(علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین
مرکز اویسیاں نارووال)
دین اسلام میں اللہ کی سب سے عظیم عبادت کا نام نماز ہے اور اس کا تعلق مسجد ہی سے ہے ۔اس لئے اسلام میں مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔یہاں وضاحت ضروری ہے کہ دنیا کے اور دوسرے ادیان و مذاہب کی عبادت و ریاضت کے لئے جس طرح مخصوص عبادت خانے مثلاً گرجا، کلیسا ،مندر اور گورد وارہ وغیرہ ہیں اور انکے باہر رہ کر ان کی عبادت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔اسلام نے اس طرح کسی خاص گھر میں بند ہو کر عبادت کرنے کا پابند نہیں کیا۔ مسلمانوں کی عبادت گزاری کے لئے اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کو مسجد بنا دیا کہ جہاں قبلہ رو ،نیت باندھ کر کھڑے ہو جائیں نماز ادا ہو جاتی ہے ۔
پانچ امتیازی خصوصیات مصطفےﷺٰ:’’حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مجھ کو پانچ چیزیں ایسی ملیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں ۔پہلے یہ کہ ایک مہینے کی راہ سے میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ۔دوسرے یہ کہ ساری زمین میرے لئے مسجد اور مطہر بنائی گئی کہ میری اُمت کے ہر شخص کو جہاں نماز کا وقت آجائے وہاں نماز پڑھے ۔تیسرے یہ کہ مال غنیمت میرے لئے جائز کیا گیا ۔چوتھے یہ کہ گزشتہ زمانہ میں ہر پیغمبر اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور میں سب لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں اور پانچویں یہ کہ مجھ کو شفاعت عظمیٰ ملی ۔‘‘(بخاری کتاب الصلوٰۃ)
سب سے اہم کام:پھر بھی مسلمانوں کا دینی و مذہبی تشخص قائم رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ اہل اسلام کا کوئی مرکز بھی ہو ۔چنانچہ مسجد ہی کو وہ مرکزیت حاصل ہوئی ۔مکہ میں تیرہ سالہ دور نبوت گزارنے کے بعد حضرت محمدرسول اللہ ﷺجب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو سب سے اولین کام جو آپ نے کیا وہ تعمیر مسجد ہی ہے ۔اس کے لئے آپ نے بنی نجار کا باغ خرید نے کی خواہش ظاہر کی اور اس کی قیمت متعین کرنا چاہی ،مگر اسلامی جوش و خروش کے متوالے انصار مدینہ نے دنیاوی مال و دولت سے قیمت لینے کی بجائے اجر آخرت لینا پسند کیا ۔’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ نے مسجد بنانے کا حکم دیا اور بنی نجار سے فرمایا کہ تم اپنے اس باغ کا مجھ سے مول چکالو! انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم تو اللہ ہی سے اس کا دام لیں گے۔‘‘
تعمیر مسجد تعمیر دین:مسجد نبوی کی سب سے پہلی اینٹ اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے اپنے دست مبارک سے رکھی اور مسجد نبوی کا یہ سنگ بنیاد دین اسلام کی تعمیر کے لئے خشت دائمی ثابت ہوا ۔حضوراکرم ﷺ بظاہر اس وقت مسجد کی بنیاد میں ایک پتھر نصب فرماتے ہیں اور اپنے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پتھر لگانے کا حکم دیتے ہیں ۔مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلاغت سے مسند نیابت کے لئے متعین بھی فرمادیا ؟
بیہقی نے دلائل میں حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا:’’جب نبی کریم ﷺ نے اپنی مسجد بنانے کا ارادہ فرمایا تو ایک پتھر رکھا اور فرمایا ابو بکر میرے پتھر کی بغل میں اپنا پتھر رکھیں اور عمر ابو بکر کے پتھر کی بغل میں اپنا پتھر رکھیں۔‘‘(وفاء الوفاء)
