محبت یا دولت؟
…شاہنواز فاروقی…
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ زندگی میں کیا اہم ہے، محبت یا دولت…؟ پروگرام میں ایک ماہر نفسیات بھی موجود تھے، فرمانے لگے کہ دولت محبت سے زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ محبت سے دولت نہیں خریدی جاسکتی البتہ دولت سے محبت خریدی جاسکتی ہے۔ ایک ناظر خاتون نے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے دولت کو محبت پر ترجیح دی اور تقریباً وہی بات کہی جو ماہر نفسیات نے کہی تھی۔ پروگرام کی میزبان نے خاتون کو ٹوکا اور کہا کہ جو شخص دولت کی وجہ سے کسی کے ساتھ شادی کرتا ہے وہ اس شخص سے نہیں دولت سے محبت کرتا ہے۔ یہ سنتے ہی خاتون نے رائے بدل لی اور کہا کہ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مگر ماہر نفسیات اپنی رائے پر اَڑے رہے۔ اس سے ہماری عصری زندگی کی ایک اہم حقیقت آشکار ہوئی اور وہ یہ کہ عام افراد کی غلط رائے کا غلط ہوناظاہر کردیا جائے تو وہ اپنا مؤقف ایک لمحے میں بدل لیتے ہیں۔ البتہ ’’ماہرین‘‘ اپنے زعمِ علم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی غلطی پر نہ صرف یہ کہ اصرار کرتے رہتے ہیں بلکہ دلائل مہیا کرکے اپنی غلطی کو ’’نظام‘‘ بنا دیتے ہیں۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ جب ہم محبت اور دولت کا موازنہ کرتے ہیں تو اس کا سبب کیا ہوتا ہے؟
محبت اور دولت کا موازنہ کرنے والوں کا مقصد عام طور پر ایک عوامی قسم کے موضوع پر لوگوں کی آراء سے آگاہ ہونا ہوتا ہے، مگر اس موضوع کے پس منظر میں کئی محرکات موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر محبت ایک عطیہ خداوندی ہے اور دولت ایک دنیاوی چیز ہے، چنانچہ جب ہم محبت اور دولت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لوگ ’’آسمانی شے‘‘ کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا وہ ’’دنیاوی چیز‘‘ کے زیادہ پرستار ہوگئے ہیں۔ اسی طرح محبت ایک داخلی یا باطنی حقیقت ہے اور دولت ایک ظاہری شے ہے۔ چنانچہ جب محبت اور دولت باہم ٹکراتے ہیں تو ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگوں کی زندگی کا مرکز ان کے باطن میں ہے یا ظاہر میں؟ تاہم سوال یہ ہے کہ آخر لوگ دولت کو محبت پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
ہر انسان کی زندگی محبت کے تجربے کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اس لیے کہ ہر انسان بطنِ مادر میں پروان چڑھتا ہے، اور اگر ماں کی محبت نہ ہو تو بطنِ مادر میں اس کی پرورش ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ محبت کا یہ تجربہ بطنِ مادر تک محدود نہیںرہتا۔ انسان پیدا ہوتا ہے تو اپنی نشوونما کے لیے ماں باپ کی محبت اور نگہداشت کا محتاج ہوتا ہے۔ اس عرصے میں وہ محبت کے سوا کسی چیز کو نہیں پہچانتا۔ محبت کا تجربہ بچوں کواتنا ذہین بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ بالخصوص ماں کو اُس کی آواز اور اُس کی مخصوص خوشبو
