ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
شب قدر ہزارمہینوں سے افضل ہے۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ وقت گزارنے کے لئے تو وہ محض ایک سیاہ رات ہے ۔دوسری راتوں سے کسی بھی طرح مختلف نہیں لیکن قرآن اسے محض رات سے تعبیر نہیں کرتا بلکہ ہزار مہینوں سے افضل قراردیتا یعنی یہ رات 29 ہزار 5 سو تراسی چمکتے ہوئے دنوں اورمہکتی ہوئی راتوں سے بہتر ہے ۔
فرد اور کائنات کےلئے یوں تو تمام شب و روز ، ماہ و سال بلکہ ہرگزرتا لمحہ بہت قیمتی ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ انفرادی طور پر دیکھاجائے تو کسی کوعلم نہیں کہ اس کی زندگی کی ساعتیں کتنی باقی ہیں۔آنے والا لمحہ اسے میسر بھی آئے گا یا نہیں۔ اگر کائنات کی سطح پر دیکھیں تودن رات (24 گھنٹے) اس کائنات کا ذرہ ذرہ گردش میں ہے۔ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہوتارہاتھا،ہے اوررہے گا۔ کل یوم ھو فی شان۔ہرروز وہ ایک شان میں ہے۔ بقول شاعر:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
تاہم کچھ ساعتیں زیادہ اہمیت اورفضیلت والی ہیں۔وہ ہوتی تو کچھ ساعتیں ہیں لیکن ان کے اندر کئی دہائیاں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔جیسا کہ قرآن مجید نے رمضان المبارک کی ایک رات کو شب قدر کاعنوان” ٹائٹل” دے کر ہزارمہینوں سے افضل قراردیا۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَھْر۔”شب قدر ہزارمہینوں سے افضل ہے۔ انسان حیران ہوتا ہے کہ دیکھنے یا کہنے یا وقت گزارنے کے لئے تو وہ محض ایک سیاہ رات ہے ۔دوسری راتوں سے کسی بھی طرح مختلف نہیں لیکن قرآن اسے محض رات سے تعبیر نہیں کرتا بلکہ ہزار مہینوں سے افضل قراردیتا ۔ اگر حساب لگایا جائے تو یہ تراسی سال اورچار مہینے (83.4) بنتے ہیں۔یعنی یہ رات 29 ہزار 5 سو تراسی چمکتے ہوئے دنوں اورمہکتی ہوئی راتوں سے بہتر ہے ۔ آج کل اوسط عمرتقریباً 60 سال ہے ۔یوں یہ رات آج کے زمانے میں موجود زیادہ تر افراد کی پوری زندگیوں سے بھی کہیں زیادہ کا عرصہ اپنی آغوش میں پنہاں رکھتی ہیں۔بقول میر انیس
حیراں ہے عقل دیکھ کے زلفِ سیاہ کو
آغوش میں لیے ہے شبِ قدر ماہ کو
اس پر مستزادیہ ساعتیں بھی کچھ ایسی خاص ہیں کہ ان میں نیکیوں کی طرف میلان بڑھ جاتاہے اوران نیکیوں کے اجرمیں کئی گنااضافہ ہوجاتاہے اور دعائیں ومناجات مقبول ہوتی ہیں۔ جس طرح بعض مقامات کودوسرے مقامات پرفضیلت و فوقیت حاصل ہے۔اگرچہ پوری زمین اللہ رب العزت کی ہے اور اس نے پوری ہی زمین کو مسلمانوں کے لئے سجدہ گاہ قراردیاہے ، جہاں چاہے کوئی عبادت کرے لیکن کچھ مقامات تو خاص الخاص ہیں جیسا کہ مسجد الحرام اورمسجد نبوی وغیرہ کے مقامات ایسے خاص ہوتے ہیں کہ وہاں خود بخود اندرونی طورپر انسان میں نیکیوں کا میلان بڑھ جاتاہے۔دل کی بے آب وگیا بنجر زمیں پر قیام وسجود میں کھل کے آنسوؤں کی برسات ہوتی ہے اورمومن پرایک کیف،سوز اور بے خودی سی طاری ہوجاتی ہے۔ دل سے عبادت کرنے کا جی چاہتاہے۔اور اصل عبادت تو اسی بے خودی سے عبارت ہے بقول اخترشیرانی
عبادت ہے اک بے خودی سے عبارت
حرم کو مے مشک بو سے بسا دیں
سبب ِسعادت:
شب قدر کی سعادت حضور اکرم ﷺ کی امت کے لئے خاص ہے تاکہ باوجود اپنی چھوٹی عمروں کے اس امت کے لوگ اجر وثواب میں کسی بھی طور پر دوسری امتوں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کی عمر مبارک 1000 سال تھی جس میں سے آپ نے 40 سال حضرت داؤد علیہ السلام کو دے دی تھی ۔یوں آپ نے 960 سال کی عمر مبارک پائی اورحضرت نوح علیہ السلام نے بھی ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ عمرپائی۔ان کی امتوں کی اوسط عمر بھی ہزار کے آس پاس تھی۔ اس اعتبار سے آج کے دور کے انسان کی اوسط عمر جو کہ 60 سے 70 برس کے درمیان ہے بہت کم بنتی ہے۔ ایسا شخص عبادت میں کہاں پچھلی امتوں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ لیکن اس ایک رات کی بدولت اگر کوئی شخص صرف 12 دفعہ یعنی بارہ سال تک اسے پالے گو یا اس نے مکمل ایک ہزار سال عبادت میں گزارے۔ یوں یہ افراد ان پر بازی لے جاسکتے ہیں کہ یہ تمام عرصہ ان کا عبادت میں شمار ہوا جب کہ سابقہ امتوں کی زندگی کے ایک ہزار سالوں میں ان کا سونا،پینا کھانا اورزندگی کے دیگر معمولات بھی شامل تھے۔گویا ان کی عبادت کا دورانیہ اس سے کم بنتا ہے۔
