زبیر حسن شیخ
آج کافی دنوں بعد شیفتہ اور بقراط کو چمن میں دیکھا. موسمِ گرما کی آمد کے آثار انکے چہروں پر دکھائی دے رہے تھے. لیکن لہجہ میں موسم بہار کا اثر قایم تھا. شیفتہ نے فرمایا، حضور ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں الکشن تمام ہوئے اور قصہ پاک ہوا. محمود شام صاحب کا مضمون پڑھ کر معلوم ہوا پاکستان میں بھی الیکشن تمام ہوئے. وہاں کا قصہ بھی پاک ہی سمجھیے. افغانستان میں بھی امریکہ قصہ پاک کر بیٹھا ہے. اس سے اب جایا نہیں جاتا، تورا بورا میں پوشیدہ کشش ثقل کا اسے اندازہ نہیں تھا، گردن نکال چکے تو پیر پھنس گئے. اب یہ حال ہے کہ “کھینچتا ہے جسقدر، اتنا ہی کھنچتا جائے ہے”. ہائے افسوس اس سیم تن کے پاں، آج مرزا ہوتے تو ضرور کچھ کرتے یا کہتے. ایران نے بھی کیا خوب قصہ پاک کیا. بزرگ کہا کرتے تھے، کنویں سے ناراض ہوکر اگر کوئی اپنی حاجتیں پوری نہ کرے تو کنویں کا کچھ نہیں جاتا، بیٹھے رہیے تصورِ جاناں کیے ہوئے، ایرانی تیل کے کنووں کے ساتھ اہل مغرب اب یہی کر رہے ہیں. حال ہی میں کئی ملکوں کے کنویں جلا کر بیٹھے ہیں اور اپنی حاجات کو معطل کر بیٹھے ہیں. اسرائیل سے کانگریس کی دل لگی کا قصہ بھی اب طشت از بام ہورہا ہے. یہ وہی دل لگی ہے جسکی ابتدا تب ہوئی تھی جب بی جے پی اسرائیل کے اعمالِ سیاہ کی اسیر ہوئی تھی، بلکہ دونوں ایکدوسرے کے سیاہ اعمال میں الجھ کر گر پڑے. عشق کی ابتدا بس ہوئی ہی تھی کہ رقیب درمیان میں آگیا. پھر رقیب بھی اسی کافر ادا کا اسیر نکلا. اسکی ادائے کافرانہ پر سارے شیطان قربان. کانگریس نے اسرائیل کے ساتھ تجدید وفا کی رسم ادا کر سب کو متحیر کر دیا. کانگریس کے آبا و اجداد کبھی اس کافر ادا کو اغیار میں شمار کرتے تھے اور “غیر وابستگی” کا کھل کر مظاہرہ کیا کرتے تھے. لیکن اب تو یہ حال ہے کہ کانگریسی رہنما مسلمانوں کی غیر وابستگی دیکھ کر کہتے ہیں، “اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم، اللہ اللہ”. ویسے کانگریس اپنے انجام سے بے خبر نہیں ہوگی، اور اگر ہوگی بھی تو یو پی کے الیکشن کے بعد ضرور خبردار ہو گئی ہوگی. بی جے پی کے متعلق تو ویسے بھی یہی کہا جاتا رہا ہے کہ”کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور”. بی جے پی کو جو اشارے آر ایس ایس سے ملتے ہیں اور جس بلاغت سے ذرائع ابلاغ اسے پیش کرتے ہیں، دیکھکر بی جے پی یہی کہتی ہے کہ “ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور” …… ان ذرائع ابلاغ میں چند ایسے بھی ہیں جو ابھی تک سن بلوغت کو نہیں پہنچ پائے اور اکثر بازیچہ اطفال سجائے بیٹھتے ہیں. ایسے ہی ایک نام چین ذرائع ابلاغ کی گود میں رشدی مردود کو حال ہی میں بیٹھایا گیا، ایسی نشست کو انگریزی میں ‘کونکلیو” کہتیہیں.