سے پہچان لیتے ہیں۔ وہ ماں کے لمس سے اس طرح آگاہ ہوتے ہیں کہ گود کے بدلتے ہی انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اب ماں کے بجائے کسی اور شخص کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ اس منظر نامے میں دولت کہیں ہوتی ہی نہیں۔ اس عمر میں انسان محبت کھاتا ہے‘ محبت پیتا ہے‘ محبت اوڑھتا ہے‘ محبت بچھاتا ہے‘ محبت میں سانس لیتا ‘ محبت میں چلتا پھرتا ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کو اپنی عمر کا یہ ’’تجربہ‘‘ یاد نہیں رہتا اور وہ اپنے احساس کو شعور میں نہیں ڈھال پاتے۔ جو بچے بڑے ہو کر اپنے بچپن کو جتنا یاد رکھ پاتے ہیں اتنے ہی وہ محبت‘ اس کی اہمیت اور اس کے حسن و جمال کے قائل ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے بچے والدین کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا اور ان کی محبت کا حاصل نہیں رہے بلکہ وہ ایک ’’ناگزیر بوجھ‘‘ بن گئے ہیں۔ ہم زندگی اور کائنات میں ابلاغ کے عمل کو جتنا موجود اور مؤثر سمجھتے ہیں ابلاغ کا عمل اس سے کہیں زیادہ موجود اور مؤثر ہے۔ ماں باپ بچے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی محبت کا ابلاغ الفاظ کیا اشاروں کنایوں، یہاں تک کہ ان کی گرم جوشی سے بھی ہوتا ہے، لیکن محبت کی کمی یا اس کا قحط بھی ابلاغ سے محروم نہیں رہتا۔ خواہ کوئی لفظوں سے نہ کہے کہ مجھے اپنے بچوں سے محبت نہیں مگر یہ بات بچے سمجھ جاتے ہیں۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم اپنے بچوں کو محبت کی بنیاد پر پالنا بھول یا چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن زندگی کو خلا سے بیر ہے، اور دنیا کا کوئی انسان یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ محبت کرنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ اکثر لوگ محبت کے خلا کو دولت سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دولت کو محبت کے اظہار کی صورت سمجھتے ہیں۔ دولت محبت کے اظہار کی ایک صورت ہوسکتی ہے مگر انسان کا مجموعی طرزعمل بتا دیتا ہے کہ دولت ’’محبت کا اظہار‘‘ ہے، یا محبت کی عدم موجودگی کا پردہ۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے دولت محبت کی عدم موجودگی کا پردہ بن گئی ہے اور ہم اپنی نسلوں کو محبت پر پالنے کے بجائے دولت اور اس کی اقدار پر پال رہے ہیں۔ اس صورت حال میں لوگ دولت کو محبت پر ترجیح نہ دیں تو اور کیا کریں؟ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
ہماری دنیا دولت اور اس کی طاقت کے مظاہر سے بھر گئی ہے۔ ہماری سیاسی زندگی دولت کی گرفت میں ہے‘ علم اور تعلیم دولت مرکز یا Money Centric ہوتے جارہے ہیں، دولت معاشرے میں عزت کی علامت بن گئی ہے‘ دولت نے شرافت اور نجابت کی نج کاری کرلی ہے یا انہیں پس منظر میں دھکیل دیا ہے، انسانوں کی خوشیاں چیزوں سے وابستہ ہوگئی ہیں اور چیزیں دولت سے آتی ہیں۔ دولت کا یہ غلبہ انسانوں کو یقین دلاتا ہے کہ دولت سے کچھ اور کیا محبت بھی خریدی جاسکتی ہے۔ اور اگر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ دولت سے محبت بھی خریدی جاسکتی ہے تو پھر وہ محبت پر دولت کو ترجیح کیوں نہیں دیں گے؟ حالانکہ لوگ جس چیز کو محبت خریدنا کہتے ہیں وہ کسی خوب صورت عورت کو بیوی یا خوب صورت مرد کو شوہر بنالینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور کسی کے بیوی یا شوہر خرید لینے سے محبت ہاتھ نہیں آتی، اور جو محبت پیسے سے جنم لے وہ محبت نہیں محبت کا بخار ہے‘ محبت کا دھوکا ہے‘ محبت کی اداکاری ہے، اور ایسی محبت سے تو نفرت اچھی۔ ہمارے زمانے میں فلموں اور ڈراموں سے ہر طرف محبت کا سیلاب آگیا ہے۔ لیکن کہیں اس سیلاب پر معاشیات کا غلبہ ہے‘ کہیں سماجیات کا تسلط ہے‘ کہیں اس پر اس تصورِ زندگی کا قبضہ جس کے دائرے میں زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ محبت کے اس منظرنامے کی کوئی باطنی جہت ہی نہیں۔ باطنی جہت کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کے مواد میں محبت پورے وجود کی پکار نہیں ہے، اس کا تعلق ان انسانی خصوصیات سے نہیں ہے جن سے انسان کی تعریف متعین ہوتی ہے۔
