شاہ نواز فاروقی
قومی زندگی کے سرسری جائزے کے بعد یہ بات آسانی کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے لیے ’جھوٹ‘ ہوا اور پانی کی طرح ناگزیر ہوچکا ہے۔ جس طرح ہم ہوا اور پانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اسی طرح جھوٹ کی طلب بھی محسوس کرتے ہیں… بلکہ ہوا اور پانی تو ہم اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں لیکن جھوٹ کا استعمال ہم اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ کے مطابق جھوٹ صرف اسی وقت بولا جا سکتا ہے جب انسان کو جان جانے کا خطرہ ہو اور جھوٹ بول کر جان بچنے کی امید ہو۔ جھوٹ کی یہ صورت بھی کئی دوسرے حقائق کی موجودگی کے ساتھ مشروط ہے، لیکن اپنی زندگی میں ہم جس طرح ہر لمحہ جھوٹ بول رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ہمیں ہر وقت اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
اگر قوم کی اسلام پسندی کو دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان ہونے کا شدت سے دعوے دار ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے گویا اسلام سے محبت اور اس کا تحفظ صرف اور صرف اسی کی ذمہ داری ہو۔ مگر جب اس کی عملی زندگی کو دیکھو تو دوسرا ہی منظر سامنے آتا ہے۔ ہم میں سے اکثر جتنی پابندی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اتنی ہی پابندی سے رشوت بھی لیتے ہیں… جتنے خلوص سے روزے رکھتے ہیں اتنے ہی خلوص کے ساتھ اشیاء میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں… جتنی خاموشی سے غریبوں کی مالی مدد کرتے ہیں اتنی ہی خاموشی سے ریاستی ٹیکس چراتے ہیں۔ جھوٹ، جھوٹ، جھوٹ… ہر جگہ جھوٹ۔ یہ سب صورتیں جھوٹ کی عملی شکلیں ہیں۔ اگر اہرمن کا وجود تسلیم کرلیا جائے تو ہم میں سے ہر ایک جھوٹ کا ایک مستند پیغمبر ہے۔ ہماری زندگی ہم پر نازل ہونے والا جھوٹ کا صحیفہ ہے اور ہم خود اپنی امت ہیں… امتِ شر… ایسی امتِ شر جس کے شر کا نشانہ کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔
جھوٹ کتنی ناپسندیدہ چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کسی بڑے سے بڑے جھوٹے سے جھوٹ بول دیں تو وہ بھی بھنّا جائے گا اور آپ سے مطالبہ کرے گا کہ اس کے ساتھ سچ بولا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کی حالت بھی کم و بیش یہی ہے۔ ہم دوسروں سے دن بھر چاہے جس قدر جھوٹ بول لیں مگر جب کوئی ہم سے جھوٹ بولتا ہے تو ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے اور ہم اسے ’’جھوٹا‘‘ ہونے کی گالی دے کر اس سے سچ کے طالب ہوتے ہیں۔ آپ کے اورہماریلیے یہ روزانہ کا تجربہ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جن کے لیے یہ روزانہ کا مشاہدہ تھا، مگر اب مشاہدہ کرنے والے بھی تجربہ کار بن گئے ہیں۔ خوشی کا مقام ہے کہ ہماری قومی زندگی اتنی زیادہ سائنٹفک بن گئی ہے کہ مقدار نے معیار کو فنا کردیا ہے۔ بقول جگر مراد آبادی کے ؎
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
اور سلیم احمد نے بہت دنوں پہلے پوچھ لیا تھا ؎
بجا یہ رونقِ محفل مگر کہاں ہیں وہ لوگ؟
یہاں جو اہلِ محبت کے جانشیں ہوں گے
ہمارے جھوٹ کی ہولناکی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم دوسروں سے کیا خود اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے لگے ہیں۔ انسان جب تک دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے مگر اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بولتا تو معاملہ ایک حد میں رہتا ہے، مگر جب انسان اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولنے لگے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ انسان اپنے ضمیر کے پست ترین درجے سے بھی محروم ہوگیا ہے… اور جب انسان اس مرحلے میں پہنچ جاتا ہے تو اس کا جھوٹ اس کی شخصیت کا اصولِ حرکت بننے لگتا ہے۔ اس حرکت سے برکت نہیں مزید حرکت پیدا ہوتی ہے۔ یوں انسان صرف حرکتوں کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب جھوٹ انسان کی شخصیت کا اصولِ حرکت بن جاتا ہے تو اس کا ایک مظہر بہت نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ انسان اپنے جھوٹ کا جواز پیش کرنے لگتا ہے۔ یوں جھوٹ مکمل طور پر اس کی شخصیت میں مستقل طور پر سچ کی جگہ لے لیتا ہے۔