بقراط نے کہا، حضور صحافت اور ٹی و ی میڈیا کا یہ حال ہوا ہے کہ… “بک جاتے ہیں ہم آپ، متاع سخن کے ساتھ….لیکن عیار طبع خریدار دیکھ کر”.. اس شعر میں لفظ “بک” کو آپ زیر و زبر کر کے پڑھ سکتے ہیں اور دونوں طرح سے یہ ان کے حال کی غمازی کرتا ہے. سنا ہے اس بار شیطان مردود کو علمائے دین سے شکایت نہیں رہی بلکہ حکومت اور خاصکر کانگریس سے رہی. اور اس نے اپنے ہم نفسوں کی جھوٹی افواہوں کی خود ہی پول کھول دی. پچھلی بار اسکی آمد پر لگی روک تھام کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر سے اب ہٹادیا گیا. ہندوستانی صحافت میں اپنی روزی روٹی حاصل کرنے کے لئے صرف اتنی زحمت کرنی ہوتی کہ امن پسند مسلمانوں کو ہدف بنانا ہوتا ہے، اور مختلف حیلے بہانوں سے انھیں چھیڑنے کا موقع ڈھونڈنا ہوتا ہے، بلکہ انھیں احساس دلانا ہوتا ہے کہ جب تک آپ سیکولر نہیں بن جاتے آپ ایک امن پسند اور معزز شہری نہیں ہو سکتے .
بقراط نے کہا، لیکن مسلمان بھی گرمی دکھانے سے کب باز آتا ہے. فرمایا ، کوئی کرگس ہے جو باز آئے. مسلمان کو پتہ ہے کہ چند گروہ ایسے ہیں جو اسکے ایمان کی گرمی کا مسلسل اندازہ لگاتے رہتے ہیں، کب یہ ذرا سرد ہو تو اسکے گلے میں “سیکولر ازم ” کی مے ناب کے چند قطرے ڈال دیں.اب اس مشہور و معروف ٹی و ی چینل کو ہی لے لیجیے ، اسے دنیا میں کوئی شریف انسان ملا ہی نہیں. افسوس کہ سترہویں صدی کے زٹلی اور پچھلی صدی کے چرکن زندہ نہیں رہے ورنہ رشدی کے ساتھ ملکر ایسے “کونکلیو” کی شان بڑھاتے. عمران خان نے ٹھیک ہی کیا جو رشدی مردود کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا. کہتے ہیں مہذب لباس زیب تن کر کسی برہنہ کے ساتھ بیٹھنا بڑا صبر آزما ہوتا ہے. ایسے “کونکلیو” کا مقصد تو یہی ہونا چاہیے کہ عالمی رواداری اور بھائی چارگی کو فروغ دیا جائے، کسی کو خوش کرنا اور کسی کے دل میں نفرت پیدا کرنا چہ معنی . ذرائع ابلاغ اور صحافت میں ایسے کئی ادارے ہیں جن پر مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ملتفت رہی ہے لیکن کیا کریں اب تو یہی کہتے ہیں کہ. “ہم تم سے چشم رکھتے تھے، دلدار یاں بہت…..سو ، التفات کم ہے، دل آزاریاں بہت” . ذرائع ابلاغ اور صحافت کے چند ادارے اب بھی ایسے ہیں جو مسلمانوں کو اپنی طرف راغب رکھنے میں کوشاں رہتے ہیں اور انکے جائز حقوق کی اور انکی اہمیت کی ترجمانی کرتے رہتے ہیں. “زی سلام” اور “ای ٹی و ی” کا نام قابل ذکر ہے. چھوٹی موٹی ستم ظریفی اور غیر ارادی دل شکنی کہاں نہیں ہوتی اور جو قابل در گزر ہونی چاہیے.
