شہزاد قیسؔ
محبت اِک سمندر ہے ، ذِرا سے دِل کے اَندر ہے
ذِرا سے دِل کے اَندر ہے مگر پورا سمندر ہے
محبت رات کی رانی کا ، ہلکا سرد جھونکا ہے
محبت تتلیوں کا ، گُل کو چھُو لینے کا منظر ہے
محبت باغباں کے ہاتھ کی مِٹّی کو کہتے ہیں
رُخِ گُل کے مطابق خاک یہ سونے سے بہتر ہے
محبت چاند کے ہمراہ تارے گنتے رہنا ہے
محبت شبنمی آنچل ، محبت دامنِ تر ہے
جہانِ نو ، جسے محبوب کی آنکھوں کا حاصل ہو
فقیہہِ عشق کے فتوے کی رُو سے وُہ سکندر ہے
غضب تاثیر رَکھتی ہے ، پرانے زَخم بھرتی ہے
مسیحا سر جھکا لیں جب ، محبت معجزہ گر ہے
کوئی دُنیا میں نہ بھی ہو ، پہنچ میں ہے محبت کی
بدن سے ماوَرائی ہے ، محبت رُوح پرور ہے
محبت ہے رَمی شک پر ، محبت طوفِ محبوبی
صفا ، مروہ نے سمجھایا ، محبت حجِ اَکبر ہے
محبت جوئے شیرِ کُن ، محبت سلسبیلِ حق
محبت اَبرِ رَحمت ہے ، محبت حوضِ کوثر ہے
اَگر تم لوٹنا چاہو ، سفینہ اِس کو کر لینا
اَگر تم ڈُوبنا چاہو ، محبت اِک سمندر ہے
سنو شہزاد قیسؔ آخر ، سبھی کچھ مٹنے والا ہے
مگر اِک ذات جو مشکِ محبت سے معطر ہےؔ