اس رات کے عطا کئے جانے کا ایک اہم سبب نبی اکرم ﷺ کی اس اُمت پر شفقت اور غمخواری ہے۔ جیسا کہ امام مالکؓ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ أُرِيَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهُ. أَوْ مَا شَاءَ اللهُ مِنْ ذلِكَ. فَكَأَنَّهُ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهِ أَنْ لاَ يَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ، مِثْلَ الَّذِي بَلَغَ غَيْرُهُمْ فِي طُولِ الْعُمْرِ ، فَأَعْطَاهُ اللهُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.
جب رسولِ اکرم ﷺ کو سابقہ اُمتوں کے لوگوں کی عمریں دکھائیں گئیں یا ان (امتوں)میں سے جسے رب نے چاہا تو آپ ﷺ نے خیال کیا میری اُمت کے لوگ اپنی عمروں میں کمی کے باعث سابقہ اُمتوں کے برابر عمل نہ کرسکیں گے۔(آپ ﷺ کے امت کی غمخواری کے باعث)آپ ﷺ کولیلۃ القدر عطا فرمائی گئی جو کہ ہزارمہینوں سے افضل ہے۔ یعنی حضور اکرم ﷺ کے واسطہ سے پوری امت کو لیلۃ القدر کی عظیم سعادت عطا کی گئی۔ (موطا امام مالک)
ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمیں اللہ رب العزت نے حضور اکرم ﷺ کا امتی بنایا جس امتی کے تمام امورخیر کے لئے حضور ﷺ گنبد بے درکھلا ہوا ہے پھر اس امتی کے کاموں میں کسی قسم کی رکاوٹ کیا آڑے آسکتی ہے (اگربظاہر کوئی رکاوٹ نظرآرہی ہے تو اس میں بھی کوئی حکمت کارفرماہے): بقول غالب
اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا
اس رات کے افضل ہونے کی ایک بنیادی وجہ قرآن مجید کا نزول ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ القَدْرِ ہم نے اس (قرآن مجید) کو شب قدر میں اتارا۔ جناب ذوالفقار نقوی نے اس امر کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے:
رات افضل ہو کیوں نہ راتوں پر
جس میں معجز نما کتاب آئے
لیلۃ القدر کی تلاش:
” اورحدیث مبارکہ میں ہے: تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الاواخر من رمضان۔”رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو۔”(بخاری)
ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کی بنیادی وجہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی قیمتی ساعتوں کو تلاش کرنا ہے ۔
دعا لیلۃ القدر:
لیلۃ القدر میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ لیلۃ القدر میں ایسی جامع دعا مانگیں جو دونوں جہانوں میں فائدہ بخش ہو۔
عن عائشة قالت : قلت : يا رسول الله أرأيت إن علمت أي ليلة القدر ما أقول فيها ؟ قال : ” قولي : اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ” .
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) اگر میں شب قدر کو پا لوں، تو اس میں کیا دعا مانگوں۔ آپ ﷺنے فرمایا۔ یہ دعا مانگو، اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا تو مجھے معاف فرما دے ۔ (احمد، ابن ماجہ ، ترمذی)
لہذا اس عظمت والی رات میں بکثرت یہ دعا مانگنی چاہئے۔ اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔”اے اللہ بے شک تو معاف کرنے والا ہے ،معافی دینے کو پسند کرتا ہے پس تومجھے معاف فرما۔”
انعام لیلۃ القدر:
اس رات کا سب سے بڑا انعام مغفرت کا وعدہ ہے جو حضور پرنور ﷺ نے اپنی امت سے فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: “جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اور جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے شب قدر میں قیام کیا اس کے بھی پہلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شب قدر کی سعادتوں سے بہرہ مند فرمائے ، بار بار اوربے حساب فرمائے۔ بقول ذوالفقار نقوی
میرے حصے میں بھی ثواب آئے
ہے شب ِ قدر ، بے حساب آئے