ماہِ رمضان میں آپ اپنی شخصیت کاارتقاء
(Personality Development)
کیسے کریں؟
از:ندیم احمد میر(کولگام،کشمیر)
جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج ہم سب اس عظیم ماہِ مبارک میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات (Costly moments) گزار رہے ہیں کیا پتہ کہ اگلے سال ہم اس ماہِ مبارک کو پائیں گے بھی یا نہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم اس ماہِ تزکيہ وتربیت(The month of Purification and Training) میں اپنے وجود میں انقلاب (Revolution)بپا کریں اور یہی ہماری دنیوی واخروی کامیابی کا زینہ ہے۔ایک مسلمان کو اللہ تعالٰی ہی سے مضبوط تعلق(Attachment) ہونا چاہیئے بلکہ اسے یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالٰی سےاس کا تعلق گھٹنے نہیں بلکہ روز بروز گہرا اور بڑھتا چلا جانا چاہیئے اور یہ بات پیش نظر رہنی چاہیئے کہ اللہ تعالٰی کی راہ میں مستقل مزاجی (Consistency) سے چلنے کے لیے اللہ تعالٰی کے ساتھ مضبوط تعلق کا ہونا ناگزیر ہے۔اس ماہِ مبارک میں اللہ تعالٰی سے تعلق مضبوط کرنے کے لیے فرائض کے علاوہ نوافل کا بھی خوب اہتمام کرنا ہی ایک عقلمند اور دانشمند مسلمان کا کام ہے چونکہ جو تعلق باللہ اسلام تقاضا کرتا ہے وہ درحقیقت کوئی آسان کام نہیں بلکہ دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے لہٰذا اس طاقت کو حاصل کرنے کے لیے فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل سے بھی سہارا لینا پڑتاہے ۔اس لیے تساہل(procrastination ) سے بچتے ہویے “صحیح وقت پر صحیح کام کیا جایے”The right thing at the right time کے اصول کے تحت آج سے ہی اپنے وجود میں تبدیلی(Change) لانے کی کوشش کریں۔ذیل میں ہم آپ کے لیے چند تجاویز پیش خدمت کرتے ہیں تاکہ ان پر عمل پیرا ہونے کے بعد ہی إن شاء الله آپ اپنے وجود میں تبدیلی دیکھنے کے ساتھ ساتھ روحانی سکون(Spiritual Calmness) سے بھی مستفیض ہوں گے جس کی آج ساری دنیا متلاشی ہے۔تجاویز اس طرح ہیں:
1۔اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا کریں تاکہ آپ کی عبادت درجہ احسان(Benevolence) تک پہنچ سکے۔
2۔روزانہ کم از کم ایک پارہ کی تلاوت کیا کریں اور کسی اچھے قاری کی زبان سے تلاوت بھی سنا کریں کیونکہ تلاوتِ قرآن ہی ہمارے دلوں کےزنگ(rust) کو دور کرنے کا مؤثر ترین ذریعہ ہے ۔
3۔چنے گیے سورۃ میں سے چند آیات کا تفسير ضرور پڑھا کریں اور قرآن کی روح(Spirit) تک پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ آپ کو وہ حکمت(wisdom ) حاصل ہوسکے جسےعلوم کی شاہِ کلید(key to knowledge) کہا جاتا ہے۔
4۔اسلامی لٹریچر میں سے کسی ایک کتاب کا انتخاب کریں اور اس میں سے ہر روز چند اوراق کا مطالعہ(Study) ضرور کیا کریں تاکہ آپ کے اندر سیکھنے کا دائرہ(learning capacity) دن بدن مزید وسعت میں چلا جایے۔