بقراط نے کہا جناب ، چند انگریزی اخباروں میں منافقت سے بھر پور مضامین پڑھیے اور غور فرمائیے کہ سیکولر ازم کی نئی تعریف لکھی جا رہی ہے . لکھنے والے نام سے تو مسلمان ہی لگتے ہیں اور شجرے سے کچھ کچھ مشکوک. چند ہزار روپوں کی نوکری کی خاطر اپنے ہی بھائیوں پر الزام تراشی کرنا اور علمائے دین کا مذاق اڑا کر واہ واہی بٹورنا، عوام کو گمراہ کرنا، ایسا طرز فکر و عمل بزدلی اور منافقت کی غمازی کرتا ہے. شیفتہ نے فرمایا، افسوس تب ہوتا ہے جب مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ ایسے طرز فکر و عمل کی تائید کرتا ہے. زرد صحافت کے ٹکڑوں پر پلنے والوں میں چند مسلمان بھی ہیں اور نہ ہی انکے کوئی اصول ہوتے ہیں اور نہ اخلاقی قدریں. آئے دن دین و مذہب پر کیچڑ اچھال کر یہ جتا تے ہیں کہ دیکھیے ہم نے کیسے اسلام پر یعنی خود اپنے عقیدے پر چوٹ کی ہے، اور اپنے اعلی تعلیم یافتہ، ماڈرن اور وفادار ہونے کا ثبوت دیا ہے. آسمان پر تھوک کر آئینہ دیکھنا بھول جاتے ہیں یہ احمق. اگر سیکولرازم کے معنی میں تمام مذاہب کی تقلید یا توہین کا ڈھونگ رچانا ہے تو مسلمان جانتا ہے کہ اس سے بڑھکر کوئی منافقت نہیں، اور اگر اسکے معنی میں تمام مذاہب کا احترام کرنا ہے تو مسلمان سب سے بڑا سیکولرسٹ ہے . کیونکہ تمام مذاہب کا احترام کرنا اس پر واجب ہے اور اسکے دینی احکامات کا حصہ ہے . ایک امن پسند شہری اور مخلص انسان ہونے کے لئے سیکولر ہونا ضروری نہیں، کروڑوں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی اور یہودی بھائی اور بہنیں ہیں جو مذہبی ہیں اور ان اوصاف کے حامل بھی ہیں.
شیفتہ کی لن ترانی جاری تھی کہ ایک سائیکل سوار لڑکا کرتب دکھاتے ہوئے ہماری نشست کے قریب آکر اچانک گر پڑا اور فورا دامن جھاڑ کر اٹھا، اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا “مجھکو یہیں اترنا تھا”. پھر اپنے حواس مجتمع کرنے کی خاطر شیفتہ کے قریب بیٹھ گیا. شیفتہ نے شفقت بھری نظروں سے اس لڑکے کی آنکھوں میں جھانکا اور جیب میں موجود واحد دس روپوں کا نوٹ نکال کر اسکی مٹھی میں بند کر دیا. لڑکاسائیکل اٹھا کر یہ جا اور وہ جا. بقراط نے تعجب سے شیفتہ کی طرف دیکھا. شیفتہ نے فرمایا، جن حالات حاضرہ پر ہم دونوں ابھی ابھی تبصرہ کر رہے تھے اس ذہین و فتین لڑکے نے اپنے ایک جملے میں ان سب کی بہتر ترجمانی کر دی. اردو ادب میں خجالت اور شرمندگی سے بچنے یا اسے چھپانے سے متعلق مختلف الفاظ، محاورے اور ضرب الامثال موجود ہیں، جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچے، انگور کھٹے ہیں.. وغیرہ وغیرہ . اس دور پر فتن میں اب جو بھی گرپڑتا ہے یہی کہتا ہے کہ میں گرا نہیں ہوں بلکہ “مجھکو یہیں اترنا تھا”. یہی وہ طرز فکر و عمل ہے جو انسان کو ہر بار ٹھوکر کھانے پر آمادہ کرتا ہے اور پھر وہ کبھی نہیں سنبھلتا. “مجھکو یہیں اترنا تھا” کی عکاسی مذکورہ “کونکلیو” میں بھی دیکھنے ملی. کانگریس اور بی جی پی کے رہنماوں کا بھی یہی حال تھا جب یو پی اسمبلی الیکشن میں شکست کھا کر وہ میڈیا میں اپنے تاثرات پیش کر رہے تھے. “گجرات کے شیطان” کا ابتدا سے یہی حال رہا، بلکہ وہ تو پاتال تک گر کر دیکھ چکا ہے، اور اسکا یہ کہنا کہ “یہیں اترنا تھا” بلکل بجا ہے . یہی موقف امریکہ کا افغانستان کے معاملہ میں رہا ہے، امریکہ اب ایران کے معاملے میں بھی یہی کہتا ہے کہ “مجھکو یہیں اترنا تھا”. اسرائیل کی ہٹ دھرمی سے پریشان اہل مغرب کی معیشت منہ کے بل گر پڑی، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ “ہمیں یہیں اترنا تھا”. یہی طرز فکر و عمل پاکستانی سیاست کا امریکہ کے ساتھ رہا. عرب لیگ اور عرب حکمرانوں کا کیا کہنا، جب جب اتحاد کا سوال اٹھا تو لڑ کر ایکدوسرے کو گرا کر ہی دم لیا، اور یہی تاثر دیا کہ “ہمیں یہیں اترنا تھا”.
بقراط نے پوچھا، حضور سماج وادی پارٹی کا وہ نو جوان جو سائیکل پر کرتب دکھانے میں کامیاب رہا، اسکے بارے میں کیا خیال ہے ؟ فرمایا ابتدائے عشق ہے……… یو پی کے مسلمانوں اور مسلم رہنماں پر دوہری ذمہ داری آن پڑی ہے اورپتہ نہیں وہ اب ایس پی سے کون کون سے کرتب کروائے. پہلے مرحلہ میں ہی قوم و ملت کے دیرینہ اور غیر حل شدہ مسائل کو حل کروالیں تو غنیمت ہے. اور سب سے اہم یہ کہ صحیح اور مناسب ترجیحات پیش کریں. پسماندگی کے دلدل سے نکلنے کے لئے سب سے پہلے مسلمانوں کے وہ حقوق حاصل کرلیں جو غصب کر لیے گیے ہیں اور جسے حاصل کرنے میں مرکزی یا ریاستی حکومت کا احسان مند ہونے کی ضرورت بھی نہیں. اور ان پر فوری عمل در آمد کی مانگ کریں . باقی تمام مرحلے جب ہونگے تو سب کے لئے ہونگے. غور کریں اور خوب کریں . کہیں یہ نہ سننا پڑے کہ “مجھکو یہیں اترنا تھا” .
بقراط نے کہا، حضور، دنیا جہان میں اب سیاست نے تجارت کی شکل اختیار کر لی ہے. عوام ہو یا سیاسی جماعتیں ہوں یا رہنما، اب کوئی بھی اسے معیوب نہیں سمجھتا، اور ایک حد تک قانون بھی نہیں. ورنہ کیا وجہ ہے کہ جمہوری قوانین میں سیاستدانوں کے تجارت میں حصہ لینے پر، یا تاجروں کے سیاست میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں، بلکہ دونوں حضرات دھڑلے سے اپنا اپنا حصہ لوٹنے میں مصروف نظر آتے ہیں. نظام جمہوریت میں یہ وہ آزادی ہے جو تجارت اور سیاست کے “لیونگ ریلیشن” کو ثابت کرتی ہے. سیاست کو تمام اخلاقی ضابطوں سے بری کر دیتی ہے. جمہوریت کے علمبردار مغربی مفکر یہی کہتے رہے ہیں کہ جمہوری طرز حکومت و سیاست “نان ایکونومک ایکٹیویٹیز” یعنی غیر تجارتی اور بے لوث سماجی خدمات میں شمار ہوتی ہے، شاید عہد فاروقی کی نظیر کہیں پڑھ لی ہوگی. یہ مسئلہ اب جمہوریت کے گلے کا کانٹا بن گیا ہے اور سیاستدانوں کا تجارت کے ساتھ گہرا تعلق عوام کے حق میں مضر ثابت ہورہا ہے. اب تو سلطانی جمہور بھی یہی کہتے ہونگے “مجھکو یہیں اترنا تھا”.
