چھ سالہ خوبصورت اور ذہین بچہ اپنے والدین کے ساتھ جوتوں کی دوکان پر گیا ۔ جوتوں کی دوکان پر ماں سے ضد کرتا ہے میں نے لائٹ والے جوتے لینے ہیں۔ماں بچے کو سمجھاتی ہے لائٹ والے جوتے جلدی خراب ہو جاتے ہیں تم دوسرے لو پہلے بھی خراب ہو گئے تھے۔ چند ماہ بھی نہیں چلے۔بچہ پھر بھی ضد کرتا ہے ۔باپ بھی چمکارتا ہے یہ دیکھو کتنے اچھے جوتے ہیں بالکل بییٹس مین وسیم اکرم کے جیسے بچہ بدستور منہ بسورتا ہے۔دوکاندار جوتوں کا جوڑا لاتا ہے یہ دیکھو بیٹا ایسے جوتے سپر مین بچپن میں پہنتا تھا مگر بچہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔آدھا گھنٹہ گزر جاتا ہے بچے کو مناتے مناتے ۔
آخر ماں نے بچے کو کان میں ایک بات کہی بچہ کی آنکھیں پہلے حیر ت اور پھر خوف سے پھیلیں پھر وہ جلدی سے ماں کی پسند کا جوتا خریدنے پر راضی ہو گیا۔ تیزی سے ایک جوتا پسند کیا اور پہن کر دیکھا ۔دوکاندار اور باپ اپنی جگہ پریشان ۔جوتوں کے پیسے لیتے ہوئے دوکاندار سے رہا نہ گیا ۔بڑی لجاجت سے بولا آپ پلیز وہ بات تو بتا دیں جو آپ نے بچے کو کان میں کہی اور وہ فوراً آپ کی پسند کا جوتا لینے پر راضی ہو گیا۔
ماں ہنستی ہوئی بولی میں نے تو اپنے بیٹے سے کان میں صرف یہ کہا تھا کہ اگر واپڈا والوں نے تمہارے جوتے میں لائٹ جلتی دیکھ لی تو وہ کئی لاکھ روپئے کا بل بناکر بھیج دیں گے جبکہ تمہارے پاپا کی تنخواہ صرف ایک لاکھ روپئے ہے۔ بس میرا بیٹا یہ بات سن کر پہلے تو بہت پریشان ہوا پھر فوراً ہی ہو گیا۔دوکاندار ماں کی بات سن کر ہکا بکا رہ گیا۔