عابدہ
ابھی فلائٹ میں کچھ وقت باقی تھا تو میں لاہور ائیرپورٹ کے اندر انتظار گاہ میں بیٹھ گئی جہاں باقی مسافر بھی بیٹھے تھے۔ صبح کا وقت تھا اور اندر کافی چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ بار بار دوکانوں کا عملہ آکر مسافروں کو کھانے بیچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے چائے اور اور ناشتہ کا آرڈر دے ڈالا۔
ٹرے میں ایک چائے کا کپ، دو سینڈ وچ اور ایک چھوٹا سا کیک فورا پیش ہوگیا۔ میں کھا چکی تو عملہ برتن لینے پہنچ گیا اور مجھے بل دیا۔ پاکستانی 1500 روپے۔ یعنی ڈیڑھ ہزار روپیہ۔ ??۔ ادائیگی تو کردی لیکن تمام راستہ میں سوچتی رہی کہ ہمارا دین مسافروں کا حصہ تو زکوہ میں بھی جائز قرار دیتا ہے خواہ مسافر کروڑ پتی ہو۔ مگر سفر میں اس کی کسی طرح کی مدد نیکی کہلائے گی۔
پوری دنیا میں سروس اسٹیشن یا موٹر وے سے جڑی دکانیں یا ہوٹل، مسافروں کو لوٹنے کا کام کرتے ہیں۔ آپ کہیں بھی سفر کرلیں اگر پٹرول بھی ڈلوانا ہے تو موٹر وے پر قیمت زیادہ ہوگی۔ گویا مسافروں کو لوٹا جاتا ہے۔
مجھے اس بات کی اتنی تکلیف نہیں جتنی یہ بات تکلیف دہ ہے کہ دین کا دیا یہ لائحہ عمل غائب کیسے ہوگیا؟ یہ رواج مسلم ممالک میں بھی نہ رہا کہ مسافروں کی خدمت کی جائے؟
ہم وہ لوگ ہیں جو اندھیروں کا گلہ کرنے کی بجائے اپنے حصہ کی شمع جلانے پر یقین رکھتے ہیں۔ میں نے عزم کیا مرنے سے قبل میں دین کے اس جز کا احیا ضرور کرونگی۔
اللہ نیک کاموں کے لیے راستے اور اسباب پیدا کرتا ہے۔ فی الوقت جس آئیڈیا پر ابتدا کی ہے وہ یہاں یوکے سے غیرمسلموں کو پاکستان بھیجنا، جسکا کچھ خرچ میرا بزنس اٹھائے گا۔ پاکستانی جس قدرمہمان نواز ہیں پوری دنیا میں اسکی مثال کم ہی ملے گی۔ گھر آئے دشمن کو بھی چائے پانی پوچھتے ہیں اور اسکے بعد لڑائی کرتے ہیں۔ ?
میں نے اللہ سے ہمیشہ دینے والا ہاتھ مانگا ہے اور محتاجی اور فقر سے پناہ مانگی ہے۔ مال نیکیاں کمانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ حضرت عثمان غنی اسکی بہت بڑی مثال ہیں۔
پھر ایسا کیوں ہے کہ میں نے جب بھی بھی کسی کی تھیراپی آمدنی کے لیے کی ہے تو یہ حقائق بار بار سامنے آئے۔
“مال فتنہ ہے” (غریبی بھی اگرچہ فتنہ ہے جس سے حسد، بغض حتی کہ چوری یا ڈاکہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔)
“ ہم قناعت چاہتے ہیں” ( مال ہو اور پھر اسکی محبت نہ ہو تو بھی قناعت ہو سکتی ہے )
“بس اللہ کسی نہ کسی کو بھیج دیتا ہے جب مدد کی ضرور ہوتی ہے تو گزارا ہو جاتا ہے۔ (گویا ہمیشہ لینے والا ہاتھ)
“محتاجی کی زندگی دراصل قناعت ہے اور ہماری نظر میں یہی تقوی ہے۔ “
“مالدار ہمیشہ حرام ہی کمار ہے ہوتے ہیں تو مال سے دور رہنا گویا حرام سے دور رہنا ہے۔ “
“مال غرور پیدا کرتا ہے اور غفلت کا ذریعہ ہے”
جیسا گمان آپ پال لیتے ہیں پھر آپ وہی attract کرتے ہیں۔ اگر آپ مال کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں تو مال کبھی attract نہیں ہوتا۔
وہ رب جو کہتا ہے کہ پوری دنیا کے جن و انس سب کچھ مانگ لیں تو بھی اتنی کمی نہ ہوگی جتنی سمندر میں سوئی ڈالنے سے۔ تو اس کا اکاونٹ تو کبھی خالی نہیں ہوتا۔ پھر مانگنے میں اتنی کمی کیوں؟ اللہ نے آپکا رزق اتارا ہے مگر اسباب اختیار کرنے کو لازم کیا ہے
There is no shortage of money in this world.
تقریباً ہر فرد پہلی بات یہ کرتا ہے کہ ہمیں مدد درکار ہے صحت یا آمدنی کے حوالہ سے لیکن آپ سب کچھ فری کردیں۔ میں مدد تو کرسکتی ہوں مگر اپنا وقت ہر بار فری نہیں دے سکتی۔
پلیز خود کو محتاجی سے نکالیں۔ کوئی ہنر ضرور سیکھیں خواہ وہ مہندی لگانا ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اب تک کئی بہنوں کی مدد کر چکے ہیں جن کی آمدنی کا ذریعہ نہ تھا اور اب وہ خواہ گھر سے کباب بنا کر دوکانوں پر بیچ رہی ہیں یا قرآن پڑھاتی ہیں اور قران کے نہیں مگر اپنے وقت کے ہیسے لیتی ہیں۔
ایک بات بتاؤں؟ حضرت موسی نے جب دو خواتین کی مدد کی جو اپنی گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے جاب کررہی تھیں اور انہوں نے مدد قبول کی ایک اجنبی سے۔ اور انکو پھر اجرت آفر کی۔ حضرت موسی (علیہ السلام) نے ہرگز یہ نہیں کہا
“جا بی بی میں نے اللہ واسطے مدد کی میں کیوں ہیسے لوں؟) تو اپنے ہنر کو کمائی کا ذریعہ بنانا، کوئی قباحت نہیں۔
آج کے دور کا تقاضا ہے کہ مسلمان ہر میدان میں آگے ہوں۔ سائنس ہو یا میڈیکل یا ریسرچ کا میدان۔ مال بہت بڑا ذریعہ ہے۔
آپ اپنے بچوں پر بہتر invest کرسکتے ہیں۔ بہت ساروں کی مدد کرسکتے ہیں۔ مال کو “خیر” بھی کہا گیا ہے۔
اللہ سے جب بھی مانگیں “فی الدنیا حسنہ و فی الآخرہ حسنہ” مانگیں۔ اور خود کو محتاجی سے نکالیں۔ اسکے لیےکچھ دماغی مشقیں کرنا کارآمد ہوتا ہے اور تھیراپی سیشن بھی بہت مددگار ہوتا ہے۔
“ربی انی لما انزلت الی من خیر فقیر” پڑھتے ہوئے روزانہ کم ازکم پندرہ منٹ اس ??طریقہ سے tapping کریں