لوڈ شیڈنگ کی کرامات
” کیا تاریکی ہمارا مقدر ھے؟”
عابدہ رحمانی
بیرون ملک طویل قیام کے بعد پاکستان واپسی پر سب سے پہلے جو غیرمتوقع صورتحال ہماری منتظرہوتی ہے وہ لوڈ شیڈنگ ہے، اتنے عرصے میں ہم اسکو فراموش کر چکے ہوتے ہیں –لیکن وہ تو ہمارے مادر وطن کی کلفتوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے اور اپنی موجودگی کا احساس ہمیں پوری شدت سے دلاتی ہے ۔۔حکومتیں بدلیں، حکمران بدلے، بیانات بدلے،دھرنے ، احتجا ج ،ہڑتالیں ہوئیں لیکن لوڈ شیڈنگ کی کمی اور سدھار میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی– ہر آنے والے حکمران نے بلند باگ بیانات دئے اور سادہ لوح عوام سمجھے کہ یہ حکومت آئی ہے تو اسکے پاس الہ دین کا چراغ یقینی ہے۔۔ بجلی کی چکا چوند ہوئی ہی ہوئی لیکن واہ رے قسمت کہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
لوڈ شیڈنگ کے عام معنی تو’ بار یا وزن کو ہلکا کرنا یا کم کرنا ہے’ لیکن پاکستان میں اسکا مطلب بجلی کا گھڑی گھڑی جانا ٹھرا’ یہ اسکا آنا یہ اسکا جانا یہ اسکا آنکھ مچولی کھیلنا
بجلی ہے یا کوئی ظالم اور سفاک محبوب ہے؟ ” اس تک بندی کے لئے معاف فر مائیے گا-
یہ اصطلاح میں نے اور کہیں نہیں سنی ہے اس لئے اغلب خیال ہے کہ یہ خالص پاکستانی اصطلاح ہے اور یہ اب یہاں کے باشندوں کی زندگی کا ایک
لازمی جز بن چکی ہے- ،ہاں البتہ پچھلے چند سالوں ے گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہےاسوقت گیس کی صورتحال یہ ہوئی کہ کہ پنجاب میں تمام سی این جی اسٹیشن گیس کی کمی کے باعث بند کر دئے گئے ہیں ارے گولی ماریں گیس کو اسوقت ہم بجلی کی بات کرتے ہیں۔۔۔
کیونکہ یہا ں لوڈ شیڈنگ کا عام مطلب سوائے بجلی جانے اور غائب ہونے کے اور کوئی نہیں لیا اسوقت حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام کاروباری اور تجارتی ادارے نو دس بجے بند کردئیے جائیں تاکہ بجلی کی بچت ہو – یہ توانائی کا بحران دہشت گردی کے بعد پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے – اس لوڈ شیڈنگ نے نت نئے کاروباروں اور متبادل کو جنم دیا ہے ،جنریٹر تو بہت پرانی چیز تھے ، کراچی میں جب ہمارا بڑا جنریٹر چلتا تھا تو ہمارے پڑوسی الامان والحفیظ پڑھتے تھے -آدھا شور ان بیچاروں کو سہنا پڑتاتھا’رات کو تو خیر وہ اندر ہوتے تھے لیکن دن میں احتجاج کے فون پر فون آنے شروع -مارے شرمندگی اور پڑوس کے حقوق کا خیال رکھتے ہوۓ ہم سبکو گرمی برداشت کرنے کی تلقین کئے جاتے – اب تو صاحب ثروت لوگوں نے سٹینڈ بائی جنریٹر لگا رکھے ہیں اسی طرح دفتروں اور ہسپتالوں میں ہیں- ادھر بجلی گیئ ادھر خود بخود چل پڑا پھر یو پی ایس آیا وہ ہمیں زیادہ پسند آیا ادھر بجلی گئی اور خاموشی سے اسنے اپنے فرائض سنبھالے-لیکن اسکو چارج کرنے کے لئے بجلی چاہئیے اب تو یہ حال ہے کہ وہ آدھے گھنٹے میں ہی ٹیں بول جاتاہے ۔۔