جھوٹ کی سب سے مکروہ بات یہی ہے کہ وہ سچ کی قیمت پر بولا جاتا ہے، یعنی جہاں سچ کو ہونا چاہیے تھا وہاں جھوٹ ہوتا ہے۔ اس کو یوں سمجھیے کہ جس جگہ پھولوں کا ٹوکرا رکھا ہوا ہونا چاہیے تھا وہاں غلاظت کا ڈھیر رکھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا سبب کیا ہے؟ اور جھوٹ کی نفسیات کیا ہے؟ یعنی انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟
ایک عربی ضرب المثل ہے کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑتی ہے۔ قومی یا اجتماعی خرابی کا معاملہ بھی یہی ہے، یعنی کسی بھی قوم کے سڑنے کا آغاز اس کے سر کی جانب سے ہی ہوا کرتا ہے۔ سر کی جانب سے سڑنے کا مطلب یہ ہے کہ برائی سب سے پہلے کسی قوم کے اہلِ دانش میں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں مفکرین، فلسفی، علمائے کرام، شاعر، ادیب، صحافی، سیاسی و سماجی رہنما وغیرہ شامل ہیں۔ یہ منطقی بات ہے کہ ابتدا میں ابلاغ کا عمل اوپر سے نیچے کی جانب ہوتا ہے، جب ابلاغ کے عمل کا مرحلہ مکمل ہوجاتا ہے تو ابلاغ کا عمل اپنے پھیلائو کے لیے دوسری سمتیں تلاش کرتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر برائی کا آغاز ہمارے سر کی جانب سے ہوا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں نے ہم سے جھوٹ بولا۔ شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے جھوٹ بولا، علماء نے جھوٹ بولا، صحافیوں نے جھوٹ بولا۔ ہمیں سب نے جھوٹ کا تجربہ فراہم کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اس عمل کے ذمہ دار ہیں وہی اس پر واویلا بھی کررہے ہیں۔
عوام کی اہمیت ایک خاص مرحلے پر جا کر ان اہلِ دانش سے بڑھ جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اوپر سے آنے والے پیغام کو عوام ہی زندگی کا تجربہ بناتے ہیں۔ ہر پیغام اُس وقت تک بے معنی ہوتا ہے جب تک وہ زندگی کا عام تجربہ نہ بن جائے۔ تجربے سے معاشرتی قدریں وجود میں آتی ہیں۔ یہی قدریں معاشرے میں زندگی کا پورا منظر نامہ ترتیب دیتی ہیں۔
جب کوئی پیغام تجربے میں ڈھل جاتا ہے تو اس کی گوناگوں صورتیں ظاہر ہوتی ہیں، کیونکہ ہر انسان ایک خاص پیغام کو ایک خاص طریقے سے قبول کرکے اسے اپنی داخلیت کا حصہ بناتا ہے۔ عوام اہلِِ دانش کے پیغام سے ہی نہیں بلکہ ان کے عمل کے سانچے سے بھی اثر قبول کرتے ہیں۔ اگر اوپر کی سطح پر پیغام اور عمل کا سانچہ پیچیدہ ہو تو وہ عوامی تجربہ بنتے بنتے اور بھی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ یہ تو تھا جھوٹ کا اجتماعی معاملہ… تاہم انفرادی سطح پر یہ صورت حال کچھ دوسرے محرکات کے باعث ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اس صورت حال کا تجزیہ ذیل میں آرہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچ کی نفسیاتی جہت میں بنیادی فرق کیا ہے؟ میرے خیال میں جھوٹ ایک پیچیدہ اور پراگندہ ذہنی صورت حال کا عکاس ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سچ واضح اور صاف ذہنی کیفیات کا مظہر ہوتا ہے۔ کہتے ہیںکہ انسان کو ایک جھوٹ بول کر ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسانی ذہن تہہ در تہہ ذہنی الجھنوں کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک جھوٹ کا جواز فراہم کرنے کے لیے اسے دوسرا جھوٹ گھڑنا ہوتا ہے، دوسرے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے تیسرا جھوٹ ایجاد کرنا پڑتا ہے، اور یوں یہ صورت حال ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس سفر میں ہر قدم پر انجام ہی انجام ہے… آغاز کہیں نہیں ہے۔
