محترمہ رابعہ درانی کی زیر نظر تحریر نہایت سنجیدہ معاشرتی مسا ئل اور انسانی رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مزاح انسانی زندگی میں خوشگوار لمحات کا اضافہ تو کرتا ہے لیکن غیر محسوس طریقوں سے جس طرح انسانی رویوں میں تبدیلی پیدا کرتا ہے اور قریبی رشتے جس طرح تحقیر کا شکار ہو جاتے ہیں اس کی نشاندہی کی گئی ہے التماس ہے کہ اسے توجہ سے پڑھا جا ئے۔ میجر (ر) زرگون گل
لطیفے اور رشتے ””””””””””” رابعہ درانی
بیوی کے رشتے پر انتہا درجے کے مذاق اور لطائف بنا کر بیوی کو خودسر ،ہڈدھرم، لالچی اور کم عقل ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ بیوی کا برابری کا درجہ ان لطائف کی زد میں آ کے مسلسل کمتر حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں احباب نے نوٹس کیا ہو گا کہ میں نے اپنے پیج پر ایک ایکٹیویٹی کی جس میں تمام لطائف شوہر یا مرد کے متعلق شیئر کیے۔ چند بار حضرات ہنسے لیکن پھر دبا دبا احتجاج بلند ہونا شروع ہوا کہ اپ تو مردوں کی کلاس لے رہی ہیں۔ شوہروں پر تو لطیفے لکھتی ہیں بیوی پر بھی لکھیں۔ ان لطائف میں وقتی ہنسی سے بڑی رمز چھپی ہے۔ لطیفہ اور ہنسی پیچھے رہ جاتی ہے بیوی یا شوہر سے متعلق ایک منفی نکتہ ذہن میں خفیہ طور پر جڑ پکڑ جاتا ہے۔ بعینہ یہی حال پھوپھی ماموں اور سالے کے رشتے پر لطائف بنا کر کیا گیا۔ یعنی جو بےلوث محبت کے رشتے ہیں ان پر مخفی ،منفی پیغام کے ساتھ بنے لطائف سے ان کی تحقیر کی جائے۔ اس طرح نئی جنریشن اور پہلے سے موجود بالغ لیکن کم عقل جنریشن کے اذہان میں ان رشتوں کی اہمیت کم کر کے انہیں محض مذاق بنا کر رکھ دیا جائے۔ جو شوہر دوستوں میں بیوی کے لطائف سن کر آئے وہ بیوی کو لطیفے سنائے یا نہ سنائے اپنی بیوی کو اسی تناظر میں دیکھے گا ضرور۔
بیوی کی بہن کیسی ہی دیندار کیوں نہ ہو اسے بہنوئی دل ہی دل میں سالی (نہایت ذومعنی ) کے رشتے سے یاد کرے گا۔ بیوی کا بھائی کیسا ہی معزز کیوں نہ ہو رہے گا وہ سالا ہی، یہ لفظ معاشرے میں کتنا معزز ہے سبھی واقف ہیں۔اچھا دیور بھابی پر روایتی ٹپے موجود ہیں لطائف موجود نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس محترم لیکن نامحرم رشتے کی بنا لطیفے بنائے ہی اسقدر تحقیر کر دی گئی ہے کہ اپ سوشل میڈیا پر لفظ دیور یا بھابی لکھ کے سرچ بھی نہیں کر سکتے۔ صرف گٹر ابلتا ہے۔
بلاشبہ جب حضور اکرم ص نے دیور کو بھابی کے لیے موت قرار دیا تو اس کی وجہ بھی تھی۔ یہی حد بعینہ بہنوئی اور سالی کے رشتے پر بھی عاید رہنی چاہیے۔بچے کے ماموں کتنے ہی سمجھدار پروقار ہستی کیوں نہ ہوں اس لفظ کو بےوقوف کا مترادف بنا دیا گیا ہے۔ پھوپھو، جان نثار ماں جیسی ہستی کیوں نہ ہو اسے صوتی مماثلت اور لطائف کے زور پر پھپھے کٹنی کے مترادف ٹھہرا دیا گیا۔پھوپھو کو تو باقاعدہ ایک رویہ ڈکلیئر کر دیا گیا ہے۔ ایسا مخلص رشتہ جو پہلے ہی ازدواجی بندھن کی وجہ سے میکے سے دور رہنے پر مجبور ہو اسے برا بنا کر بالکل ہی میکے سے دور کر دیا گیا ہے۔ بھلا کون سی بیوی اپنی راجدھانی میں پھپھے کٹنی فسادن کی آمد پسند کرے گی۔ پس بھابی نے نند اور باپ نے پھوپھو کو خود سے دور کر دیا ہے۔ بھتیجے تو اس رشتے کی مٹھاس سے محروم ہوئے ہی لیکن والدین کے جانے کے بعد بھائی کے گھر سے میکے کی خوشبو تلاش کرنے والی بہن کا میکہ اگر دوسری بہن قائم رکھے تو رکھے بھائی تو لفظ پھوپھو کے خوف سے دور رہنا پسند کرنے لگے ہیں ان لطائف نے رفتہ رفتہ سالا سالی گالی ، دیور بھابی گالی ، ماموں احمق کے اور پھوپھو پھپھے کٹنی کے مترادف بنا دیے ہیں۔ ساس جلاد یا ہٹلر کے اور سسرال، سسرائیل جیل یا قید کے مترادف بنا دیے ہیں۔ لفظ بیوی لطائف کی روشنی میں کم عقل ،کم فہم ،دکھ درد نہ سمجھنے والی ،خرچیلی جھگڑالو، سکون نہ دے سکنے والی، جلدباز اور پھوہڑ عورت کے کردار کا آفیشل نام بن گیا ہے۔ یہ سبھی عزت کے رشتے تھے جنہیں ہنسی مذاق میں بے توقیر کر دیا گیا ہے۔اب اس کا مداوا محض بہترین گھریلو تربیت سے ہی ممکن ہے جہاں والدین اپنی اولاد کو تمام رشتوں باتوں سے اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے حفظ و مراتب سے کماحقہ متعارف کروائیں۔
سچ ہے ضرورت سے زیادہ مذاق عزت میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
—