اسکا اسقرر ضخیم کاروبار ہے- بیٹریوں ے کارخانے لگ گئے ،باہر سے بھی برآمد کی جاتی ہیں- اس کے علاوہ لالٹین ، گیس بتی، موم بتی ، دئے،ایمرجنسی لائٹ ، ٹارچ پرانی چیزیں ہیں-
مغرب میں ہم موم بتیاں تفریحا خریدتے ہیں ،مقصد گھروں میں خوشبو بکھیرنا یا پھر کینڈل لائٹ ڈنر ہوتا ہے پاکیستان میں ہماری موم بتیوں کا بھی شارٹ فال ہوجاتا ہے۔
لیکن ابھی لاہور میں جہاں میرا قیام تھا وہاں اس مکان کی پوری چھت پر شمسی توانائی کے پینل لگے ہوئے تھے اور اس سہولت کے باعث بجلی کے آنے جانے کا احساس صرف بیٹریوں کی چوں چوں سے ہوتا تھا — صاحب خانہ کیلیئےیہ ایک زبردست کاروبار بھی ہے اور ذاتی سہولت بھی ۔۔ وہ اور انکی بیگم فر فر اسکے کوائف اور فوائد سے آگاہ کرتے رہے ۔۔ شمسی توانائی کی اس سہولت سے پاکستان میں ہر شخص بجلی میں خود کفیل ہو سکتا ہے پھر یہ یو پی ایس اور شور مچانے والے جنریٹروں سے بدرجہا بہتر ہے لیکن جو پہلے ہی ان ذرائع پر بھاری اخراجات کرکے بیٹھے ہیں وہ شمسی توانائی کے حصول پر اخراجات میں متذبذب ہیں ۔، امریکہ کے مختلف ریاستوں میں شمسی توانائی کے استعمال پر ٹیکس میں زبردست چھوٹ ملتی ہے-
جب بھی بجلی غائب ہوتی ہے،دفتروں ،بنکوں ‘ ہسپتالوں اورمختلف اداروں میں افراد سے یہی فقرہ سننے کو ملتاہے” ہمارا مقدر ہی تاریک ہے، اسی لئے تاریکی ہمارا مقدرہے”- مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میری یہ قوم بری طرح یاسیئت کا شکار ہوگئی ہے–
—
بچہ ، بوڑھا ، جوان ،پڑھا لکھا ان پڑھ سب ہی اس لوڈشیڈنگ سے واقف ہیں بلکہ بخوبی واقف ہٰیں- ایک نسل اس لوڈ شیڈنگ کے ساتھ جوان اور بوڑھی ہو چکی ہے-مجھے یاد ہے کہ تقریبا ٢٠،۲۵ سال پہلے جب ڈیموں میں پانی کم ہوتا تھا تو اسلام آباد میں ایک یا دو گھنٹے کی لوڈ شیڈینگ ہوتی تھی اب یہاں ہر دو گھنٹے پر ایک گھنٹہ بجلی غائب ، پرسوں رات موسلا دھار بارش تھی ساری رات انتظار رہا کہ ابھی جائے گی اور اب، نجانے کیوں نہیں گئی ۔ نمعلوم کوئی بھول چوک ہوگئی ، کچھ عجیب سی بے کلی اور بیچینی رہی کہ گئی کیوں نہیں؟–ہاں یہ ضرور ہے کہ صبح ہم نے اس انوکھے واقع پر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں- تو معلوم ہوا کہ بارش کی وجہ سے فیڈر بھیگ جاتے ہیں اور بجلی کو بند کرنا اور کھولنا تباہ کن ہو سکتاہے-
