مجھے محبت نگل رہی ہے

شاعرہ: شعاعِ نور

ہے کوئی جملہ گریز کا جو میں
اپنی سطروں میں آج بھر لوں

ہے کوئی مصرعہ جو روبرو میرے ہاتھ باندھے کہے کہ ہاں اجنبی فضا یہ

یا بیوفائی دلیل کی اک صدا لگائے

ہے کوئی منکر جو میرے پہلو میں بے نیازی دکھا کے گزرے
ہے کوئی در جس کو کھٹکھٹاؤں
تو نہ کھلے وہ

کوئی وضاحت جو اپنے مفہوم
کو عیاں کرسکے نہ مجھ پر

ہے کوئی آنسو جو ضبط
کی کوکھ میں پڑا ہو

یا بیوفائی کا کوئی دعوی مری محبت سے جو بڑا ہو

یا کوئی ترتیب اس طرح کی
جو اپنے خانوں کو پھر مرتب کرے تو ایسے
کہ ساری ترتیب ہی بدل دے

ہے کوئی جو کرب کا یہ سنگیت
میرے ہونٹوں پہ قفل کردے

کوئی گذارش جو ہاتھ باندھے
کہے کبھی تو
مزید چلنا ہوا ہے دو بھر
فسردگی کا جواں تعلق کوئی تو خانوں میں ایسے بانٹے

کہ اس حقیقت کی سطر کاٹے

وہی حقیقت جو کرب بن کر
دلوں کے رستوں میں بہہ رہی ہے

ورق بھگو کر جو ایک انمٹ نشاں مٹانے کی کوششوں میں ہر اک سے جا جا کے کہہ رہی ہے

کہ ہجر ساعت پگھل رہی ہے

مجھے
محبت نگل رہی ہے

اپنا تبصرہ لکھیں