>> تحریر ۔ یوسف عالمگیرین
لوٹا شائد اُن چند ایک مصنوعات میں سے ہے جو مذہب اور سیاست دونوں شعبوں
>> میں یکساں مقبول ہے۔ عوام لوٹے کے بغیر ایک دن بھی نہیں گزار سکتی۔ لوٹا
>> اکثر اوقات سلور‘ پیتل اور مٹی سے بنایا جاتا ہے۔ لوٹا اپنی تشکیل سے
>> پہلے پہلے جس بھی کیفیت میں چاہے رہ سکتا ہے لیکن ایک مرتبہ جب وہ لوٹا
>> بن جائے پھر کم از کم عزت کے ساتھ واپسی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔
>> لوٹا ضروری نہیں ایک ٹوٹی والا ہی ہو۔ مٹی کے بنے ہوئے بعض لوٹے دو
>> ٹوٹیوں والے ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹوٹیاں اتنی بے ضرر اور اتنی چھوٹی ہوتی
>> ہیں کہ انہیں ٹٹول کر دیکھا جاتا ہے۔ لوٹے میں دو ٹوٹیاں ہوں تو اس کا کم
>> از کم ایک فائدہ ضرور ہے کہ یہ معلوم ہوتا اصل میں لوٹا ہے کس کی طرف۔
>> گویا ہر پارٹی سمجھتی ہے کہ یہ لوٹا ہمارا ہے۔ لیکن وہ لوٹا کسی کا تو
>> کیا اپنا بھی نہیں ہوتا۔
>> لوٹے کی افادیت کثیرالجہتی ہوا کرتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ لوٹا اونٹ کی طر
>> ح کسی کروٹ بھی بیٹھ سکتا ہے بلکہ لوٹا چور پکڑنے کے کام بھی آتا ہے۔
>> لوٹے کا کمال ہے کہ وہ چور تو پکڑ لیتا ہے لیکن خود کبھی نہیں پکڑا جاتا۔
>> لوٹا جب کوئی چوری پکڑنے کے لئے میدان عمل میں آتا ہے چوروں میں تھرتھلی
>> مچ جاتی ہے وہ لوٹا خود اندر سے انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے کہ اس
>> کے اندر چور ہوتا ہے۔ گویا جس طرح پیٹ کے اندر اڑھی ہوتی ہے اسی طرح لوٹے
>> کے اندر چور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر کا چور باہر کے چوروں کے ساتھ
>> ڈیلنگ اور مُک مکا کا اتنا ماہر ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی موٹی
>> ہیراپھیری کرتے ہوئے نہیں چوکتا۔
>> لوٹے کی ایک خوبی جو اسے دیگر مصنوعات سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ بلاامتیاز
>> سب کی خدمت کے لئے آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے واش روم میں رکھ دیں تب
>> خوش۔ اسے صرف وضو کے لئے گھر کے کونے میں رکھ چھوڑیں تب بھی اس کی پیشانی
>> پر کوئی بل نہیں پڑتے یا پھر اسے ہاتھ میں تھامے شہر سے یا کسی گاؤں سے
>> دور نکل جائیں وہ بخوشی ہم سفری قبول کرتا ہے۔ لوٹا فطری طور پر آزادمنش
>> واقع ہوا ہے۔ لیکن ریلوے حکام نجانے لوٹوں سے کیوں نالاں ہیں کہ انہوں نے
>> ٹرینوں میں لوٹوں کو زنجیر سے باندھ کر رکھا ہوتا ہے۔ لوٹا پلاسٹک‘ سلور‘
>> تانبا‘ لوہا‘ مٹی ہر شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی لئے لوٹا بہت مقبول ہوتا
>> ہے۔ لوٹے کے کسی محفل میں داخل ہوتے ہی لوگوں کے چہرے دمک اٹھتے ہیں اور
>> وہ لوٹا آ گیا لوٹا آ گیا۔ کا نعرہ مستانے بلند کرتے ہوئے لوٹے کا
>> استقبال کرتے ہیں۔
>> لوٹوں کی مختلف اوقات میں مختلف قیمت لگتی ہے۔ لوٹے کی قیمت دس دس ‘ بیس
>> بیس‘ چالیس چالیس روپوں سے چالیس چالیس کروڑ بھی لگتی ہے۔ لیکن چالیس
>> کروڑ کا لوٹاکوئی کوئی مائی کا لال ہوتا ہے۔ وہ کم قیمت لگنے پر لال پیلا
>> بھی ہو جاتا ہے۔ لوگ اسے جو بھی کہیں اسے اس کی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن جو
>> اُس کی بولی لگا رہا ہوتا ہے اس کے لئے وہ کوہ نور ہیرے سے کم نہیں ہوتا۔
>> گویا لوٹا چاندی بھی ہے‘ لوٹا سونا بھی ہے اور لوٹا ہیرا بھی ہے لیکن ایک
>> لوٹا مٹی بھی کہ وہ مٹی ہی سے بنا ہوتا ہے۔ اور اس نے لوٹ کر اسی مٹی میں
>> جانا ہوتا ہے۔ جو لوٹا اپنی مٹی سے تعلق نہیں توڑتا اس کی شان ہی نرالی
>> ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو ہی منفرد ہوتی ہے۔ اس میں گرم تپتا ہوا پانی بھی
>> ڈالیں تو کچھ لمحوں بعد وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ الغرض لوٹے کی تاثیر ٹھنڈی
>> ہوتی ہے کہ لوٹا خیرِ کثیر ہوتا ہے۔ لوٹا صرف ووٹ ہی نہیں حوصلے بھی
>> بڑھاتا ہے۔ بعض اوقات ایک لوٹا آنے سے کہانی کا رُخ ہی بدل جاتا ہے‘
>> پانسے پلٹ جاتے ہیں۔ بہرکیف لوٹا اگر ایک گروہ کے لئے خوشی کا باعث ہے تو
>> دوسروں کو چھوڑ کر آنا بھی شائد اس کے لئے دکھ کا باعث نہ ہوتا ہو جن کو
>> وہ چھوڑ کر آتا ہے ان کے لئے غم کا ایک کوہ گراں بن جاتا ہے۔ لوٹے کی
>> زندگی میں غم اور ندامت رچی بسی معلوم ہوتی ہے کہ لوٹا جتنا بھی بارعب ہو
>> اس کی آنکھیں پیچھے چھوڑ کر آنے والوں کا سامنا نہیں کر پاتیں۔ لیکن لوٹا
>> تو لوٹا ہوتا ہے۔ وہ کیا کرے کہ اس کی اگر آنکھیں دو ہیں تو ٹوٹیاں بھی
>> دو ہوتی ہیں۔ جو اسے نت نئی سمتوں کا تعین کرنے کے لئے بے تاب رکھتی ہیں۔
>> ہم تو یونہی چلتے رہیں گے
>> جلنے والے جلتے رہیں گے
>>
>> —
>>