محمد حنیف
ایک تھے ہمارے ٹھیکیدار دوست۔ سرکاری ٹھیکے لیتے، رشوت خوب دیتے، مال بھی خوب بناتے اور پھر اپنے کارنامے ہمیں مزے لے لے کر س ±ناتے۔ ایک دن ہم نے بِھنّا کر کہا کہ یار چوری پر اِتنا فخر۔ا ±نھوں نے کہا بھیا چوری کاہے کی۔ ملک اپنی ماں ہے۔ جو ماں کا ہے وہ ہمارا ہے۔ ماں سے لیا تو چوری کیسے کی؟ جب ماں کا دھیان اِدھر ا ±دھر ہو تو ا ±س کے پلّو سے دو چار روپے تو تم بھی نکال ہی لیتے ہو گے۔
گذشتہ ہفتے بلوچستان میں نوٹوں سے بھرے کمرے اور گاڑیاں، ارب پتی بریگیڈیئر اور پاناما لیکس میں لِکھے ہوئے نام پڑھ کر خیال آیا کہ یا اللہ ہماری ماں کا پّلو ہے یا قارون کا خزانہ کہ ہم نسلوں سے چرا رہے ہیں اور ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔پڑھے لکھے لوگ ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارے سیاست دان اور سیٹھ (اور اکثر سیٹھ سیاستدان) اپنی جائیدادیں باہر اِس لیے رکھتے ہیں کیونکہ اِس ملک میں سرمایہ کاروں سے نفرت کی جاتی ہے۔ آج حکومت میں ہیں تو کل جیل میں۔ آخر و ±ہ اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہ کریں؟یہ دانا لوگ ہمیں یہ بتانا بھول جاتے ہیں کہ آدھے سے زیادہ پاکستان بِن ماں کا بچہ ہے۔ ایک دفعہ سینیئر تجزیہ کار سِرل المیڈا نے کہا تھا کہ پاکستان میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنھوں نے کبھی یہ دیکھا ہی نہیں کہ سکول اندر سے کیسا دِکھائی دیتا ہے یا ہسپتال کے اندر کیا مزے ہوتے ہیں۔
لیکن ظاہر ہے اِس مخلوق کو ہم ٹی وی پر کم کم دیکھتے ہیں۔ٹی وی پر آج کل چوروں کا شور جاری ہے۔ کوئی کہتا ہے تم تو ہو ہی عادی چور۔ دوسرا کہتا ہے تمہارا باپ بھی چور تھا۔ پھر کوئی کہتا ہے لیکن پکڑے تو تم گئے ہو۔
کرپشن پر بحث ایسی ہی ہے جیسے جمعے کے خطبوں میں علما حضرات گناہ گاروں کا دِل گرمانے کے لیے حور و غلمان کا ذکر کرتے ہیں۔
ہم سے ووٹ مانگنے والوں نے تو لندن اور نیویارک میں گھر بنا رکھے ہیں۔ ہمیں اندر سے یہ س ±ن کر خوشی ہوتی ہے کہ ہم نہ سہی ہمارے کسی فوجی بھائی نے ارب پتی بننے کا طریقہ سیکھ لیا ہے۔ہم سب کو اندر سے یقین ہے پیسے بنانے کا کوئی سیدھا اور ایمانی طریقہ نہیں ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ آپ 50 ہزار تو حلال طریقے سے کما سکتے ہیں شاید 5 لاکھ بھی لیکن 50 کروڑ بنانے کے لیے تو چوری کرنی پڑتی ہے۔
اگر ہمارے ملک میں کرپشن کی سرایت کو سمجھنا ہو تو دارالحکومت اسلام آباد پر ہی نظر ڈال لیں۔ نِصف صدی پہلے کچھ جرنیلوں، سرکاری افسروں اور سیاستدانوں نے ایک خوبصورت جنگل چن کر دھڑا دھڑ ایک دوسرے کو الاٹ کرنا شروع کر دیا اور دو نسلوں بعد پاکستان کا سب سے مہنگا شہر وجود میں آ گیا۔ جِس ملک کے دارالحکومت کی بنیادیں ہی ایسے کھڑی ہوں ا ±س میں کسی سیاستدان یا چند سرکاری ملازمین کا نام ا ±چھالنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
س ±نا ہے اسلام آباد کا علاقہ چک شہزاد اِس لیے بنا تھا کہ کھیتی باڑی کرنے والوں کو دیا جا سکے۔ آج وہاں رہنے والوں سے پوچھیں کہ پیاز زیرِ زمین ا ±گتا ہے کہ درختوں پر لگتا ہے تو وہ کہیں گے کیا ’ہم تمہیں کمّی کمین لگتے ہیں۔‘
سیٹھوں، ججوں، جرنیلوں اور سرکاری ملازمین کو تو چھوڑیں ہم جو اپنے آپ کو قلم کا مزدور کہتے ہیں، مساوات اور اِنسانی حقوق کی چھابڑی لگا کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے پریس کلب بھی اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی راہِ خدا کچھ دے جائے۔ ہمارے ہر چارٹر میں بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ صحافیوں کو پلاٹ دیے جائیں۔
ہمارے شہروں کی آرٹ کونسل میں ہر طرح کے آرٹسٹ ہیں لیکن زیادہ تر ظاہر ہے شاعر ہیں۔ آرٹ کونسل بھی مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں بھی پلاٹ دیے جائیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر ریاست کو ہر شاعر کو پلاٹ دینا پڑ گیا تو ہندوستان کے ساتھ دو چار اور ملک بھی فتح کر لیں پھر بھی زمین کم پڑ جائے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم جیسے خواب بیچنے والے بھی ایک آنکھ سے ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں، دوسری آنکھ ماں کے پرس پر رکھتے ہیں۔(بشکریہ بی بی سی)