بعض روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بھی ذکرآ تا ہے ۔بہر حال یہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی ابتدا تھی ۔جس کی نتیجہ خیزی سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے ۔
الغرض عملاً مسجد کی بنیاد بھری جارہی تھی اور تعبیراً اسلام اور دین صادق کے قلعہ کو استحکام بخشا جا رہا تھا ۔اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی کہ مساجد کی تعمیر میں خود رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر پتھر اور اینٹیں اُٹھائیں ۔مسجد قبا کے ذکر میں بھی اس پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جوش اور خروش روحانی کا منظر مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت بھی دکھائی دیتا ہے ۔
بخاری شریف میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی روایت ملاحظہ فرمائیں! عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی حدیثیں سنو! ہم اُن کے پاس پہنچے دیکھا کہ وہ اپنے باغ میں کام کر رہے ہیں ۔ہم کو دیکھ کر اُنہوں نے اپنی چادر اُٹھائی اور اوڑھ کر بیٹھ گئے اور حدیث بیان کرنے لگے :’’یہاں تک کہ مسجد نبوی کی تعمیر کا ذکر آیا ،کہنے لگے کہ ہم لو گ ایک ایک اینٹ اُٹھا رہے تھے اور عمار دودو اینٹیں ۔نبی کریم ﷺ نے عمار کو دیکھا تو اُن کے بدن سے مٹی جھاڑ نے لگے اور فرمانے لگے :ہائے افسوس! عمار کو باغی لوگ مار ڈالیں گے ۔یہ اُن کو بہشت کی طرف بلائے گا اور وہ اس کو دوز خ کی طرف بلائیں گے ۔ابو سعید نے کہا کہ عمار کہا کرتے تھے ۔ میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ (بخاری کتاب الصلوٰۃ)
تعمیری مراحل:مسجد کسی انسان کی ملکیت نہیں ہوتی اور نہ مسجد کی تعمیر میں کسی کا احسان ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر اور اللہ تعالیٰ جسے اس کی تعمیر کی توفیق عطا کرے تو اُس شخص کی خوش نصیبی ہے ۔مگر جہاں اس امر خیر کی ابتدا ہو ۔ہر مسلمان کو حتی الامکان حصہ لینا چاہئے اور تعاون کرنا چاہئے ۔
بخاری شریف میں علامہ محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کام کی مذہبی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مستقل ’’با ب التعاون فی بناء المسجد ‘‘مسجد بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا باب ‘‘قائم کیا ہے ۔
آئیے! اب ہم قرون اولیٰ اور اس کے متصل زمانوں میں مسجد کے تعمیری مراحل کا جائزہ لیں ۔حضور سید المرسلین جناب محمد رسول اللہ ﷺ کے دور گرامی میں مسجد نبوی نہایت سادہ تھی ،جس میں کسی قسم کی زیبائش اور اہتمام کا نام و نشان نہیں تھا ۔کچی اینٹوں کی دیواریں ۔کھجور کی لکڑی کے ستون ،کھجور کے پتوں کی چھت ،رفتہ رفتہ اس میں وقت اور ضرورت کے لحاظ سے تبدیلی اور روسعت ہوتی گئی ۔کتب احادیث میں اِس کی تفصیل موجود ہے ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ :’’حضور ﷺ کے مبارک زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئے تھی ۔چھت پر کھجور کی ڈالیاں تھیں اور ستون کھجور کی لکڑی کے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ )نے اپنی خلافت میں کچھ نہیں بڑھایااور حضرت عمر (رضی اللہ عنہ ) نے مسجد کو بڑھایا مگر عمارت ویسی ہی رکھی جیسی حضور ﷺ کے زمانہ میں تھی ۔یعنی کچی اینٹیں ، اور کھجور کی شاخیں اور ستون بھی دوبارہ کھجور کی لکڑی کے اور قائم کیے ۔پھر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے اُس کو اور بہت بڑھایا۔اُس کی دیواریں منقش پتھر اور گچ سے بنوائیں اور ستون بھی منقش پتھر کے لگوائے اور چھت ساگوان کی لکڑی سے بنوائی۔‘‘(بخاری کتاب الصلوٰۃ)
