لکڑی کی بنی سبز پینٹ والی ونٹیج انڈسٹریل شیلف کی آپ بیتی

کہانی: ڈاکٹر شہلا گوندل

میں لکڑی کی بنی سبز پینٹ والی ونٹیج انڈسٹریل شیلف ہوں، اور میری کہانی اوسلو کے ایک پرسکون گوشے سے شروع ہوتی ہے۔ وہ وقت تھا جب میں سیمینز کی ایک فیکٹری میں کھڑی تھی، جہاں میرے خانوں میں مشینوں کے پرزے اور آلات رکھے جاتے تھے۔ میں نے ان مزدوروں کی تھکی ہوئی سانسیں سنی جو میرے آس پاس کام کرتے تھے۔ دن بھر میرے اوپر رکھی اشیاء کو ادھر سے اُدھر منتقل کیا جاتا، اور رات کو فیکٹری کا سکوت میرے اندر سکون بھر دیتا۔ میری سبز لکڑی نے وقت کے ساتھ دھندلا کر بھی اپنی پائیداری قائم رکھی۔

پھر وہ دن آیا جب فیکٹری بند ہوگئی۔ وہاں کی ہر چیز اپنی جگہ سے ہٹادی گئی، اور میں، جو کبھی اہمیت کا مرکز تھی، ایک پرانی یادگار بن کر رہ گئی۔ مجھے ایک خاتون، کیتھرین ، کے گھر منتقل کیا گیا۔ وہاں، میں نے کچھ وقت ان کے کمرے کی زینت بن کر گزارا۔ میرے خانوں میں کتابیں، آرائشی اشیاء، اور یادگار تصاویر رکھی گئیں۔ لیکن وقت کے ساتھ میری جگہ نئی چیزوں نے لے لی، اور مجھے تہہ خانے میں بھیج دیا گیا۔ میں نے کئی سال سردی، تنہائی، اور تاریکی میں گزارے، یہ سوچتے ہوئے کہ شاید میری کہانی اب ختم ہوچکی ہے۔

پھر ایک دن، کیتھرین نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا گھر تبدیل کریں گی۔ مجھے سیکنڈ ہینڈ چیزوں کی ویب سائٹ پر فروخت کے لیے پیش کردیا گیا۔ میری قیمت 2000 NOK رکھی گئی، لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔ مسٹر والٹر، ایک انٹرنیشنل اسکول کے پرنسپل، نے مجھے دیکھا اور فوراً پسند کرلیا۔ کچھ بارگیننگ کے بعد، میں 500 NOK میں ان کے ساتھ چل دی۔

اسکول کے اسٹاف روم میں جب پہلی بار پہنچی تو سب کی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میرے لیے دیوار کے ساتھ ایک خاص جگہ منتخب کی گئی۔ میرے اوپر دو کافی مشینیں رکھی گئیں، اور میرے خانوں میں چائے اور کافی کے کپ، شکر، اور دیگر سامان سجا دیا گیا۔ مس بیندرے نے میرے سبز لکڑی کے خانوں کو بڑی محبت سے صاف کیا۔ میرے اردگرد کی دنیا گہما گہمی سے بھری ہوئی تھی۔

اس اسٹاف روم میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی سرگرمی جاری رہتی ہے۔ کبھی ٹی وی کی آواز آتی ہے، کبھی موسیقی کے گانے گونجتے ہیں۔ ہالز سے بچوں کی باتیں اور قہقہے میرے خانوں میں گونجتے ہیں، اور اسٹاف روم کی بڑی سی کھڑکی سے میں باسکٹ بال کورٹ کی رونق دیکھتی ہوں۔ بچے دوڑتے ہیں، کھیلتے ہیں، اور ان کی خوشی کی جھلک میری پرانی لکڑی کو ایک نئی زندگی بخش دیتی ہے۔

پچھلے دنوں کرسمس کی تیاریوں میں بچے اسٹاف روم کے کچن میں بیکنگ کر رہے تھے۔ ان کی باتوں اور ہنسی نے میرے آس پاس ایک خوشگوار ماحول بنا دیا۔
مسٹر والٹر نے سب کو میرے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک پرانی فیکٹری کی یادگار ہوں، جو کئی سال تک ایک مشینری کے مرکز ی کا حصہ رہی۔ انہوں نے سب کو سکھانے کے لیے کہا کہ پرانی چیزیں پھینکنے کے بجائے انہیں نئے طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سکول میں نے بچوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ ری سائیکلنگ کا مطلب صرف چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا نہیں، بلکہ یہ ماحول کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہر گریڈ کے بچوں کو چھوٹے پروجیکٹس میں شامل کیاجاتا ہے، جیسے پرانی چیزوں کو آرٹ کے لیے استعمال کرنا، خالی بوتلوں میں پودے لگانا، اور پرانے کپڑوں سے نئے استعمال کی اشیاء بنانا۔ اس طرح طلبا و طالبات یہ سیکھتے ہیں کہ دنیا کے وسائل محدود ہیں، اور ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔

یہ سب دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ میں اب صرف ایک شیلف نہیں، بلکہ ایک پیغام بن چکی ہوں۔ مسٹر والٹر نے میری کہانی کو اساتذہ اور طلباء و طالبات کے دلوں تک پہنچایا اور ان کے ذہنوں میں یہ خیال بٹھایا کہ پرانی چیزیں بےکار نہیں ہوتیں۔ ان کے ذریعے میں نے ان ننھے دماغوں کو یہ سبق دیا کہ ہر چیز میں ایک نیا مقصد اور ایک نئی کہانی چھپی ہوتی ہے۔

ری سائیکلنگ نہ صرف زمین کو محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ ہے بلکہ یہ ایک سوچ ہے جو ہمیں چیزوں کی حقیقی قدر سمجھاتی ہے۔ ہر پرانی چیز ایک نئے آغاز کی صلاحیت رکھتی ہے، اور مسٹر والٹر نے سب کو یہ سبق عملی طور پر سکھایا۔ آج میں اس اسکول میں نہ صرف ایک شیلف ہوں بلکہ ایک درس بھی ہوں جو ماحول دوستی، دوبارہ استعمال، اور زندگی کو ایک نئی شکل دینے کی اہمیت سکھاتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں