سفر نگار شازیہ عندلیب
قسط نمبر ۳
بلیک برن کا نام اس میں بہنے والے دریا کی مناسبت سے رکھا گیا تھا۔ لفظ بلیک وہاں کے ایک دریا کا نام تھا جبکہ برن کے معنی ندی کے ہیں۔اس طرح اسکا نام بلیک برن پڑ گیا اسکا حوالہ وہاں کے مقامی لکھاری ولیم ابرام اپنی کتاب دی پیرش The Perish میں بھی دیا ہے۔اس ڈسٹرکٹ میں دوسرا بڑا اقلیتی گروپ پاکستانیوں کا ہے۔آخری مردم شماری کے مطابق اس وقت اس ڈسٹرکٹ میں ستائیس ہزار پانچ سو پچیس پاکستانی آباد ہیں۔ان میں اکثریت کا تعلق میر پور سے ہے۔اگر آپ بلیک برن کے مقامی بازاروں میں جائیں وہاں پر اکثرروکا ندار اپنجابی بولنے والے ملیں گے۔یہاں کے مقامی بازارمیں بھی کافی کم قیمتوں پر لباس اور دیگر اشیاء مل جاتی ہیں۔مگر کچھ کا مزاج بھی پاکستانی ہے یعنی کہ بعض دوکانوں پہ شاپنگ کر کے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں آنے کے باوجود سوچ پاکستانی ہی ہے۔کئی کپڑوں کی دوکانوں پر سیلز میں کا اصرار تھا کہ ادائیگی ٹرمینل کے بجائے کیش پر ہو گی جس کی وجہ سے ہمیں وہاں ایک کیش ٹرمینل تلاش کر کے رقم نکلوانی پڑی۔
ایک خاتون سیلز گرل نے معذرت خواہانہ انداز میں بتایا کہ سوری جب سے کورونا کی وباء پھیلی تھی ہمارا پیمنٹ ٹرمینل بھی اس وقت سے خراب ہوا تو پھر دوبارہ ٹھیک ہی نہیں کروا سکے ہم