مشاعروں کی آئٹم گرل


ہندوستانی فلموں میں آئٹم گرل اور اُس پر فلمائے گئےجنسی اور نیم عریاں بلکہ تقریباً عریاں گانوں سے ہم سبب بخوبی واقف ہیں بلکہ گاہے بگاہے مستفید بھی ہوتے رہتے ہیں۔ آئٹم گرل کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو فلمساز اور پروڈیوسرز ایسا کم از کم پچاس کی دہائی سے کرتے آرہے ہیں بظاہر ایسا فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے اور منافع بڑھانے کی غرض سے کیا جاتا ہے۔ عین ممکن ہو کہ پسِ پشت کچھ اور وجوہات بھی ہوں۔  
 
پچھلے پندرہ بیس سالوں میں آئٹم گرل کا رجحان فلموں سے ہوتا ہوا مشاعروں میں در آیا ہے۔ دم توڑتی اُردو شاعری اور مشاعروں کے سنّاٹوں کی وجہ سے منتظمینِ مشاعرہ کو اپنی روزی روٹی، جو کسی حد تک مشاعروں کی مرحونِ منّت ہے، کی فکر پڑگئی۔ لہذا اُنھوں نے ماضی کی آئٹم گرل “ہیلن” کو ایک نیا روپ دے کر مشاعروں کے اسٹیج پر لا کھڑا کیا۔ اُسے اسٹیج تک لانے میں اُن نام نہاد اساتذہ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا جن کی شاعری اور شخصیت دونوں انتہائی نچلے درجے کی تھی۔ اُنھوں نے آئٹم گرل کی تربیت میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی، تلفظ، ادائیگی، الفاظ کی نشست و برخاست اور کچھ دیگر لوازمات، اور یوں آئٹم گرل ایک شاعرہ کے روپ میں وارد ہوئی۔ اُس نے پورے کپڑوں کے ساتھ عریانیت کی نئی جہتوں کو متعارف کرایا۔ غزل پڑھنے سے پہلے اور بعد میں، اُس نے اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے بے صوت شاعری کے وہ اصلوب متعارف کرائے کہ حاضرینِ مشاعرہ دیگر شعراؑ کی غزلوں پر بھی داد آئٹم گرل ہی کو دیتے نظر آئے۔ آئٹم گرل کی آوارہ آنکھیں حاضرینِ مشاعرہ سے یوں اُلجھتی نظر آتی ہیں جیسے ایک اک سے برسوں کی شناسائی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ احمد فراز مرحوم نے یہ شعر مشاعرے کی آئٹم گرل کے لئے ہی کہا تھا۔                                           
اُس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اُس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
یہ کہنا مشکل ہے کہ فراز نےلفظ “کلام” تشبیحاً استعمال کیا تھا یا لفظ “کلام” سے اُن کی مراد شاعری تھی۔ بحر کیف حاضرینِ مشاعرہ کے جذبات 
بھی آئٹم گرل کے لئے فراز سے کچھ مختلف نہیں ہوتے اور ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق آئٹم گرل پر کچھ نہ کچھ نچھاور کرنا چاہتا ہے۔ دورانِ مشاعرہ اُن شوہروں کی حالت دیدنی ہوتی ہے جو اپنی شریکِ وفات کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جہاں اُن کی نظریں آئٹم گرل کی آنکھوں سے اُتر کے اُس کے ہونٹوں تک پنہچھتی ہیں وہیں ایک قہر آلود نظر شوہر کو اُس کی سات پشتوں سمیت بیچ مشاعرہ گاہ میں اُلٹا لٹکا دیتی ہے۔ آپ اگر آئٹم گرل کو بغیر دیکھے پہچاننا چاہیں تو تو اُس کے نام پر غور کیجئے، بریلوی، دہلوی، کانپوری، لکھنوی اور بجنوری جیسے الفاظ اگر کسی موئنث نام کے ساتھ نظر آئیں تو سمجھ لیجے کہ آپ کی مراد بر آئی ہے اور اُپ بے دھڑک مشاعرے کا ٹکٹ خرید سکتے ہیں۔ 
جہاں آئٹم گرل نے مشاعروں اور دم توڑتی اُردو شاعری میں جان ڈالدی ہے وہیں اس نے با صلاحیت شاعرات کی زندگی بھی اجیرن کردی ہے۔ نہ صرف آئٹم گرل کو ان شاعرات کے بعد پڑھوایا جاتا ہے بلکہ وہ اپنی سطحی شاعری پر ڈھیروں داد بھی وصول کرتی ہے۔ جب کہ باصلاحیت شاعرات اپنا کلام پیش کرتے ہوئے یوں محسوس کرتی ہیں جیسے حاضرین گونگے اور وہ خود بہری ہوں۔
قارئین فی الحال اتنا ہی کیوں کہ ہمیں ایک مشاعرے میں جانا ہے جہاں اس عہد کی سب سے بڑٰ شاعرہ “دلکش لکھنوی” جلوہ افروز ہو رہی ہیں۔ 
نوٹ: اگر یہ تحریر پڑھنے کہ بعد آپ کو ایسا لگے کہ یہ تحریر آپ کے بارے مین ہے تو یہ محض اتفاق نہ ہوگا۔
فیاض الدین صائبؔ
اپنا تبصرہ لکھیں