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستانی زندگی مسرتوں سے انتہائی بھرپور ہے- بجلی آنے اور نہ جانے کی خوشی انمیں سے ایک ہے- پرسوں اپنی ایک عزیزہ اور بچپن کی دوست جو موجودہ حکومت میں سینیٹر ہیں ملنے گئی،وہ اور انکے شوہر ایمرجنسی لائٹ جلا کر بیٹھے تھے کہنےلگے “آج دو بجے سے غائب ہے” ہائے اس سادگی پر قربان جاؤں – جہاں
مجہے یہ اچھا لگاکہ وہ ہم غریب اور متاثر عوام میں سے ایک ہیں وہاں مجھے ارباب اقتدار کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی شک گزرا-
کہنے لگی’ شارٹ فال تو پہلے سے آرہا ہے،ابادی اتنی بڑھ گیئ ،وسائیل نہیں بڑھے-آپکی حکومت نے کیا کیا ہے؟” ہم کوشش کر رہے ہیں دراصل پاکیستانی بہت بے صبری قوم ہے”
ارے بھئی صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے- دنیا کہاں جارہی ہے آپ کہاں جارہے ہیں -اسپر بھی بہت سے کہتے ہیں ‘ بھئ ہم تو قناعت پسند اور صابر قوم ہیں-
ایوب خان کے زمانے میں وارسک، منگلہ اور تربیلا ڈیم بنے – کراچی کا ایٹمی بجلی گھرشائد بھٹو کے زمانے میں بنا- کالاباغ ڈیم کا مسئلہ ابھی تک حل نھیں ہوا- چھوٹے چھوٹے چند ڈیم بنے – ثمر مبارک مند نے پیش گوئی کی تھی کہ تھر کوئلے سے گیس اور بجلی دونوں حاصل کی جاسکتی ہے نہ جانے اسکا کیا ہوا؟–لیکن جو لوگ بجلی کے متبادلات کی بدولت دن دگنی اور رات چوگنی کما رہے ہیں وہ تو ہرگز یہ نہیں چاہیںگے کہ ہمہ وقت بجلی مہیا ہوٓٓ–اور انکی پانچوں گھی میں انگلیاں سوکھ جائیں—
پاکستان کے بڑے بڑے بحرانوں میں بجلی کا بحران انتہائی اہم ہے- گرمیوں میں خصوصا جب عوام گرمی سے بلبلا اٹھتے ہیں اور انکے تمام متبادل جواب دے جاتے ہیں تو پھر توڑ پھوڑ اور مظاہرے شروع–اس کوشش میں غنڈے بدمعاشوں کی بر آتی ہے، نتیجتا مذید تباہی و بربادی—
ایک عام صارف کے لئے بجلی انتہائی مہنگی ہے -اب سنا ہے کہ میٹروں میں رد و بدل نہیں ہوسکتا-ورنہ پہلے تو بجلی کے لائن مین خود ہی پیش کش کرکے ،چند ہزار کے بدلے آپکا میٹر سست کردیتے- ایک مرتبہ میری ایک تہجد گزار دوست کا بل دیکھا تو حیرت زدہ گھرمیں 3’4 اے ‘سی چلتےتھے اور بل 500 روپے–اللہ جانے ہماری ایمانداری کا کیا معیار ہے؟
جگہ جگہ جا بجا کنڈے،اسکا کیا حساب ہے بعض اوقات لگتا ہے دھاندلی ہے دھاندلی اسکا آسان حل کہ” نہ ہوگا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ پچھلے دنوں خیبر پختونخواہ کے چندگاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا ہمارے خوش قسمت گاؤں میں 24 گھنٹے میں دو گھنٹے بجلی غائب تھی جبکہ دیگر میں ۲۴ گھنٹوں میں دو گھنٹے کے لئےبجلی کی آمد ہوئی ۔۔
