محبت ہوں
شاعرہ: سونیا
کبھی وہ تھک کے میری گود میں جب سر کو رکھتا ہے
تو میرے ہاتھ، اسکی بند آنکھوں سے
سکوں کو چننے لگتے ہیں
نظم سی بُننے لگتے ہیں!
مگر میں خواب کی ماری
حقیقت میں اسے یوں دیکھ کے کچھ ڈر سی جاتی ہوں!
کہ یہ بھی جھوٹ ہو گر_، سوچ کے ہی مر سی جاتی ہوں
سو ان واہموں سے گھبرا کر
میں اپنے ڈر سے تنگ آ کر
اسے ہی پوچھ لیتی ہوں، تمہیں سچ میں محبت ہے؟
تمہیں میری ضرورت ہے؟
یہ میری چاہ تیرے دل میں، بولو آ گئی کیسے؟
تمہیں میں بھا گئی کیسے؟
وہ بند آنکھوں سے میری بات پر یوں مسکراتا ہے
کہ میرے دل کی دھڑکن دلکشی میں ڈوب جاتی ہے
ہوا کچھ رنگ مجھ کو پھر سے آ کر سونپ جاتی ہے
جھٹک کے واہمے سارے میں دل سے مسکراتی ہوں
بدل کے بات کہتی ہوں
سنو! میں یاد کرتی ہوں تمہیں تو ہر گھڑی لیکن
تمہیں بھی میرے ہاتھوں کی کبھی پوریں بلاتی ہیں؟
میری آنکھیں ستاتی ہیں؟
وہ آنکھیں کھولتا اور سوچ کے کچھ مسکراتا ہے
میرے پہلو میں آ کر سیڑھیوں میں بیٹھ جاتا ہے
سنو تم سانس کی مانند ہی مجھ میں آتی جاتی ہو!
میری دھڑکن بڑھاتی ہو
تمہیں میں یاد کرتا ہوں!
مجھے تم یاد آتی ہو!
میں اسکی آنکھ میں بستے حسیں رنگوں کو تکتی ہوں
اسے میں پھر سے کہتی ہوں
!بتاؤ ناں
بھلا مصروف لمحوں میں بھی میری یاد آتی ہے ؟
تیری دھڑکن بڑھاتی ہے؟
وہ کہتا ہے ، ذرا سوچو ! بہت مصروف ہو کوئی، تو کیا سانسیں نہیں لیتا ؟
بھلا مصروفیت میں خود کو کوئی بھول سکتا؟
میں ہنس کے پوچھتی ہوں، واقعی تم اتنے اچھے ہو؟
یا میری آنکھ میں بستی محبت کا یہ جادو ہے؟
وہ میری بات پہ ہولے سے یونہی مسکراتا ہے
میرے چہرے پہ آ کے جھولتی، لٹ کو ہٹاتا ہے
!مجھے کہتا ہے، سوچو تو
کسی نے جھوٹ بولا ہے کبھی کیا اپنے ہی دل سے؟
چھپا ہی پایا ہے کوئی؟ کبھی خود کو ہی کیا خود سے؟
میری پاگل!
میری گھائل!
میری باتیں تمہیں جیسی بھی لگیں، لیکن
یہ میری ذات کے اسرار کی ہی ترجمانی ہیں
یہ میری قلب پہ بیتی محبت کی کہانی ہیں
میں اسکی اس قدر چاہت پہ کچھ شرما سی جاتی ہوں
اداسی سوچتی ہوں اسکی، اور گھبرا سی جاتی ہوں
سو ہنس کے بولتی ہوں، کم عقل ہوں، جانتے تو ہو
میری نادان فطرت کو بھی تو تم مانتے تو ہو
وہ میری بات پہ ہاتھوں پہ میرے ہاتھ رکھتا ہے
محبت سے میری آنکھوں پہ پلکیں رکھ کے کہتا ہے
سنو! دنیا کی چالاکی سے یہ نادانی ہی بہتر
مجھے زیادہ عقل والوں سے یہ انجانی ہی بہتر
میں اسکی بات پہ پھر نم ہوئی آنکھوں سے ہنستی ہوں
”کبھی “دنیا” نہ بننا” بھیگتے لہجے میں کہتی ہوں
میرے پہلو سے اٹھ کر وہ ذرا نیچے اترتا ہے
میرے گھٹنوں پہ ہولے سے پھر اپنے ہاتھ رکھتا ہے
محبت سے میری آنکھوں سے بہتے اشک چنتا ہے
لگا کر ہونٹ سے پوریں میری، ہولے سے کہتا ہے
تمہاری آنکھ کے آنسو یہ میرا دل جلا دیں گے
اگر رونا نہ چھوڑو گی مجھے یہ دکھ بہا دیں گے
سنو! لوگوں نے جتنا بھی ستایا ہے، بھلا دوں گا
تمہیں جاں میں بساؤں گا، تمہیں میں “دل” بنا لوں گا
تمہاری بد گمانی، ڈر اور اندیشے بھی سہہ لوں گا
اگر دنیا سے ڈرتی ہو! “محبت” بن کے رہ لوں گا
”محبت” بن کے رہ لوں گا!