فیصل حنیف
کشور ناہید
آج سے 55سال پہلے جب میں نے مشاعرہ پڑھنا شروع کیا تو ہمارے سامنے مثال تھی۔ زہرہ نگاہ، سحاب قزلباش اور ادا جعفری کی، جن کو شعر پڑھتے ہوئے لوگ سنتے تھے۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو میرے سامنے آداب محفل تھے اور ہر دفعہ بڑوں کے سامنے شعر پڑھتے ہوئے ڈر بھی لگتا تھا اور حجاب بھی آتا تھا کہ کوئی لفظ غلط منہ سے نکل نہ جائے یا کوئی ایسا مصرعہ نہ ہو کہ اسٹیج پہ بیٹھے شعراء کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل جائے۔ مجھے یاد ہے 1965کا زمانہ تھا، ایک شاعرہ جن کو ترنم کے باعث مشاعروں میں بلایا جاتا تھا، انہوں نے مصرعہ پڑھا ’’بڑے آئے مرا چاک گریباں دیکھنے والے‘‘ تو باقاعدہ قہقہہ تو نہیں پڑا مگر ہم جیسوں کے چہروں پہ بھی خفّت زدہ مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔ پھر کراچی میں گزشتہ ہفتہ ایک کیا کئی شاعرات کو اس طرح کے مصرعے پڑھتے ہوئے سنا ’’کہ بڑے آئے وہ‘‘ یا پھر ردیف تھی ’’سمجھو نا، آئو نا‘‘قسم کی، ایسے مصرعے لوگ سنیں اور تالی بجا کر داد نہ دیں تو اسٹیج پہ بیٹھے اور سنجیدہ سننے والے ضبط کے ساتھ پہلو بدل کے کبھی کبھی منہ پہ ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ ان پڑھنے والیوں کی عمر بھی بالی نہیں تھی۔ ان شاعرات نے ’’اماں‘‘ کے قافیے کو بھی خوب استعمال کیا اور داد بھی پائی۔ پاکستان اور انڈیا میں پڑھے جانے والے مشاعروں میں زمین، آسمان کا فرق ہے۔ اوّل تو اردو وہاں پڑھائی ہی کم جاتی ہے دوسرے یہ کہ مشاعروں میں ہزاروں لوگ آتے ہیں، ان کیلئے یہ ایک تفریح کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ وہاں پڑھنے والیاں بھی اکثر دوسروں کے لکھے ہوئے شعر ترنم سے سناتی ہیں۔ کافی بیباک انداز میں بھی پڑھتی ہیں۔ لوگ لطف لیتے ہیں۔
پاکستان میں فاطمہ حسن اور شاہدہ حسن کے بعد سنجیدہ شاعری میں بڑے اچھے نام آئے۔ شاعری کے کینوس کے علاوہ لغت، استعارے اور طرز اظہار کو نئی جہت بخشی۔ سادگی، جاذبیت اور معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ شعر کی داد بھی پائی اور عزت بھی۔ بہت سی نووارد تو خیر نہیں، 20-20سال سے شعر کہنے کو کہہ رہی ہیں۔ ان معصوموں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ خاتون رسا چغتائی کی طرح یہ نہیں کہہ سکتی ’’کہ پھر وہ جان حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا۔‘‘ خاتون کو تو وصل، قربت اور شب کو کیا ہوا، بتانے کی اس لئے بھی ضرورت نہیں کہ وہ آج کے زمانے میں یہ پرانے فلمی انداز کی ژولیدہ استعاراتی تحریر کی متحمّل ہی نہیں ہو سکتی۔ ویسے بھی ہمارے مسائل میں تو روڑے کوٹتی عورت یا اپنی مرضی سے شادی کی خواہش کرنے والی، گلا دبا کے مار دی جانے والی کی المیہ داستان صفحہ در صفحہ موجود ہے۔ ویسے بھی سلمان جیسے نوجوان شاعر جب یہ کہیں کہ ’’فٹ پاتھ کو کچل کے مت چلو، یہاں لیٹ کر غریبوں نے خواب دیکھنے ہوتے ہیں‘‘ تو کیا سننے والے اور کیا شاعر ایسے شعر بارہا سنتے ہیں۔ ہماری بہت سی شعر کہنے یا پھر مشاعرہ پڑھنے والیاں، محبوب، عشق کے زمانوں کو جس بھرپور انداز میں مسکراتے ہوئے پیش کرتی ہیں، لوگ اس کا بھی لطف لیتے ہیں مگر اور طرح سے۔