فرمایا، ایک سیاست داں تب ہی دیانت دار ہوسکتا ہے جب وہ حکومت سے حاصل شدہ بنیادی ضرورتوں کے علاوہ زندگی میں اور کسی بھی مادی چیز کے حصول کا روا دار نہ ہو. جمہوریت کی کامیابی اور سیاست میں دیانت داری ثابت کرنے کے لئے اسکے علاوہ اور کوئی نسخہ کار گر نہیں ہو سکتا ، اور نہ ہی کوئی اور اصول کارگر ہو سکتا ہے. بقراط نے کہا، حضور، ہمارے ملکوں کی جمہوریت اور موجودہ سیاست اتنی سخت آزمائیش سے گزرنے کی متحمل نہیں ہے، خدارا کچھ رحم کیجیے، جمہوریت کی عمرِ شباب کا ہی کچھ خیال کیجیے. اور یہ نہ بھولیے گا کہ بہت بڑی خلقت ہے جو جمہوریت کی محبت میں گرفتار ہے. فرمایا، پتہ ہے. خلقت بھی یہی کہہ رہی ہے کہ. “مست شباب وہ ہیں، میں سر شار عشق ہوں……میری خبر انھیں ہے، نہ ان کی خبر مجھے “. اگر مذکورہ اصول ناقابل قبول یا ناقابل نفاذ ہے تو پھر جمہوریت میں سیاست کو خالص تجارتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے اور بطور تجارت اسے قبول کیا جائے . ہر امید وار اپنے “مینیفیسٹو” میں جدید تجارت کے اصولوں کے تحت پروجیکٹ کا تخمینہ پیش کرے جسکا وہ وعدہ کر رہا ہے، آخر جدید تجارت میں یہی تو ہوتا ہے. ویسے بھی آجکل سیاست سرمایہ داروں اور دولتمندوں کی کنیز بنکر رہ گئی ہے. اپنے سرمایہ دار آقاں سے تجارت کے پینترے سیکھ کر کھل کر تجارت کے کھیل کھیلیے . وقت اور ذرائع، فواید و نقصانات، حصہ داری اور ذمہ داری، اجزائے ترکیبی و ترتیبی، الغرض تجارت کے ہر ایک پہلو سے منظم و مرتب لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کیجیے، تاکہ امیدوار کی قابلیت کا اندازہ ہو اور عوام کی بھلائی اور ترقی یقینی ہو . پل بنانا، بجلی فراہم کرنا، آبپاشی کے منصوبے بنانا، نئے شہر بسانا، تعلیم اور صحت عامہ کا انتظام کرنا، صنعت و حرفت کو فروغ دینا اور ایسے ہی دیگر عظیم الشان کام کرنے کا ذمہ اٹھانے والوں اور دعوی کرنے والوں کا ذرا پس منظر تو دیکھیے، خاص کر بر صغیر میں. ایسے کاموں کو گڑیوں کا کھیل یا بچوں کا “بلڈنگ بلاک” سمجھ رکھا ہے اور جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے. اکثر سیاسی امیدوار ایسے کاموں کی بنیادی معلومات تک نہیں رکھتے اور اس پر طرا یہ کہ جمہوریت پر سوار ہو کر کرتب دکھاتے ہیں، اور جب جب ان میں سے کوئی گر پڑتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ “مجھکو یہیں اترنا تھا”.