دنیا اسوقت بہت آگے بڑھ چکی ہے ۔۔ بیشتر ایسے ممالک ہیں جنکی راتیں بقع نور ہو کر دن کا منظر پیش کرتی ہیں ۔۔ شمالی امریکہ میں رہتے ہوئے اکثر بجلی سے چلنے والی مختلف آلات کی ڈیجیٹل گھڑیاں جب بارہ بجا رہی ہوتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ایک سیکنڈ کے لئے بجلی گئی تھی ورنہ سوائے شدید طوفانوں کے بجلی کے جانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔۔
2003 امریکا کے شمال مشرقی ریاستوں اور کینیڈا کے جنوبی صوبوں میں بجلی کا ایک بہت بڑا تعطل واقع ہوا تھا-ریاست اوہائیو میں ایک پاور ہاؤس ٹرپ کر گیا اسکی لپیٹ میں مشیگن، الانوائے،نیو یارک، اونٹاریو اور کوبیک اگئے–ہم سمجھے کہ چند لمحوں کی بات ہے لیکن معاملہ 7،8 گھنٹے تک طویل ہوگیا -بجلی سے چلنے والا تمام نظام مفلوج ہوچکاتھا- عوام لفٹوں،سب وے ٹرینوں اور زیر زمین گزرگاہوں میں پھنس گئے،پانی کی سپلائی معطل ہونے کا خطرہ تھا بلکہ کہیں کہیں تو معطل بھی ہوئی- میرا بیٹا 52 ویں منزل سے اپنے دفتر کی سیڑھیاں اترا اور جلدی سے ٹرین میں بیٹھا جس میں ابھی کچھ حرکت تھی
ٹی وی تو بند تھا ریڈیو پر مستقل آرھاتھا کہ روشنی کرنے میں احتیاط سے کام لیں اور موم بتیاں نہ جلائیں اگرچہ بچے جلتی ہوئی مومبتیاں دیکھ کر انتہائی لطف اندوز ہورہے تھے- وہاں کے مکانوں میں اگر آگ لگ جائے تو ایک دو منٹ میں خاکستر ہو جاتے ہیں- لیکن مجال ہے کہ کوئی بد نظمی یا تشدد ہوا ہو- لوگوں نے رضاکارانہ طور پر چوراہوں پر ٹریفک سنبھال لیا جس سے جو کچھ ہو سکتا تھا کرتا رہا- نہ کوئی حادثہ نہ کوئی بد نظمی— ہمارے ہاں بھی اگر ایسا کبھی کبھار ہو تو شائد ہم انسے بھی بہتر ہوں–
اگرچہ بعد میں انہوں نے اپنی حکومتوں اور بجلی کے کرتا دھرتاؤن کے خوب لتے لئے- کئی بلئین ڈالر کا نقصان ہوچکا تھا لیکن اس فرسودہ نظام کو انہوں نے تبدیل کر ڈالا- اسوقت مجھے پاکستان بہت یاد آرہا تھا ،اسلئے کہ اس دوران ہمارے پاس کوئی متبادل نظام نہیں تھا- بجلی سے چلنے والا چولھا ، مائیکرو ویو سب کچھ بند اور بیٹھے رہے تصور جاناں کئے ہوۓ—–
pata nai hamare han yeh bijli ka masla kab hal ho ga wade to har haqomat karti ha.
تنزیلہ آپ کی بات بجا ہے حکومت کے وعدے اور وہ ۔۔۔پورے کرنے کے لیے تھوڑا کرتی ہے وہ تو دلاسے کے لیے کرتی ہے وہ کہتے ہیں کہ
وہ وعدہ ہی کیا جوا یفاء ہو گیا
تنزیلہ پاکستان تو رات کا راہی بن گیا ہے۔جانے کون آئے گا جو قوم کو ان اندھیروں سے نکالے گا۔۔جانے وہ دن کب آئے گا۔۔۔
کبھی آئے گا بھی کہ نہیں۔۔
عابدہ جی آپ نے جس خوبصورتی سے اتنے دکھی موضوع کو کھٹے میٹھے انداز میں تحریر کیا ہے تو یہ آپ کا ہی کمال ہے۔بس ہماری قوم تو اندھیرا اجالا ہو گئی۔اور پاکستانی ۔۔۔۔آپ نے اتنا کچھ کہ دیا کہ اب کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں۔۔۔۔