مسلمان سربراہوں کی مشترکہ کوششیں
سویڈن کی ڈائری
عارف کسانہ اسٹاک ہوم
یہ امر خوش آئندہے کہ پاکستان ،مصر انڈونیشیا،اور دیگر ممالک کے سربراہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسے موضوع تقریر بنا کر اسے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
مسلمان چاہے خود بے عمل ہو اور دنیا کے کس بھی خطے میں رہ رہا ہومگر وہ اپنے آقاو مولا ختم المرسلین ۖ کی محبت سے سرشار ہوتا ہے اور انکی ذات اقدس اور اپنے دین کے خلاف کسی قسم کی توہین یا بات برداشت نہیں کر سکتا۔کیونکہ نبی پاک ۖ کی محبت اور حرمت ہی معیار محبت ہے۔بقول مولانا ظفر علی خان کے
مگر نہ کٹ مروں جب خواجہء یثرب کی
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
تہذیبوں میں تصادم کرنے والے اور فتنہ بپا کرنے والے اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے تو پھر کیوں بار بار انسانیت سوز حرکات کر کے عالمی امن اور بھائی چارے کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے۔دراصل وجہء محرکہ وہی ہے جو حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
یہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں
روح محمد ۖ اس کے بدن سے نکال دو
اس طرح کی سب حرکات محمد ۖ کی محبت کو نکالنے کی ناکام سعی ہے۔مگر ان عناصر کی یہ خام خیالی ہے کہ وہ کامیاب ہوں گے۔بلکہ بات بقول علامہ قبال کے یوں ہو رہی ہے
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
سویڈن کے مسلمانوں اور دیگر سنجیدہ حلقوں نے بھی توہین آمیز فلم اور اس کے دیگر مذموم اقدامات کی مذمت کی ہے۔اسٹاک ہوم اسٹڈی سرکل نے اپنے ایک اجلاس میںتوہین آمیز فلم کی مذمت کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو زور دیا ہے کہ وہ مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے عالمی سطح پر ایسے اقدامات کریں کہ آئندہ کسی کو ایسی جرآت نہ ہو۔آزادیء رائے کا پرچار کرنے والوں کو یہ بات سامنے رکھنی چاہیے کہ تحریر و تقریر کی آزادی کا مطلب دوسروں کی دل آزاری نہیں ہوتا۔یہ بات خوش آئیند ہے کہ پاکستان مصر انڈونیشیا اور دیگر ممالک کے سربراہوں نے اسے اپنا موضوع تقریر بنا کر دنیا کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔دوسری جانب پاکستان نے اسلامی وزراء خارجہ کے اجلاس میں جو توہین رسالت کی قرارداد پیش کی وہ منظور ہوئی ہے۔ اب ١٥٧، اسلامی ممالک اس قرارداد کو اقوام متحدہ میں پیش کریںاور جب تک منظور نہیں ہو جاتی چین سے نہ بیٹھیں۔یہی ایک طریقہ ہے جو عالمی سطح میں مستقبل میں ایسے واقعات کو روک سکتا ہے۔
آج کے دور میں سفارتی علمی اور قانونی انداز میں جواب دے کر شر پسند عناصر کا منہ بند کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں سر سید احمد خان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جب سر ولیم نے حضور ۖ کی لائف کے خلاف کتاب لکھی تو سرسید خان کو اس نے بے چین کر دیا۔انہوں نے اپنا گھر فروخت کر کے انگلستان کے سفر کا بندوبست کیا ۔اور یہاں کی لائیبریریوں میں آ کر سخت محنت کر کے جوابی طور پر خطبات احمدیہ لکھی۔اس وقت کے برطانوی اخبار نے لکھا کہ سرسید نے اس طرح جواب دیا کہ جیسا جواب دینے کا حق ہے۔اس عظیم مسلمان مفکر کی آج بھی پیروی کی ضرورت ہے۔بہت سے حلقے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آج تک رشدی کی کتاب کا جواب مسلمانوں کی طرف سے نہیں دیا گیا۔اس کے علاوہ بعض اہل علم اس طرف بھی توجہ دلاتے ہیں کہ ہمارے لٹریچر میں بھی ایسا مواد موجود ہے جسے اسلام دشمن عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔لہٰذا اس مر کی ضرورت ہے کہ ایسے مواد سے لاتعلقی اختیار کی جائے۔
مسلمانوں کے علاو دیگر مذاہب کے اہل علم نے بھی توہین آمیز فلم کی مذمت کی ہے۔سویڈن میں مسلمانوں ،یہودیوں عیسائیوں کے مابین مشترکہ اقدار کے لیے کوشاں تنظیم ،دی کامن گرائونڈ ،کے سربراہ ایموئینل راتھر لوتق نے توہین آمیز فلم فلم کے خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام نے مذہبی اور اخلاقی طور پر عرب معاشرے میں جو انقلاب برپا کیا وہ تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھنے کے قابل ہے۔انکی ذات اقدس اور انکی انسانیت کے خلاف کسی بھی اقدامات کو یکسر مسترد کر دینا چاہیے اوراسے کوڑ ے دان میں دال دینا چاہیے۔
Its like you read my mind! You seem to know so much about this, like you wrote the book in it or something. I think that you could do with a few pics to drive the message home a bit, but other than that, this is great blog. A fantastic read. I will certainly be back.