غزلہے کوئی خط نہ دعا اور نہ پیغام کوئی
دل اُسے دینے کا ہوگا یہ بھی انعام کوئی
دل اُسے دینے کا ہوگا یہ بھی انعام کوئی
مجھ سے روٹھے ہیں وہ کس واسطے میں کیا جانوں
مجھ پہ دشمن نے لگایا نہ ہو الزام کوئی
اپنی بدنامی کا مجھ کو تو کوئی خوف نہیں
میری خاطر نہ کرے آپ کو بدنام کوئی
خوش تو ہوتی ہوں مگر دل بھی مرا جلتا ہے
جب مرے سامنے لیتا ہے ترا نام کوئی
دلِ ناکام کا اس دنیا میں اب کام ہے کیا
ٹوٹے شیشے کا بھی ہوتا ہے بھلا دام کوئی
گم اُسے دیکھ کے یوں عقل نے پوچھا دل سے
تجھ کو آتا نہیں کیا اس کے سوا کام کوئی
ہوش میں رہ کے تڑپنا تو مقدّر ہے مرا
کاش دل کا یہ جنوں دے مجھے آرام کوئی
دوستی، دین، وفا بکتے ہیں سب کچھ موناؔ
اور بازار میں اب کیا کرے نیلام کوئی
Elizabeth Kurian ‘Mona’