! (بین السطور)
شہباز رشید بہورو
مرقد کے پاس سے تیری گذرا تو آنسوں نکل آئے۔تیرے لبو پہ کھلکھلاتی ہوئی مسکراہٹ یاد آئی ۔نورانی چہرے کے جلوے یاد آئے۔تیرے جوانی کی وہ باکردار و پاک ادائیں یاد آئیں۔تیرے لحن کا وہ مسحور کن ترنم یاد آیا۔تیرا وہ دلگداز پیغام یاد آیا جس سے میں چلتے چلتے رک جاتا ہوں، بیٹھے بیٹھے خاموش ہوجاتا ہوں اور سوتے سوتے جاگ جاتا ہوں۔تیرا وہ فولادی ارادہ یاد آیا کہ دم گھٹے لیکن ہم نہ جھکیں ،دنیا پھسلے لیکن ہم نہ ہلیں اور دنیا عاجز آئے لیکن ہم نہ بکیں ۔سب کچھ یاد آیا۔کیا مبارک دوست تھاتو کہ تیری یاد سے میری روح کو اطمینان ملتا ہے۔تیری یاد سے ایمان میں تازگی ہوتی ہے۔تیری یاد سے امیدوں کے در کھلتے ہیں ۔تیری یاد سے معصیت سے متنفر ہوتا ہوں۔تو ایک چنار تھا ہمارے اس اجڑے گلزار کا جس میں ہر پھول مرجھانے کے قریب ہے۔تو بقول تیرے ایک مرغِ صحر تھا جو اذان دیا کرتا تھا۔تو ایک شاہین تھا جو پرواز بلند کا عادی تھا۔تو ایک مرد قلندر تھا جو مادیت کے ہر رنگ سے دور تھا ۔تو ایک کشتی تھی جو سمندر کی اتھاں گہرائیوں کا اندازہ کرنے کے لئے دستیاب تھی۔تو ایک جبلِ مستقم تھا جس کی طرف ہم کمزور ایمان والوں کی نگاہیں مرتکز تھیں ۔تو ایک باد صبا تھی جس کی تازگی کو محسوس کرنے کے لئے ہم نکل آتے۔تو ایک نرم و نازک زبان تھی جس سے نکلا ہو ہر لفظ دل میں اتر جاتا تھا۔تو وہ مسافر تھا جو اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا جب کہ ہم منتشر تھے۔تو کیا کیا تھا الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔تیری عاجزی میں ایک دعوت تھی، ایک پیغام تھا اور ایک نوید تھی ۔جس کو شاید یہ ملت سمجھ نہ پائی ۔تو نے اپنے ارمان میری بقا کے لئے قربان کئے لیکن میں ہوں کہ بے مروت، ناشکرا اور احسان فراموش !تو نے میری عزت کو زخ پہنچنے سے بچانے کے لئے اپنے امی او ابو کے پیار ومحبت کو نظر انداز کیا ان کی شفقت کو بھول گیا اور ان کی چیخ و پکار کو بھی ان سن کیا لیکن میں ہوں کہ خودغرض،سنگ دل اور بے وفا ! تو نے بھوک برداشت کی اور میں کھاتا رہا، تو پیاسا رہا اور میں پیتا رہا، تو نے پریشانی گلے لگائی اور میں خوش رہا، تو نے خوف و دہشت کا مقابلہ کیا اور میں اطمینان سے رہا، تو بے عزت بھی ہونا چاہتا تھا میری عزت کے لئے، تو بے گھر بھی ہوا میرے گھر کے لئے، تو لاکھوں دشمن بناتا گیا میری دوستی کے لئے، تو ایک لمحہ چین نہ پایا میرے چین کے لئے، تو کبھی پر سکون نہ سویا میری راحت کے لئے، تو نے کانٹو پہ قدم رکھے میری قدموں کی سلامتی کے لئے، تو نے پتے کھائے اور کانٹے چھبائے میرے لذیذ کھانے کے لئے، تو نے خود کومجروح کیا میری سلامتی کے لئے ۔
اے ضعیف الایمان ملت کیا تجھے اس دوست کی محبت کا احساس نہیں ۔اے بھٹکے ہوئے نوجوان کیا تجھے اس دوست کی ابھرتے شباب کی قدر نہیں جس نے اپنی ابھرتی جوانی کو تیری خوشنما جوانی کے لئے داو پر لگا دی۔اے بھٹکی ہوئی بہن کیا تجھے اس بھائی کے ایثار کا کوئی احساس نہیں! جس نے تیری آبرو کی حفاظت کے لئے خود کو پیش کیا لیکن تو ہے کہ جان بوجھ کے بے راہ روی پہ کاربند ۔اے نیند میں زور دار کھراٹے لگانی والی ملت تو کیوں اس محب کی محبتوں پہ مشکوک ہے؟ کیاتو اپنی طرح عیاشی کا دلدادا اس کو بھی سمجھتی ہے جس نے عیش و عشرت کی زندگی کو خیر باد کہا.کیا تو احمق اسے سمجھتا ہے جس نے اپنی ذہانت کے ڈنکے مغرب میں بجائے۔کیا تو غافل اس کو سمجھتا ہے جس نے غفلت کے اندھیروں کو چیرا۔کیا تو کمتر اسے سمجھتا ہے جس کی تعریف ملائکہ کرتے ہیں ۔افسوس صد افسوس ہے کہ تو اس کی تنقید کرتا ہے جو جیتا اور مرتا تیرے لئے تھا۔بےوفائی کی ایک تاریخ تو رقم کررہا ہے۔ہمیں احساس نہیں ہے کیونکہ ہم بے حس ہیں! ہمیں قدر نہیں ہے کیونکہ ہم قدر شناس نہیں ہیں! ہمیں اس باوفا دوست کی وفائی پہ شک ہے کیونکہ ہم دنیاداری کی وجہ سے بے وفا ہیں!
کہتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ محبت نام کی کوئی شئے تھی لیکن آج زمانہ ہے کہ محبت کو مال و ذر سے جوڑ کر اس کا مفہوم بدل دیا گیا۔اب محبت غیرت، حمیت، مقصد اور ضمیر سے نہیں بلکہ کاغذ کے ٹکڑوں سے ہے۔غیرت کے مفہوم میں جہالت کا رنگ بھر دیا، مقصد کے حصول میں ضرورت کے جملہ تقاضوں کو اپنی مجبوری بتلایا گیا۔لیکن اس دودست کی ایمانی سادگی تو دیکھیں کہا کہ لوٹیں جتنا لوٹنا ہے مجھے اس ملت کی محبت کے نام پر۔اس دوست نے ایک زندہ لاش سے محبت کی جس کے سینے میں پتھر کا دل ہے، جس کی کھوپڑی میں کوئلے کا بیجہ ہے اور جس کے پورےبد ن میں گدلا پانی ہے۔جس کی اداؤں میں منافقت ہے، جس کے چلن میں بدنظمی ہے، جس کے قول و فعل میں اختلاف ہے اور جس کی شخصیت میں انتشار ہے۔