محبت اور پیسے کی نفسیات کا ایک فرق یہ ہے کہ محبت کی نفسیات اپنی اصل میں کچھ ’’دینے‘‘ کی نفسیات ہے، جبکہ پیسے کی نفسیات کچھ ’’لینے‘‘ کی نفسیات ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے پر دینے سے زیادہ لینے کی نفسیات کا غلبہ ہے۔ اس صورت حال کا ایک سبب مذہب سے دوری یا اس سے سرسری تعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب انسان کو جس طرح دینا سکھاتا ہے کوئی اور چیز اس کو اس طرح دینا نہیں سکھا سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب میں کسی کو کچھ دینا انسان کے باطنی ارتقا کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان کسی کو کچھ دیتا ہے تو اَنا سے دور اور خدا سے قریب ہوجاتا ہے، اور اس کے باطن میں دوسروں کی قبولیت بڑھ جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ فطری اور برجستہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی شخص مذہب سے دور ہوتا ہے تو وہ خودکار طریقے سے خدا سے دور اور اَنا سے قریب ہوجاتا ہے اور دوسروں کے لیے اس کی داخلی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ اس کا اخلاق فنا تو نہیں ہوتا مگر اکثر لوگوں میں اس کی نوعیت افادی ہوجاتی ہے، اور افادی اخلاقیات کی نظر میں محبت کی اہمیت ثانوی اور دولت کی اہمیت بنیادی ہوجاتی ہے۔
محبت اور دولت میں ایک امتیاز یہ ہے کہ محبت کی نفسیات غیر طبقاتی ہوتی ہے اور دولت کی نفسیات طبقاتی ہوتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ کسی بھی اعتبار سے طبقاتی نفسیات کے حامل ہوتے ہیں وہ زندگی میں دولت کو محبت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ اس پر طبقاتی نفسیات کا غلبہ ہے، چنانچہ محبت کی دولت کے بجائے دولت کی محبت دنیا پر حکمرانی کررہی ہے۔
محبت اور دولت کے تعلق میں محبت اور دولت ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں، اس لیے کہ اصل سوال یہ ہے کہ زندگی کی تعریف کس چیز سے متعین ہوتی ہے… محبت سے یا دولت سے؟ اگر زندگی کی تعریف محبت سے متعین ہورہی ہے تو پھر کروڑوں کیا اربوں‘ کھربوں بھی آدمی کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ محبت اور دولت پر گفتگو کرتے ہوئے ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ محبت سے زندگی میں معنی ہیں‘ مقصد ہے‘ حسن و جمال ہے… چنانچہ محبت سے محرومی ان تمام چیزوں سے محرومی ہے۔ اس کے برعکس دولت سے محرومی کے نتیجے میں انسان صرف مادی آسائش اور چیزوں سے محروم ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب دنیا میں ایسے اربوں لوگ موجود ہیں جن کے لیے محبت ایک شے ہے اور چیزیں زندگی کی معنویت کا تعین کرنے والی ہیں۔ ایسے لوگ دولت کی پوجا نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟
ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ زندگی میں کیا اہم ہے، محبت یا دولت…؟ پروگرام میں ایک ماہر نفسیات بھی موجود تھے، فرمانے لگے کہ دولت محبت سے زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ محبت سے دولت نہیں خریدی جاسکتی البتہ دولت سے محبت خریدی جاسکتی ہے۔ ایک ناظر خاتون نے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے دولت کو محبت پر ترجیح دی اور تقریباً وہی بات کہی جو ماہر نفسیات نے کہی تھی۔ پروگرام کی میزبان نے خاتون کو ٹوکا اور کہا کہ جو شخص دولت کی وجہ سے کسی کے ساتھ شادی کرتا ہے وہ اس شخص سے نہیں دولت سے محبت کرتا ہے۔ یہ سنتے ہی خاتون نے رائے بدل لی اور کہا کہ آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ مگر ماہر نفسیات اپنی رائے پر اَڑے رہے۔ اس سے ہماری عصری زندگی کی ایک اہم حقیقت آشکار ہوئی اور وہ یہ کہ عام افراد کی غلط رائے کا غلط ہوناظاہر کردیا جائے تو وہ اپنا مؤقف ایک لمحے میں بدل لیتے ہیں۔ البتہ ’’ماہرین‘‘ اپنے زعمِ علم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی غلطی پر نہ صرف یہ کہ اصرار کرتے رہتے ہیں بلکہ دلائل مہیا کرکے اپنی غلطی کو ’’نظام‘‘ بنا دیتے ہیں۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ جب ہم محبت اور دولت کا موازنہ کرتے ہیں تو اس کا سبب کیا ہوتا ہے؟
محبت اور دولت کا موازنہ کرنے والوں کا مقصد عام طور پر ایک عوامی قسم کے موضوع پر لوگوں کی آراء سے آگاہ ہونا ہوتا ہے، مگر اس موضوع کے پس منظر میں کئی محرکات موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر محبت ایک عطیہ خداوندی ہے اور دولت ایک دنیاوی چیز ہے، چنانچہ جب ہم محبت اور دولت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ لوگ ’’آسمانی شے‘‘ کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا وہ ’’دنیاوی چیز‘‘ کے زیادہ پرستار ہوگئے ہیں۔ اسی طرح محبت ایک داخلی یا باطنی حقیقت ہے اور دولت ایک ظاہری شے ہے۔ چنانچہ جب محبت اور دولت باہم ٹکراتے ہیں تو ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگوں کی زندگی کا مرکز ان کے باطن میں ہے یا ظاہر میں؟ تاہم سوال یہ ہے کہ آخر لوگ دولت کو محبت پر ترجیح کیوں دیتے ہیں؟
ہر انسان کی زندگی محبت کے تجربے کے ساتھ شروع ہوتی ہے، اس لیے کہ ہر انسان بطنِ مادر میں پروان چڑھتا ہے، اور اگر ماں کی محبت نہ ہو تو بطنِ مادر میں اس کی پرورش ممکن ہی نہیں ہوسکتی۔ محبت کا یہ تجربہ بطنِ مادر تک محدود نہیںرہتا۔ انسان پیدا ہوتا ہے تو اپنی نشوونما کے لیے ماں باپ کی محبت اور نگہداشت کا محتاج ہوتا ہے۔ اس عرصے میں وہ محبت کے سوا کسی چیز کو نہیں پہچانتا۔ محبت کا تجربہ بچوں کواتنا ذہین بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ بالخصوص ماں کو اُس کی آواز اور اُس کی مخصوص خوشبو
سے پہچان لیتے ہیں۔ وہ ماں کے لمس سے اس طرح آگاہ ہوتے ہیں کہ گود کے بدلتے ہی انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اب ماں کے بجائے کسی اور شخص کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ اس منظر نامے میں دولت کہیں ہوتی ہی نہیں۔ اس عمر میں انسان محبت کھاتا ہے‘ محبت پیتا ہے‘ محبت اوڑھتا ہے‘ محبت بچھاتا ہے‘ محبت میں سانس لیتا ‘ محبت میں چلتا پھرتا ہے۔ لیکن اکثر لوگوں کو اپنی عمر کا یہ ’’تجربہ‘‘ یاد نہیں رہتا اور وہ اپنے احساس کو شعور میں نہیں ڈھال پاتے۔ جو بچے بڑے ہو کر اپنے بچپن کو جتنا یاد رکھ پاتے ہیں اتنے ہی وہ محبت‘ اس کی اہمیت اور اس کے حسن و جمال کے قائل ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے بچے والدین کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطا اور ان کی محبت کا حاصل نہیں رہے بلکہ وہ ایک ’’ناگزیر بوجھ‘‘ بن گئے ہیں۔ ہم زندگی اور کائنات میں ابلاغ کے عمل کو جتنا موجود اور مؤثر سمجھتے ہیں ابلاغ کا عمل اس سے کہیں زیادہ موجود اور مؤثر ہے۔ ماں باپ بچے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی محبت کا ابلاغ الفاظ کیا اشاروں کنایوں، یہاں تک کہ ان کی گرم جوشی سے بھی ہوتا ہے، لیکن محبت کی کمی یا اس کا قحط بھی ابلاغ سے محروم نہیں رہتا۔ خواہ کوئی لفظوں سے نہ کہے کہ مجھے اپنے بچوں سے محبت نہیں مگر یہ بات بچے سمجھ جاتے ہیں۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم اپنے بچوں کو محبت کی بنیاد پر پالنا بھول یا چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن زندگی کو خلا سے بیر ہے، اور دنیا کا کوئی انسان یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ محبت کرنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ اکثر لوگ محبت کے خلا کو دولت سے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دولت کو محبت کے اظہار کی صورت سمجھتے ہیں۔ دولت محبت کے اظہار کی ایک صورت ہوسکتی ہے مگر انسان کا مجموعی طرزعمل بتا دیتا ہے کہ دولت ’’محبت کا اظہار‘‘ ہے، یا محبت کی عدم موجودگی کا پردہ۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے تک آتے آتے دولت محبت کی عدم موجودگی کا پردہ بن گئی ہے اور ہم اپنی نسلوں کو محبت پر پالنے کے بجائے دولت اور اس کی اقدار پر پال رہے ہیں۔ اس صورت حال میں لوگ دولت کو محبت پر ترجیح نہ دیں تو اور کیا کریں؟ لیکن مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
ہماری دنیا دولت اور اس کی طاقت کے مظاہر سے بھر گئی ہے۔ ہماری سیاسی زندگی دولت کی گرفت میں ہے‘ علم اور تعلیم دولت مرکز یا Money Centric ہوتے جارہے ہیں، دولت معاشرے میں عزت کی علامت بن گئی ہے‘ دولت نے شرافت اور نجابت کی نج کاری کرلی ہے یا انہیں پس منظر میں دھکیل دیا ہے، انسانوں کی خوشیاں چیزوں سے وابستہ ہوگئی ہیں اور چیزیں دولت سے آتی ہیں۔ دولت کا یہ غلبہ انسانوں کو یقین دلاتا ہے کہ دولت سے کچھ اور کیا محبت بھی خریدی جاسکتی ہے۔ اور اگر لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ دولت سے محبت بھی خریدی جاسکتی ہے تو پھر وہ محبت پر دولت کو ترجیح کیوں نہیں دیں گے؟ حالانکہ لوگ جس چیز کو محبت خریدنا کہتے ہیں وہ کسی خوب صورت عورت کو بیوی یا خوب صورت مرد کو شوہر بنالینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اور کسی کے بیوی یا شوہر خرید لینے سے محبت ہاتھ نہیں آتی، اور جو محبت پیسے سے جنم لے وہ محبت نہیں محبت کا بخار ہے‘ محبت کا دھوکا ہے‘ محبت کی اداکاری ہے، اور ایسی محبت سے تو نفرت اچھی۔ ہمارے زمانے میں فلموں اور ڈراموں سے ہر طرف محبت کا سیلاب آگیا ہے۔ لیکن کہیں اس سیلاب پر معاشیات کا غلبہ ہے‘ کہیں سماجیات کا تسلط ہے‘ کہیں اس پر اس تصورِ زندگی کا قبضہ جس کے دائرے میں زندگی کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ محبت کے اس منظرنامے کی کوئی باطنی جہت ہی نہیں۔ باطنی جہت کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کے مواد میں محبت پورے وجود کی پکار نہیں ہے، اس کا تعلق ان انسانی خصوصیات سے نہیں ہے جن سے انسان کی تعریف متعین ہوتی ہے۔
