ماسی اور جہد مسلسل

waseem
Waseem Haider
massi-1
وسیم ساحل
کشمیر کی سرسبزوادیوں میں آنکھ کھولنے والی’’بے بی ہیلڈربچپن کا دالان عبور کرنے سے قبل وہ شفقت مادری سے محروم ہو گئی تھی۔ ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے کہ سوتیلی ماں سگے باپ نے ایک سخت گیر آدمی سے اس کی شادی کر دی۔ بیاہ کے لمحے وہ زندگی کے بارہویں برس میں تھی اگلے برس ماں بن گئی ۔ پندرہ برس کی عمر میں اس کی گود میں تین بچے تھے۔انہیں ہنستا کھیلتا کودتا دیکھ کر اس کی ڈولتی بجھتی آنکھوں میں پل بھر کو جگنو چمک اٹھتے پھر آس کی کم زور سی ڈور جو شوہر سے بندھی ہوئی تھی وہ بھی اس دن ٹوٹ گئی‘ جب ظالم شوہر نے ایک بھاری پتھر اس کے سر پر دے مارا صرف اس لئے کہ اس نے ہیلڈر کو گاؤں کے ایک مرد سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اس حادثے نے اسے شوہر سے ناتا توڑنے پر مجبور کر دیا – جیٹھانی کو پتا چلا تو اس نے اسے سمجھایا کہ عورت مرد کے سہارے سماجی قیود میں زندگی بسر کرتی ہے یہ غلطی مت کرنا لیکن ہیلڈر کے نزدیک یہ غلطی نہیں بلکہ غلطی کی درستگی تھی۔
 ذکر ہے 1999ء کا اس وقت ہیلڈرنے زندگی کی 25ویں سیڑھی پر قدم رکھا تھا شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے تین بچوں کو لے کر ٹرین میں سوارہوئی اور دہلی پہنچ گئی جہاں ایک کچی بستی میں جھونپڑی بنا کر اپنا ٹھکانا بنالیا اورایسے گھروں کی تلاش میں نکل پڑی جہاں کچھ کام مل سکے لیکن اس سے چمٹے تین بچوں کو دیکھ کر کوئی اسے کام دینے کو آمادہ نہ ہوا‘‘– خوش قسمتی سے وہاں اس ایک ایسے گھر میں کام مل گیا جنہوں نے اسے سرچھپانے کے لئے سرونٹ کوارٹر بھی دے دیا۔ یہ گھرعلم بشریات کے ریٹائرڈ پروفیسر پربودھ کمار کا تھا ہیلڈر کے ذمے گھر کی صفائی ستھرائی تھی اسے کام کرتے ہوئے چند ہی دن ہوئے تھے کہ ایک دن پرمورکمار نے اسے اپنے شیلف میں لگی کتابوں سے گردجھاڑنے کے بجائے دلچسپی سے ورق گردانی کرتے دیکھا۔ ان کے لئے یہ ایک حیران کن لمحہ تھا چند دن متواتر اسے خاموشی سے دیکھتے رہے وہ کبھی شیلف سے ایک کتاب نکالتی کبھی دوسری بالآخر پربودھ کمار نے ایک دن کچھ سوچتے ہوئے ہیلڈر کو شیلف میں سجی کتابوں سے دوستی کرنے کی اجازت دے دی۔ اس بات سے ہیلڈر بہت خوش ہوئی ۔ دوسرے دن پربودھ کمار نے اسے ایک قلم اور رجسٹر دیتے ہوئے کہا کہ اس پر اپنی زیست کی بابت لکھنا۔ پہلے تو ہیلڈر کی کچھ سمجھ نہیں آیا وہ گھبرا گئی لیکن پربودھ نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ زندگی میں جو کچھ تمہارے ساتھ ہوا اچھا یا برا اس رجسٹر پر اسی طرح لکھ دو کوئی اورہوتا تو شاید انکار کر دیتا لیکن ہیلڈر نے ہچکچاتے ہوئے پربودھ کمار کے ہاتھ سے قلم اور رجسٹر لے کر مضبوطی سے تھام لیا۔ اب اس کے شب و روز بدل گئے تھے گھر کے کاموں سے فارغ ہو کر وہ سرونٹ کوارٹر میں چلی جاتی۔ ماضی کھنگالتے ہوئے جو باتیں یاد آتیں رجسٹر پر لکھتی جاتی۔ لکھتے وقت اسے ایسا محسوس ہوتاجیسے کسی خیر خواہ کے سامنے اپنا دکھ بیان کر رہی ہے اور جب اپنے لکھے کو پڑھتی تو آنکھوں سے گرم گرم آنسو بہہ کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیتے۔ ایک ہفتے میں اس نے رجسٹر کے تین سو صفحات میں سے ساٹھ صفحات سیاہ کر دئیے-پربودھ کمار نے اس کی تحریر پڑھی اور چند اوراق کی فوٹو کاپی کروا کر اپنے ایک پبلشر دوست کو بھجوا دئیے جس نے پسندیدگی کااظہار کرتے ہوئے کہا خاتون نے محرومیوں کی شکار ہندوستانی عورتوں کے کرب کی بڑی گرفت سے منظر کشی کی ہے۔ اسے یقیناً کتابی شکل میں شائع ہونا چاہئے۔ پربودھ نے مسودے میں جملوں کی ساخت درست کی۔ رموز و قافیہ پر نظر ڈالی اور پھر اسے پبلشر کے حوالے کر دیا ۔ 2001ء میں بنگلہ زبان میں’’اندھیرا اجالا‘‘ کے نام سے کتاب شائع ہوئی تو تہلکہ مچ گیا خصوصاً خواتین نے ایک دوسرے سے چھین چھین کر پڑھی اور گلے مل کر روئیں۔ 2002ء میں کلکتہ کے ایک پبلشر نے اس کا ہندی ترجمہ شائع کیا تو اخبارات کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی شور مچ گیا۔ یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔ اگلے دو برس میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہو گئے۔ نقادوں نے اسے ایک ادبی تخلیق قراردیا
 کتاب کا انگریزی ترجمہ 2006ء میں  شائع ہوا تو نیویارک ٹائمزنے ہیلڈر کی تخلیق کو ہندوستانی ورژن قرار دیا۔ واضح رہے کہ 1996ء میں آئرس نژاد امریکی ادیب فرینک میکورٹ کی یاداشتیں نے تہلکہ مچا دیاتھا۔2008ء میں ہیلڈر کی خود نوشت کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوا۔ 2011ء کے آواخر تک اس کا ترجمہ21زبانوں میں شائع ہو چکا تھا۔
پہلی ہی کتاب سے بین الاقوامی سطح پر شہرت ملنے کے بعد ہیلڈر نے ایک بھارتی ٹی وی انٹرویو میں کہا میں آج بھی اپنے آپ کو ماسی سمجھتی ہوں۔ میں پربودھ کمار کا گھر اور اپنے ہاتھوں سے جھاڑوکبھی نہیں چھوڑوں گی لیکن اب میں لکھتی رہوں گی اس کے طفیل تو میں نے خودکو پہنچانا ہے۔ ہیلڈر کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں‘اس کا بڑا بیٹا20 برس کا ہو چکا ہے اور پڑھ رہا ہے‘کتابوں سے ملنے والی رائلٹی کی بدولت اس نے اپنا گھر بھی بنا لیا ہے ‘لیکن وہ اپنے محسن پربود ھ کمارکی زندگی میں اس کے گھر میں ماسی بن کر ہی رہنے کا اراد ہ رکھتی ہے