دور صدیقی میں تومسجد نبوی بعینہٖ وہی رہی جو سرکار دو عالم ﷺکے دور میں بنی تھی ۔دور فاروقی میں توسیع ہوئی مگر سب کچھ اس طرح بنا جس طرح پہلے تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺکے زمانہ کی سادگی کو برقراررکھا ۔یہاں تک کہ دیواروں کو رنگین کرنے سے بھی باز رکھا کیونکہ اس طرح نمازیوں کا میلان طبع دوسری جانب مبذول ہونے کا خدشہ تھا ۔اُنہوں نے سادگی ہی کو ہر بات پر ترجیح دی ۔
اسلام نے مساجد کو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح ذی روح کی تصاویر سے سجانے کی ممانعت کی ہے ۔ مگر مساجد کو اس طور پر آراستہ و پیراستہ کرنا کہ جس سے نمازی یا د الہٰی سے لذت یاب ہونے کی بجائے حسن تعمیر ہی میں کھو کر رہ جائیں ۔اسلامی سادگی کے منافی ہے ۔نماز میں نمازی کا قلب و ذہن خدا کے حضور حاضر ہونا چاہئے تو ضروری ہو جاتا ہے کہ مساجد کو غیر ضروری چیزوں سے خالی رکھا جائے جو حضور قلب میں مخل ہوں ۔
مسجد کو ذریعہ فخر نہ بناؤ:ہمارے پیارے رسول ﷺ کی تو شان ہی ’’فقر ‘‘ میں تھی ۔فرماتے ہیں:الفقر فخری۔’’میرے لئے فقر ہی قابل فخر ہے ۔‘‘
اِسی لئے سیرت نبوی کے اوراق پر دیکھیں تو آپ نے دنیا کی زندگی میں ’’وسائل دنیا‘‘کو بقدر ضرورت استعمال فرمایا ہے ۔فخر و مباہات ،عیش ولذت ،نمائش ونمود کا کوئی باریک سے باریک چھینٹا بھی آپ کے مقدس کردار کے دامن پر نظر نہیں آتا ۔آپﷺ کے اصحاب کبار بھی آپ ﷺکا پرتو نظر آتے ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ حضور ﷺ نے کسی جائز ترقی پسندی سے منع کیا۔ ایسا نہیں بلکہ اس کے دروازے کھولے جس کا ثبوت آئندہ بیان سے ملے گا۔
’’حضرت ابو سعید نے کہا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو بنانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں اور سرخ یازردرنگ نہ کرو کہ لوگ آفت میں پڑجائیں گے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ مسجدوں سے فخر کریں گے مگر اُن کو آباد بہت کم دیکھیں گے ۔اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تم مسجدوں کو ایسا آراستہ کر وگے جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے گرجاؤں کو آراستہ کیا۔‘‘(بخاری کتاب الصلوٰۃ)
عمدہ سے عمدہ مسجد:حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر نو کرائی اور اُسے خوب آراستہ کیا ۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کی آنکھوں نے ابھی حضورﷺکا دور گرامی دیکھا تھا ۔ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا زمانہ دیکھا تھا ۔مگر عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تو ایسا کام کیا جو اُن کے پہلے والوں نے نہیں کیا تھا ۔ مسلمانوں میں جب اس قسم کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا :’’تم لوگوں نے بہت باتیں کر ڈالیں اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا حضورﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص مسجد بنائے اللہ کی رضا کے لئے اللہ اُس کے لئے ویسا ہی گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘
مسجد کی تعمیری لحاظ سے اصلاح پسندی اور خوش سے خوش تری کا تصور دور رسالت میں بھی ملتا ہے ۔نبی اکرم ﷺ اُس دین کو لے کر آئے تھے جس میں ساری دنیا اور اُس کے کاروبار دائر ہ دین ہی میں سمٹے ہوئے ہیں ۔اسلام ہر شعبہ زندگی کے لئے اپنے دامن میں مکمل ہدایت رکھتا ہے ۔صنعت ،حرفت ،تجارت اور علمی اکتشاف وایجادات کے لئے اس میں خود ترغیب دی گئی ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے لئے ’’شان فقر‘‘ ہی کو پسند فرمایا۔پر شکوہ عمارات کی بجائے خستہ چٹائی اور کھجور کے پتوں کی چھت کے نیچے زندگی بسر کر کے ’’اسوہ حسنہ ‘‘ سے عالم انسانیت کی معلمی کا حق ادا فرمایا مگر دنیا کے لئے ترقی پسندی کا دروازہ بند نہیں کیا ۔بلکہ اپنے فرامین میں ایسے واضح ارشادات چھوڑے ہیں جو تعمیراتی دنیا میں نت نئی راہیں نکالنے کا سبب ہوئے ۔اِسی کی برکت ہے کہ پوری دنیا کے جس جس حصے میں مسلمانوں کے قدم پہنچے اس تیزی سے اقتصادی و تمدنی انقلاب آیا کہ اہل عالم حیران رہ گئے ۔
تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی تیز رفتاری دوسری ہجری سے ہی اتنی اہم ہو گئی تھی کہ پچھلا زمانہ علم کی اِس گرم بازاری سے بالکل خالی نظر آتا ہے اور یہ علم کی دوڑ ہمہ جہتی تھی جس میں مسلمانوں نے نئے نئے علوم ایجاد بھی کئے اور قدیم نیم مردہ علوم کے قالب میں روح بھی پھونکی ۔یہ وہ دور تھا جب کلیسائی نظام کی راہبانہ ذہنیت نے انسانوں کو انسانیت کے سب سے عظیم شرف’’علم‘‘ سے محروم کر دیا تھا ۔علم و فلسفہ کے معلمین کو باغی قرار دے کر پا پائیت کی قربان گاہ پر ذبح کر دیا جاتا تھا۔
رسو ل عربی حضرت محمد ﷺ کے نام لیواؤں نے ہی دنیا کے سامنے حیوانیت اور انسانیت کا واضح فرق عمل کی صورت میں پیش کیا ۔بغداد و قرطبہ کی عظیم لائبریریاں اور رسد گاہیں حضرت محمد عربی ﷺ کے لائے ہوئے مذہب اسلام میں فروغ علوم اور ایجادات و اکتشافات کی کھلی دلیل ہیں ۔
مسجد نبوی کا فرش تو ابتدا میں کچا ہی تھا ۔بارش ہونے کی صورت میں کیچڑ ہو جاتا اور نمازیوں کو ادائے صلوٰۃ میں دشواری ہوتی ۔اِس کے باوجود نماز با جماعت میں کسی طرح کا خلل واقع نہ ہوتا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ایک بار بارش ہوئی اور زمین بہت بھیگ گئی تو لوگ اپنے اپنے کپڑوں میں کنکریاں بھر کے لائے اور نیچے فرش پر بچھالیں ۔حضور اکرم ﷺ نے دیکھا تو فرمایا:’’یہ کیا ہی اچھی چیز ہے !‘‘(وفاء الوفاء)
اسی طرح مسجدنبوی کا فرش کنکریٹ کا پختہ بنانے کا ثبوت دور نبوی سے حاصل ہوجاتا ہے ۔اس کے علاوہ کلی طور پر مسجد کی عمدہ سے عمدہ تعمیر کے لئے تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث ہی کافی ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو اپنے دور میں مسجد کے مؤذنین کے لئے مشاہرہ بھی مقرر کیا ۔صاحب وفاء الوفاء نقل فرماتے ہیں: ’’جس نے سب سے پہلے مسجد کو آراستہ کیا اور اذان دینے والوں کی تنخواہ مقرر کی اور حضورﷺ کے منبر کی تیسری سیڑھی پر بیٹھے وہ حضرت عثمان ہیں ۔‘‘(وفاء الوفاء)
جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا اور مسجد کی ضرورتوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔اکابر ین ملت اسلامیہ نے تبلیغ و تقریر اور اصلاح و ترمیم جاری رکھی ۔چنانچہ مجدد عصر ، فاروق ثانی حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے مسجد کے لئے با تنخواہ نگہبان مقرر کیا تھا تاکہ وہ مسجد کی حفاظت کرے ۔خطرہ تھا کہ کوئی مسجد کو آگ نہ لگادے ۔
مسجد اور اس کا دائرہ عمل:مسجد نبوی کو رسول اللہﷺ کی مسجد ہونے کی وجہ سے مساجد میں بڑی فضیلت اور برتری حاصل ہے ۔مگر دیگر دنیا کی ساری مساجد کے لئے آداب و لحاظ اور انتظام و انصرام ،تعین آئمہ و مؤذنین و خادمین کا تقرر اسی سے مستنبط کیا جاتا ہے ۔
