ڈرائنگ پر بھی پابندی ہے جس سے کسی بھی قسمکا کوئی ہنگامہ ہو سکتا ہے۔جیل کے آفیسر نے بتایا کہ یہ اقدامت حوالات میں امن کا ماحول قائم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
جب کہ ایک قیدی نے نارویجن اخبار آفتن پوستن کو بتایا کہ اس کی بنائی گئی ڈارئنگ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی حالانکہ اس نے تصویر میں ایک سکھ کی پگڑی بنائی تھی۔اس جیل میں طویل قید کے ایک سو ساٹھ مجرم ہیں۔جب کہ کچھ ریمانڈ پر بھی ہیں۔اس لیے یہاں سخت حفاظتی اقدامات ہیں۔
جیل کے مینیجر ہاکون میلولدHåkon Melvold کا کہنا ہے کہ انہوں نے پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے تمام اسباب یہاں ختم کر دیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیلکے قیدیوں کو اس قسم کے علامتی نشانات یا ایسے اثرات ظاہر کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے جیل کا امن خراب ہو یا جو بدقسمتی بن جائے۔
NTB/UFN
بہت عجیب بات ہے ایک جیل خانہ میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے فرانس میں ہونے والے واقع اور اس قسم کی ڈرائینگ پر تو پابندی تو لگائی جار ہی ہے سو چنے والی بات ہے کہ کیا پورے ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت نہیں ہے۔ الحمد لله کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ “اظہار آزادی کی آڑ میں کی جانے والی شرارتیں ملک کے امن و امان کو تباہ کرتے ہیں۔”
جی ساجدہ صاحبہ آپ نے بہت اچھا نقطہ اٹھایا ہے۔ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے کہ معاشرے میں بھی ایسی پابندیاں اور قانون لاگو ہونے چاہیئںجن سے امن تاراج نہ ہو اور مہذب کہلانے والی قومیں دوسری اقوام کی تضحیک کر کے اپنے اداروں اور قوم کے لیے مصیبتیں نہ مول لیں۔ نارویجن کائونٹی کی جیل کا یہ آفیسر یقیناً ایک ذہین اور دور اندیش شخص ہے۔اس کا یہ اقدام نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ باقی لوگوں اور قوموں کے لیے قابل تقلید بھی ہے۔فرانسیسی حکومت اور دیگر اقوام کو اس نارویجن جیل کے حکام سے سبق لینا چاہیے۔