5 تبصرے ”ماسی اور جہد مسلسل

  1. بہت خوب وسیم صاحب عزم و ہمت کی یہ انوکھی داستان پرمبنی بہت لا جواب انٹرویو ہے۔واقعی کچھ حقیقتیں اس قدر تلخ پوتی ہیںکہ تحریر کی شکل میں دل میں اتر جاتی ہیں۔

  2. ابدہ رحمانی اورعمران جونانی تحریرکی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ ۔ میری یہی کوشش رہتی ہےکہ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے انوکھی , اچھوتی اور جہد مسلسل پر مبنی سچے واقعات کو اپنی تحریر کا حصہ بناؤں تاکہ نئ نسل میں جوش وجذبہ اور تحرک پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی میں آنے والی ہر روکاوٹ کو روند کر آگے بڑھتے ہیں۔ شکریہ

  3. واقعی وسیم صاحب بہت ہی با کمال اور ہمت افزاء کالم ہے آپکا اسے کہتے ہیں گدڑی کا لعل۔کہ اس قدر خراب حالات کے باوجود اس با ہمت عورت نے کیسے جدو جہد جا ری رکھی اور پھر اس کی وفا داری کے بھی کیا ہی کہنے۔
    اتنی اچھی تحریر بھیجنے پر شکریہ وسیم صاحب

  4. شازہہ عندلیب صاحبہ : بہت بہت شکریہ تحریرکی پسندیدگی کا – میری یہی کوشش رہتی ہےکہ اردو فلک کے قارئین کےلیےمعیاری , دلچسپ اورنصیت آموز تحریر بھیجو ۔ شکریہ

اپنا تبصرہ لکھیں