اس کے برعکس سچ کا معاملہ آفتاب آمد دلیل آفتاب والا ہوتا ہے۔ اسے مخصوص معنوں میں کسی جواز، کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی جواز ہوتا بھی ہے تو وہ اس کے سہارے کے لیے نہیں بلکہ اس تک پہنچنے کے لیے پل (Bridge) کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ بلکہ یہ جواز اس سچ کی کوئی بہت معمولی جہت ہوتی ہے جو پل کا کام انجام دے کر نمایاں اور معتبر ہوجاتی ہے۔
جھوٹ کی اندرونی جہت نہیں ہوتی، اس کمی کو وہ خارج میں بہت زیادہ پھیلائو اختیار کرکے پُر کرتا ہے۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اُس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جھوٹ معیاری (Qualitative) نہیں بلکہ مقداری (Quantitative) ہوتا ہے، چونکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اس لیے یہ سچ کے معمولی دبائو کو برداشت نہیں کرپاتا۔ شاید اسی لیے ہمارے یہاں کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، یہ جتنی برق رفتاری سے پھیلتا ہے اس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ فنا ہوجاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی آدمی جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہوتی ہیں لیکن میرے خیال میں دو وجوہات کو ہم بنیادی وجوہ کہہ سکتے ہیں:
1۔ ناکافی (Inadequate) ہونے کا احساس
2۔ ذمہ داری سے بچنے کی خواہش
میرے نزدیک جب کوئی انسان اپنے آپ کو کسی خاص صورت حال میں ’’ناکافی‘‘ محسوس کرتا ہے تو وہ خود کو اس صورت حال میں ’’کافی‘‘ بنانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ ہر انسان بیک وقت کئی اقسام کے ماحول اور صورت حال میں زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر
1۔ علمی صورتِ حال۔ 2۔ معاشی صورتِ حال۔ 3۔ سماجی صورتِ حال۔ 4۔ سماجی مرتبے کی صورتِ حال۔ 5۔ خاندانی صورتِ حال۔ 6۔ جسمانی خصوصیات کی صورتِ حال وغیرہ۔
ان صورتوں میں اعلیٰ اور ادنیٰ کے کچھ معاشرتی پیمانے مقرر ہوتے ہیں (یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آج کے معاشروں میں یہ پیمانے حد درجہ جعلی ہوتے ہیں)۔ ہر انسان ان صورتوں میں سے کسی خاص صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہ کسی دوسرے شخص یا اشخاص کے سامنے اپنے آپ کو اسی صورت کے حوالے سے ناکافی محسوس کرتا ہے۔ ناکافی ہونے کا احساس اس کے اندر احساسِ کمتری پیدا کرتا ہے۔ اکثر لوگ اپنے ناکافی پن کو دور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کے باعث وہ جھوٹ کے ذریعے اپنے آپ کو کافی ثابت کرتے ہیں۔
گزشتہ ڈھائی تین برس سے ایک صاحب کئی برس سے مسلسل میرے مطالعے میں ہیں۔ ان صاحب کی خصوصیات یہ ہیں کہ زندگی کا ہر واقعہ ان کے ساتھ پیش آچکا ہے۔ آپ ان سے کسی شخص کی برجستگی یا دلداری کا قصہ بیان کریں گے تو وہ اسی وقت آپ سے اس برجستگی اور دلداری کا کوئی قصہ بیان کردیں گے۔ آپ کسی اعلیٰ عہدیدار سے اپنے مراسم کا تذکرہ کریں گے تو وہ آپ کو بیٹھے بیٹھے دس اعلیٰ عہدیداروں سے اپنے قریبی مراسم کے واقعات سنا دیں گے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ان کو بتائیں گے کہ ایک بار آپ نے کنویں میں چھلانگ لگا دی تھی تو وہ آپ کو فوراً ہی بتائیں گے کہ وہ خود دو مرتبہ کنویں میں چھلانگ لگا چکے ہیں۔ یہ صاحب Height of Delight کی طرز پر Height of Frustration یا ’’احساسِ ناکافیت‘‘ کے انتہائی رجحان کے نمائندہ ہیں۔
ہم نے مندرجہ بالا سطور میں جن صاحب کی مثال آپ کی خدمت میں پیش کی ہے وہ اس امر کا واضح طور پر اظہار کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی ’’ناکافیت‘‘ کے خلا کو پُر کرنے کے لیے جھوٹ کی طرف کس طرح اور کس شدت کے ساتھ مائل ہوسکتا ہے۔