5۔سحری کھانے سے پہلے نمازِ تہجد(نفل)پابندی (Punctuality) سے پڑھا کریں اگرچہ دو رکعت ہی کیوں نہ ہو اور اس میں دعا پورے آداب و شرائط کے ساتھ مانگا کریں کیونکہ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے۔
6۔طلوعِ آفتاب کےپندرہ منٹ بعد نمازِ اشراق دو رکعت (نفل)کو پڑھ کر سونا ہی آپ کے لیے بہتر ثابت رہے گا۔
7۔ چاشت کے وقت میں نمازِ چاشت دو رکعت(نفل) پڑھ کر ہی آپ اپنے کام میں لگ جائیں۔
8۔عصر نماز سے پہلے چار رکعات(سنتیں)پڑھنا نہ بھولیں۔
9۔افطار کے وقت کمرے میں اکیل پن(Isolation) اختیار کر کے اپنے،گھروالوں ، ہمسائیوں، رشتہ داروں ،دوستوں،استادوں،یتیموں،لاچاروں،مسکینوں، بیماروں،محتاجوں،اسیروں(Captured people)،مجاہدوں ، مظلوموں،گمراہوں،ضعیف الایمان مسلمانوں کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی سر بلندی کے لیے بھی دل کی گہرائیوں سے دعا کیا کریں۔
10۔مغرب نماز کے بعد نمازِ اوابین 6 رکعات(نفل) پڑھ کر ہی کھانا تناول فرمائیں۔
11۔جتنا ہو سکے ذِکر اللہ کی کثرت کیا کریں کیونکہ ذِکر اللہ ہی سے عبادات میں جان(life) پڑتی ہے اور تعلق باللہ میں گہرائی اور گیرائی آتی ہے۔
12۔ضرورت مندوں(needy) کا بھی خاص خیال رکھا کریں کیونکہ یہ ہمدردی کا مہینہ ہوتا ہے ۔
13۔اس ماہِ مبارک میں اپنے حلال مال کو دل کھول کر خرچ کریں۔
14۔سحری اور افطار میں آپ حلال رزق پر ہی اکتفا کیا کریں اور کھانا کم ہی تناول فرمائیں تاکہ آپ کے اندر سستی اور کاہلی نہ آجائے جس کا اثر بالخصوص نمازوں پر پڑتا ہے۔افطار کے وقت آپ دعاؤں (blessings) میں مشغول رہیں کیونکہ یہ گھڑی بھی قبولیت کی ہوتی ہے۔
15۔ تنہائی میں اپنے گناہوں پر نادم(ashamed) ہونے کے بعد دل کی دیواروں کو اپنے آنسوؤں سے دھویا کریں تاکہ اندر کی روشنی پورے وجود میں سرایت کر جایے اور نورِ الٰہی آپ کے دل میں جگہ پا سکے۔
16۔موت کو ہر لمحہ اور ہر آن یاد رکھنا نہ بھولیں کیونکہ یہ شیطان کے خلاف کارگر(mortally) ہتھیار ہے۔
17۔ماہِ رمضان صبر(patience)کا مہینہ ہے لہٰذا اس صفت کو اپنے وجود میں لانے کا سنہری موقع ہے اور یہی صفت ایک مسلمان کو سخت سے سخت آزمائش(tentative )کے مقابلے میں مضبوط چٹان کی طرح لا کھڑا کر دیتا ہے۔
18۔ دورِ نو کے social media پر بے تحاشا وقت ضائع کیا جاتا ہے۔چونکہ وقت ہی زندگی ہے اس لیے وقت کا ضیاع ہی اصل میں زندگی کا حقیقی خسران ہے۔ ماہِ رمضان میں مسلمانوں کو وقت ضائع نہ کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے لہٰذا اس چیز کو مدِ نظر رکھتے ہویے آج ہی سے Time Management کے لیے قدم اٹھانا شروع کریں اور سب سے پہلے آپ موبائل فون کو کنٹرول کریں ورنہ یہ آپ کو کنٹرول کر کے ہی رکھ دے گا۔
19۔روزہ کی روح یعنی تقوٰی(piety) کو صیام و قیام اللیل کے ذریعہ حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کیا کریں اگرچہ اس میں مختلف تکالیف ہی برداشت کیوں نہ کرنے پڑیں ۔
20۔روزہ ہمیں ضبطِ نفس کی ٹریننگ دیتا ہے لہٰذا آپ اس ماہِ مبارک میں اپنے اندر حلم و بردباری (tolerance) کو پروان چڑھائیں، جسے حدیث میں مومن کا زیور بتایا گیا ہے اور اس صفت کو لے کر ہی آپ “راضی برضائے رب “والی زندگی گزار سکتے ہیں ۔