محبت اور پیسے کی نفسیات کا ایک فرق یہ ہے کہ محبت کی نفسیات اپنی اصل میں کچھ ’’دینے‘‘ کی نفسیات ہے، جبکہ پیسے کی نفسیات کچھ ’’لینے‘‘ کی نفسیات ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے زمانے پر دینے سے زیادہ لینے کی نفسیات کا غلبہ ہے۔ اس صورت حال کا ایک سبب مذہب سے دوری یا اس سے سرسری تعلق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب انسان کو جس طرح دینا سکھاتا ہے کوئی اور چیز اس کو اس طرح دینا نہیں سکھا سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب میں کسی کو کچھ دینا انسان کے باطنی ارتقا کا ایک ذریعہ ہے۔ انسان کسی کو کچھ دیتا ہے تو اَنا سے دور اور خدا سے قریب ہوجاتا ہے، اور اس کے باطن میں دوسروں کی قبولیت بڑھ جاتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ فطری اور برجستہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جب کوئی شخص مذہب سے دور ہوتا ہے تو وہ خودکار طریقے سے خدا سے دور اور اَنا سے قریب ہوجاتا ہے اور دوسروں کے لیے اس کی داخلی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ اس کا اخلاق فنا تو نہیں ہوتا مگر اکثر لوگوں میں اس کی نوعیت افادی ہوجاتی ہے، اور افادی اخلاقیات کی نظر میں محبت کی اہمیت ثانوی اور دولت کی اہمیت بنیادی ہوجاتی ہے۔
محبت اور دولت میں ایک امتیاز یہ ہے کہ محبت کی نفسیات غیر طبقاتی ہوتی ہے اور دولت کی نفسیات طبقاتی ہوتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ کسی بھی اعتبار سے طبقاتی نفسیات کے حامل ہوتے ہیں وہ زندگی میں دولت کو محبت پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارے زمانے کا المیہ یہ ہے کہ اس پر طبقاتی نفسیات کا غلبہ ہے، چنانچہ محبت کی دولت کے بجائے دولت کی محبت دنیا پر حکمرانی کررہی ہے۔
محبت اور دولت کے تعلق میں محبت اور دولت ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں، اس لیے کہ اصل سوال یہ ہے کہ زندگی کی تعریف کس چیز سے متعین ہوتی ہے… محبت سے یا دولت سے؟ اگر زندگی کی تعریف محبت سے متعین ہورہی ہے تو پھر کروڑوں کیا اربوں‘ کھربوں بھی آدمی کا کچھ نہیں بگاڑتے۔ محبت اور دولت پر گفتگو کرتے ہوئے ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ محبت سے زندگی میں معنی ہیں‘ مقصد ہے‘ حسن و جمال ہے… چنانچہ محبت سے محرومی ان تمام چیزوں سے محرومی ہے۔ اس کے برعکس دولت سے محرومی کے نتیجے میں انسان صرف مادی آسائش اور چیزوں سے محروم ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب دنیا میں ایسے اربوں لوگ موجود ہیں جن کے لیے محبت ایک شے ہے اور چیزیں زندگی کی معنویت کا تعین کرنے والی ہیں۔ ایسے لوگ دولت کی پوجا نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟
Mohabat ar dolat bht ilmi ar rohani reason di hn . Mohabat Qudrat ka tohfa he ,dolat insan ki koshish ki kamaie he .kamaie km ziada b hoti he ar hasil ho kr khatm b hojati he . Mohabat hasil he to dolat ki kmi ,kmi NHi lgti ,lekin agr dolat hasil he ar mohabat ki kmi he ,to dolat mhobat NHi kharid skti, mohabat ki adakari krwa skti he.Shahid Farooqi ne bht ache mohabat ke Haq men dalael die hn.i like it and apprecite it