اس مثال سے معاشرے کے کئی منفی رویّے بھی ابھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں جو یقینا انسان کو جھوٹ بولنے کی طرف رغبت دلانے کا باعث ہیں۔ مثلاً پہلا منفی رویہ تو ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسان صرف ایک انسان کی حیثیت سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، اس کی اہمیت ہے تو اس کے تعلقات کے ساتھ… یعنی مرتبہ، ذہانت وفطانت اور امارت وغیرہ۔
دوسرا منفی گوشہ یہ سامنے آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں نظام مراتب کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، یعنی ہم یہ بات نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو ہر صلاحیت دے کر پیدا نہیں کرتا لیکن ہر شخص کو ایک خاص صلاحیت (Uniqueness) دے کر پیدا کرتا ہے۔ کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کئی صلاحیتیں دے کر پیدا کرتا ہے۔ انسانوں کی انہی صلاحیتوں کے اعتبار سے معاشرے میں ایک خاص نظامِ مراتب وجود میں آتا ہے۔ اس نظام میں کوئی شخص غیر اہم نہیں ہوتا البتہ ایک شخص دوسرے شخص سے بعض خصائص کی بنا پر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس نظام میں روحانی سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کا مقام سب سے بلند ہوتا ہے۔ اس کے بعد تخلیقی کام کرنے والوں کا نمبر آتا ہے۔ اس کے بعد ہنرمندوں اور پھر جسمانی محنت کرنے والوں کی باری آتی ہے۔
ان افراد کے مرتبے تو ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ ان سب کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی ضرورت انہیں مستقل اہم بنائے رکھتی ہے۔
اس نظامِ مراتب کا تصور رکھنے والے اور اس تصور پر یقین رکھنے والے معاشروں میں حسد کا مادہ اور اس حوالے سے جھوٹ کا رجحان بہت کم ہوتاہے، کیونکہ ان معاشروں میں ہر مرتبے پر فائز شخص کو اپنی اہلیت اور اہمیت کا اندازہ ہوتاہے جس کے باعث وہ، وہ بننے کی کوشش نہیں کرتا جو کہ وہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے وہ ناکافی پن کے احساس کا شکار نہیں ہوتا جو کہ ہمارے معاشرے میں اور دنیا کے دیگر معاشروں میں بہت عام ہو چکا ہے۔
جھوٹ بولنے کا جو دوسرا سبب ہم نے بیان کیا ہے وہ ہے ذمہ داری سے بچنے کا رجحان۔ اگرچہ ذمہ داری سے بچنے کا رجحان بھی انسان کی پست اخلاقی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے، لیکن انسان جب اس سے ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے تو ہم اسے پست اخلاقی کی انتہا قرار دے سکتے ہیں۔ یہ اگلا قدم ہے اپنی ذمہ داری یا اس کے نتائج کو دوسروں پر منتقل کرنا۔ اس صورت حال کے مظاہر ہم عام زندگی سے لے کر قومی زندگی کے اہم ترین معاملات تک آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
گھر میں بچے نے گلاس توڑدیا، کسی نے نہیں دیکھا۔ کچھ دیر بعد والدین نے پوچھا تو بچہ گلاس توڑنے سے صاف مکر گیا۔ اگر صورت حال اجازت دے یعنی گلاس ٹوٹنے کے وقت اُس کا چھوٹا بھائی (جو اپنی صفائی پیش نہیں کرسکتا) اس کے پاس ہو تو وہ گلاس توڑنے کی ذمہ داری اس کے سر ڈال دے گا۔ بچے کی نفسیات سادہ ہوتی ہے، اس مرحلے پر اس کے ذہن میں صرف خوف کا عنصر غالب ہوتا ہے، اسے معلوم ہے کہ گلاس توڑنے کی سزا ملے گی۔ اسے سزا کے معنی معلوم نہیں، اسے معلوم نہیں کہ سزا جرم کی کثافت کو دور کرکے انسان کو جرم سے پہلے والی حالت میں لے آتی ہے۔ بچے کو اس جھوٹ پر ملامت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ اس کے اندر ابھی کوئی منظم اخلاقی نظام وجود میں نہیں آیا ہے۔ اس کی قوتِ فیصلہ کمزور ہے، وہ ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اپنے اخلاقی معیارات کو دوسروں پر عائد کرے یا ٹھونسے۔ اپنی اس مخصوص حیثیت کے باعث وہ کسی سے جواب طلب نہیں کرسکتا۔ وہ ابھی صحیح معنوں میں ذمے دار نہیں ہے۔
