ماں ! یہ کیسی دنیا میں جی اٹھی میں

کلام: شعاعِ نور

انتخاب: ڈاکٹر شہلا گوندل

یہ میرا قالب
گداز ہوکے اسی ارادے کو پختگی سے نبھا رہا ہے
کہ جس کا مجھ سے عہد لیا تھا

اذیتوں اور مشقتوں کے ہر اک شکنجے نے مجھ کو آزاد کردیا ہے
میں شبنمی پیرہن میں لپٹی اب اپنی تجسیم سے ملی ہوں
میں خود پہ یوں منکشف ہوئ ہوں
کہ عکس سارے مری بصیرت
میں ڈھل چکے ہیں

سیاہ لمحوں کی حکمرانی تو جسم و جاں پر ہی ہوسکی ہے

غنی خدا کے فیوض کتنے ہی اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہوں

سنہری ہالہ مری سکینت کے واسطے کس نے کھینچ ڈالا

مری گلابی ہتھیلیوں پر یہ کس نے اتنے گلاب رکھے

یہ کیسی دنیا میں جی اٹھی میں
کہ سکھ میں ہر دکھ بدل رہا ہے

سیاہ لمحے سفید لمحوں میں ڈھل چکے ہیں

یہ ضبط میرا یہ صبر میرا جو مسکرا کر گلے لگے ہیں
میں ان کے سینوں پہ کتنے تمغوں کو دیکھتی ہوں

یہ میرے آنسو جو ضبط کی قید میں پڑے تھے وہ میرے رستوں کی روشنی ہیں

یہ کیسی دنیا ہے جس پہ شاداب ساعتیں حکمراں ہوئ ہی

یہ کس تقدس کا ہاتھ ہے جس نے سر پہ یوں سائباں کیا ہے
کہ دھوپ نے رخ بدل دیا ہے

میں دیکھتی ہوں یہاں سے منظر کا رنگ بلکل بدل چکا ہے
لطافتوں نے کثافتوں کو نگل لیا ہے
سیاہ لمحوں کی حکمرانی تو جسم وجاں پر ہی ہوسکی ہے
سنہری ہالے میں جگمگاتا ہوا یہ قالب

چمک رہا ہے

میں دیکھتی ہوں وہ مستعد دل جو میرے اطراف میں کھڑے ہیں
یہ خوش نصیبی کا سبز آنچل جو مجھ کو اوڑھا دیا گیا ہے

یہ میرا ایماں نصیب بن کر جو میرے سینے میں ایسے ابھرا کہ
جیسے سورج چمک رہا ہو
یہ زخم خوردہ سا دل کے جس میں دکھوں کو میں نے چھپا کے رکھا
وہ سارے دکھ سکھ کے پیرہن میں بہار جیسے کیوں دکھ رہے ہیں
کہاں گئے ہیں اذیتوں کے وہ باب
اور ہجر کی کتھائیں
وہ میرے آنسو جو مسکرا کر مجھے محبت سے دیکھتے ہیں
کہ جیسے فاتح یقیں کی منزل کو دیکھتے ہیں

سعید روحوں کے قافلے نے وفا کا پرچم تھما دیا ہے
میں اتنی حقدار تو نہیں تھی
مگر محبت کا ایک پیکر جو جسم وجاں کا ہوا ہے مالک
وہ دستگیری کے سارے وعدے نبھا رہا ہے
میں اپنی جنت میں مطمئن ہوں
وہ دیکھ کر مسکرا رہا ہے

شعاعِ نور💫

اپنا تبصرہ لکھیں