ماہ محرم اور خوشی کی محفلیں
تحریر شازیہ عندلیب
وہ کون مسلمان ہو گا جو کہ ماہ محرم کے احترام اور نویں دسویں محرم کی حرمت کو نہ جانتا ہو گا۔اگر وہ نہیں جانتا تو پھر وہ سچا مسلمان نہیں۔اگر وہ ان دونون دنوں کا احترام عملی اور زبانی طور پر نہیں کرتا تو پھر وہ مومن کے درجے پر فائز نہیں ہو سکتا۔واقعہ کربلاء اور سرور کونین کے پیارے نواسوں کی دلدوز شہادت کا واقعہ ہر باشعور مسلمان جانتا ہے۔ایک جانب تو کچھ مسلمان نویں دسویں محرم کو شہدائے کربلاء کی یاد میں روتے پیٹتے ہیں تو کچھ ذکر اذکار کی محفلیں لگاتے ہیں۔ جبکہ کچھ اہل ایمان شہدائے کربلاء کی روحوں کو ایصال ثواب پہنچانے کی غرض سے اپنے اقرباء اور غرباء کو مختلف کھانے اور مشروبات تقسیم کرتے ہیں۔ غرض اس یوم غم کوہر مسلمان اپنی بساط کے مطابق مناتا ہے۔لیکن ان تمام مسلمانوں کے بر عکس مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کہ اس ماہ اور خاص طور سے نویں دسویں محرم کی حرمت کا خیال کیے بناء خوشی اور شادی بیاہ کی محفلیں سجا لیتا ہیں۔َ اگر ان سے اس بارے میں پوچھا جائے تو یہ عذر پیش کر تے ہیں کہ محرم کا مہینہ تو محض اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اس لیے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر ہم اس ماہ میں خوشیاں منا لیں۔ یا پھر وہ صرف ایک ہی فرقے کے مسلمانوں کے لیے غم منانے کا موقعہ ہے۔یہ بات اخلاقی اور مذہی طور پر بالکل درست نہیں ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر مسلمان جو روز قیامت پر یقین رکھتا ہے اور اپنے رسول پاک ۖ کی شفاعت پر بھی یقین کامل رکھتا ہے ۔ا سلیے کہ انسان معصیت کا پتلا ہے۔اس سے دانستہ یا غیر دانستہ غلطیوں کا ارتکاب ہوتا رہتا ہے۔ایسی صورت میں ہر مسلمان روز محشر اپنے پیارے رسول آنحضرت ۖ کی شفاعت کا طلبگار ہو گا۔اس کے بوجود اگر کسی کا دل اس قدر کٹھور ہو کہ وہ ہمارے پیارے نبی کے نواسوں اور ان کے خاندان پر توڑے گئے ظلم کے پہاڑ پر اظہار غم کا عملی اور زبانی کلامی مظاہرہ نہ کرے بلکہ اس روز بھی دنیا کے کاموں میں مشغول رہے اور خوشیاں مناتا پھرے تو پھر وہ اپنے رسول پاک کی شفاعت کو کیونکر حقدار ٹھہرے گا؟کیا وہ روز قیامت آپ کی سفارش کا مستحق ہو گا؟ کیا وہ اس عظیم ہستی کی شفاعت حاصل کر سکے گا؟کیا ایسا شخص ربّ ذو الجلال کی محبوب ہستی کے غم میں شریک ہوئے بناء اسکی رحمت اور اسکی نگاہ کرم کے سائے کے قابل ہو سکتا ہے؟حق تو یہ ہے کہ آقائے انبیاء آخرزمان نبی ۖ کے لیے فرزندان توحید اپنی جانیں نثار کر دیں۔اس عظیم ہستی کی خوشی کو اپنی خوشی اور انکے غم کو اپنے غم سے بڑھ کر جانیں تو تب ہی ایک مسلمان کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ورنہ محرم کے روزخوشیاں منانے والے روز ممحشر مجرموں کی طرح بارگاہ خدا وندی میں پیش ہوں گے۔اس لیے اس روز غم پر خوشی کی محفلیں سجانے والے کبھی سچی اور دائمی خوشیوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد اکثر لوگ اپنی تحریروں میں یہ لکھتے ہیں کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاء کے بعدیہ بات کہنا بھی اصولی طور پر جائز نہیں ۔کیا اسلام کو استغفراللہ زندہ ہونے کے لیے واقعہ کربلاء کی ضرورت تھی؟نہیں ہر گز نہیں، یہ تو ایک زندہ و جاوید دین الہیٰ ہے جسے کسی خاص واقعہ کی حاجت نہیں ۔یہ ہمیشہ سے زندہ و جاوید مذہب ہے جو کہ ازل سے ہے اور ابد تک زندہ رہے گا۔ابتدائے آفرینش سے ہمارے آخری نبی تک جو بھی انبیاء آئے ہیں انہوں نے صرف اور صرف اسلام اور توحید کا ہی پیغام دیا ہے۔جب اس دین میں تبدیلیاں ہوئیں پھر دوبارہ وہی اعتقادات اگلے پیغمبران لائے۔اس طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء جو دنیا میں دین حق یعنی اسلام لائے ان سب نے بنیادی طور پر ایک ہی تعلیم دی۔جو کہ یہی تھی کہ اللہ ایک ہے ۔شرک جائز نہیں ۔مذاہب کے مختلف نام در حقیقت اسلام کی بدلی ہو ئی اشکال ہیں جو کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے رکھے گئے ہیں۔اس لیے یہ کہنا کہ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاء کے بعد یا پھر نویں دسویں محرم کو خوشیاں منانا اسلامی ،مذہبی اور اخلاقی رو سے بالکل جائز نہیں ہے۔