اب ذرا اپنی قومی زندگی پر نظر ڈالیے۔ پورے اخلاقی نظام سے واقف لوگ موجود ہیں، انہیں اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس ہے، چونکہ یہ لوگ جواب طلب کرسکتے ہیں اس لیے جواب دینے کے مکلف بھی ہیں۔ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا مگر کوئی اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیںکہ اس کے ذمہ دار بھٹو صاحب ہیں، بھٹو صاحب کہتے تھے کہ وہ اس کے ذمہ دار نہیں۔ اس کی ذمہ دار عوامی لیگ ہے۔ عوامی لیگ کو مغربی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے مسلسل شکایتیں تھیں۔ کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ کتنا بڑا سانحہ ہے مگر سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے پاکستان نہیں ٹوٹا کانچ کا کوئی معمولی سا گلاس ٹوٹ گیا ہے جس کی ذمہ داری کے تعین کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ قوم جھوٹی ہے اور اس کے رہنما جھوٹوں کے سردار۔
گلاس توڑنے والے بچے اور ان افراد کی نفسیات میں بظاہر کوئی فرق نہیں، مگر غور سے دیکھیے تو بڑا ہولناک فرق ہے۔ بچہ اپنی اخلاقی ذمہ داری سے واقف نہیں، جبکہ یہ سب لوگ واقف ہیں۔ اس اعتبار سے ان سب افراد کی شبیہیں کوڑے دان کی شکل میں ڈھال کر ملک کے کونے کونے میں رکھ دینی چاہئیں، تاکہ لوگ ان کے اندر کوڑا کرکٹ ڈال کر ان کے حقیقی وجود کی علامت کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
میں نے گزشتہ سطور میں بعض ایسی صورتوں کا تذکرہ کیا تھا جن میں انسان بیک وقت زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر علمی صورت حال، معاشی صورت حال وغیرہ ۔ ان تمام صورتوں میں مَیں نے مذہبی صورت حال کا تذکرہ نہیں کیا تھا اور ایسا میں نے جان بوجھ کر کیا ہے، کیونکہ میرے خیال میں ہمارے معاشرے میں کوئی حقیقی مذہبی صورت حال موجود نہیں ہے۔ نعرے بازی اور حماقت کی حدود کو چھوتی ہوئی سادہ لوحی کی بات اور ہے، ورنہ درحقیقت ہمارا معاشرہ مذہب سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے۔ میں نے ایسے بے شمار لوگوں کو دیکھا ہے جو دوسروں کی معاشی صورت حال کو بہتر دیکھ کر اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ میں نے ایسے افراد بھی دیکھے ہیں جو دوسروں کے بلند سماجی مرتبوں کو دیکھ کر اپنے سماجی مرتبوں کو بلند کرنے کے لیے کمرہمت کس کر میدان میں کودے ہوئے ہیں، مگر میں نے آج تک ایسا آدمی نہیں دیکھا جو کسی متقی پرہیزگار آدمی کو دیکھ کر اپنے روحانی مرتبے کی بلندی کے لیے کوشاں ہوا ہو۔ دوسروں کی بہتر معاشی حالت اور بلند سماجی مرتبے ہمیں ہمارے ناکافی ہونے کا احساس دلاتے ہیں، مگر کسی کی روحانی ترقی کو دیکھ کر ہمیں ایک لمحہ کے لیے بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم اس میدان میں کتنے پیچھے ہیں اور ہمیں اس شخص کی طرح اس میدان میں آگے بڑھنا چاہیے۔
خدانخواستہ میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے معاشرے میں سچے مذہبی لوگ نہیں ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہیں اور یہ معاشرہ انہی کے اعمال کی برکتوں سے ابھی تک سالم اور قائم ہے، مگر یہ لوگ تعداد میں اتنے ہیں کہ
ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں
سیاست کے میدان میں جھوٹ کے احساسِ جرم کو کم کرنے کے لیے بڑی دلکش اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ مقامی سیاست میں جھوٹ کو حکمت عملی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جب کہ بین الاقوامی سیاست میں اسے ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی حکمت ِعملی اور ڈپلومیسی کے پاٹوں کے درمیان پس رہی ہے اور نہ جانے کب تک پستی رہے گی!