قرآن و سنت کے زیر نظر احکام و مسائل جو مساجد سے متعلق ہیں ۔اُن کی روشنی میں یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ :
* مسجد روئے زمین پر اللہ کا گھر ہے ۔
* مسجد کی تعمیر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا محکم ذریعہ ہے ۔
* مسجد کی تعمیر کے لئے محنت و مشقت کرنا ہمارے رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔
* مسجد کی تعمیر کو حضور ﷺ نے اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کے لئے اولیت بخشی ہے ۔
* مسجد کی تعمیر کے وقت صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایمان افروز اشعار پڑھنے میں حضور ﷺ نے خود اُن کا ساتھ دیا۔
* مسجد کی تعمیر میں اخلاص و للہیت سے حصہ لینے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ جنت میں ویسا ہی گھر بنائے گا ۔
* مسجد کی تعمیر عبادت اور ذکر کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام اتحاد کا بھی ذریعہ ہے ۔
* مسجد کی تعمیر کے ذریعہ شوکت اسلامی کی بھی تعمیر ہوئی۔
* مسجد کی تعمیر اسلامی تمدن حیات لانے کے لئے اتنی ہی ضروری ہے ،جتنی جسمانی نشو نما کیلئے غذا۔
* مسجد کے ذریعہ نور اسلام ساری دنیا میں پھیلا اور آج بھی نظام مسجد اپنی جگہ اسلامیان عالم کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔
* مسجد مسلمانوں کو تقویٰ سے ہم کنار کرتی ہے اور مسجد کے ذریعہ ایک ہی صف میں شاہ و گدا دونوں کھڑے ہوکرانما المؤمنون اخوۃ۔کی عملی تصویر بنتے ہیں ۔
* مسجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس کی آبادکاری یعنی اُسے نماز و اذکار سے بسانا سب سے اہم ہے ۔
* مسجد کو دنیاوی اور شخصی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کرنا ناجائز ہے ۔
* مسجد میں نمازیوں اور عبادت گزار اہل ایمان کے لئے دشواریاں پیدا کرنا اور رکاوٹ ڈالنا ظلم عظیم ہے ۔
معزز قارئین!جب حامیانِ اسلام پر مساجد کی حرمت و مقام روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔تو پھر اِن مساجد میں فرقہ واریت کا فروغ ،بم دھماکے ،خود کش حملوں کی تربیت ،اسلحہ کی نمائش اور قتل و غارت گری کی تبلیغ و تلقین کیونکر جائز و مستحسن ہے ۔حکومت کی طرف سے مساجد کے وقار کو بلند رکھنے اور تبلیغ قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے باہمی اتحاد و رواداری کے لئے استعمال ہونے کے شافی انتظامات ہونے چاہیں۔آج حکومت کی طرف سے رجسٹریشن مساجد کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے اقدامات سے فرقہ واریت کو مزید فروغ ملا۔ ہر مسلک و فرقہ خفیہ مساجد کی رجسٹریشن کرانے میں سبقت لے جانے کی کوشش میں نظر آتا ہے ۔جب عوام پر بات عیاں ہوتی ہے تو جھگڑا ختم کرانے کے لئے فرقوں میں مسجد کی قیمت لگائی جاتی ہے ۔جو حرمتِ مسجد کے سراسر منافی ہے ۔پہلے تو سب ایک مسجد میں نماز پڑھتے تھے آج یہ فرقوں میں بٹی ملتِ اسلامیہ کی مساجد بھی فرقوں سے پہچانی جانے لگی ہیں ۔
کاش! علماء و مشائخ مساجد کے تقدس کی بحالی اور نفرتوں کے تدارک کے لئے کوشاں ہوں تاکہ ایک مرتبہ پھر اپنے اسلاف کی یادگار بن جائے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں احترامِ مسجد کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین
شائع فرماکر شکریہ کا موقعہ دیں۔