21۔انسان نفسانی وجود کے ساتھ ساتھ ایک روحانی وجود بھی رکھتا ہے اور یہی روح انسان کی شخصیت کا جوہر اصلی ہے ۔گویا انسانی وجود اصلاً ایک روحانی وجود ہے ۔جیسا کہ کہا بھی گیا ہے کہ:you are a soul with a body rather than a body with a soul اور اس روح کا origin اللہ تعالٰی کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ بد قسمتی سے باقی گیارہ مہینوں میں اگرچہ یہ صرف اپنے origin پر نظر رکھتا ہے کیونکہ ہمارے کرتوت کی وجہ سے یہ نفس کی زنجیروں میں ہی جکڑا رہتا ہے اس لیے آج اس ماہِ مبارک میں نفس کی زنجیروں کو کاٹ کر اس پر ایک کرم (clemency)فرمائیں تاکہ یہ بھی آزاد ہوکر اپنے محبوب کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز خم کرسکے اور اس ماہِ مبارک میں روزہ کے ذریعہ سے اس کے اندر تقوٰی کی صفت کو پروان چڑھائیں اور حقیقت میں تقوٰی اس کے لیے بھوک کی حیثیت رکھتی ہے ،اس بھوک کو مٹانے کے لیے لازماً روح اپنے پسندیدہ غذا کا متلاشی بنے گا اور اس کا یہ غذا ہمارے ہاں “القرآن “کی صورت میں موجود ہے جسے ہمیں اسے رات میں آہستہ آہستہ دینا چاہیئے تاکہ یہ فربہ(stout) ہو کر نفس کو اپنے قابو میں لے کر اپنے سفر کو آسانی کے ساتھ طےکرسکے اسی چیز کوہمارےہاں”روحانیت”(spirituality)کے نام سے جانا جاتا تھا یعنی روح نے نفس پر فوقیت دن میں روزہ اور رات میں قرآن کے ذریعہ سے حاصل کی لیکن ستم ظریفی یہ ہےکہ اس پاکیزہ لفظ کی بھی دھجیاں اڑا دی گئیں اور اسے خوابوں کی دنیا میں مقید کیا گیا۔
اب آپ پر فیصلہ ہے کہ جتنا آپ اس ماہِ مبارک میں اپنے اندر روزہ کے ذریعہ سے تقوٰی کے حصول میں کامیاب ہو جاؤ گے اتنا ہی آپ کا روح قرآن اخذ کر کے روحانیت میں کمال دکھا کر آپ کا نام دنیا و آخرت میں روشن(bright) کر کے ہی رکھ دے گا۔
22۔ ویسے تو لوگوں کے دلوں کی زمین باقی مہینوں کے بنسبت ماہِ رمضان میں نرم پڑی ہوتی ہے لہٰذا اس چیز سے فائدہ اٹھا کر ان کے دلوں میں ایمان کا بیج ڈال کر ہی آپ انکے دل فتح کر سکتے ہیں اور یہ بات پیشِ نظر رہے کہ پیاسی روحوں کےلیے اسلام آب حیات(nectar) ہے لہٰذا اس ماہِ مبارک کو غنیمت جان کر بالخصوص آپ اپنے دوستوں کے درمیان اسلام کا جامع تعارف کریں اور کرائیں تاکہ سعید روحیں خود بخود اس کی طرف لپکیں اور آپ بھی اُن بشارتوں(gospels ) کے مستحق ہوسکیں جن کا تذکره قرآن و حدیث کے ارشادات میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔
مذکورہ تجاویز پر عمل کرکے ہی آپ اپنی شخصیت کا ارتقاء کر سکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں ان پر عمل پیرا ہونے سے ہی آ پ کا دل ازسرِ نو زندہ ہو جایے گا اور یہی امتوں کے مرض کہن کا چارہ ہوتا ہے جیساکہ علامہ اقبالؒ نے اپنےایک شعر میں اس چیز کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے؎
دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرض کہن کا چارہ