زندگی کی اوّلین منزل تو شاعری میں محبت کی تہہ در تہہ آبیاری کرتی ہے۔ عورت کو محبوب بننے کا لہجہ تو قرۃ العین طاہرہ نے بخشا ہوا ہے یا فلموں میں ’’کبھی تنہائیوں میں یوں تمہاری یاد آئے گی‘‘ احساس کو جگایا یا پھر گلزار نے جھنجھوڑا کہ ’’میرا کچھ سامان تمہارے پاس پڑا ہے، وہ لوٹا دو‘‘ ساحر نے بھی عورت کے تقدس کی بات کی، فیض صاحب نے ساری عمر عشق کو حوالہ بنانے کے باوجود جب ’راج کرے گی خلق خدا‘ یا ’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘ ’وہ شان سلامت رہتی ہے‘ یا پھر زہرہ آپا نے کہا ’میں بچ گئی ماں‘ یا عشرت آفریں نے لکھا کہ وہ لڑکیاں جو چوڑیاں پیس کے پی گئیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیشہ المیہ شعر ہی بڑے نہیں ہوتے ’’وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پائوں آنا یاد ہے‘‘۔ یہ مصرعے بہت زمانے گزرنے کے باوجود لطف دیتے ہیں۔ کسی تازہ شاعر نے باہر آباد ہونے والے مزدوروں اور اشرافیہ کی اولادوں پہ لکھا تھا کہ ’’اسی لئے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے۔‘‘ عورت کی خود کلامی جو پروین شاکر کی شاعری میں اور جسے ہر نئی نسل پسند کرتی ہے اس میں لفظوں کی جادوگری کو وہ جذبوں کا ملبوس پہنا دیتی تھی۔ اسے اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی شاعری کا پورا ادراک تھا۔ وہی چیز داد کیلئے ڈھونڈتی شاعرات ابھی تک کچّے جذبوں کو میک اپ، جھمکوں اور جھومر کو یاد کرتے ہوئے ہنستی بھی ہیں تو پھر سننے والے اب شور نہیں مچاتے۔ وہ داد بھی نہیں دیتے، بس خاموشی سے سن لیتے ہیں۔ ابھی تک ہمارے بے غیرت معاشرے میں حد ادب رکھنے والے سنجیدہ ذہن لوگ نیچی نگاہیں کئے ان مزاحیہ مشاعروں کو بھی برداشت کر لیتے ہیں اور ان کو بھی جن کے مصرعے کی اٹھان ہی ’’گالیاں دیتا ہے‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔
مجھے معلوم ہے میں اپنے بڑھاپے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سے چھوٹے بلکہ کئی تو بہت چھوٹے بہت پیارے شاعروں کو اشفاق حسین کے ’’کچے گھروندے‘‘ کی طرح مصرعوں کو وہ آبیاری دیں کہ علامہ اقبال کی طرح یہ بھی کہہ سکیں کہ ’’شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو‘‘ یا پھر میر کی طرح ہی ’’نیم باز آنکھوں‘‘ کے استعاروں کو اپنے انداز میں زندگی بخشیں۔ ’’ہم مائیں، ہم بہنیں، ہم بیٹیاں‘‘ بہت ہو گیا، ٹیلی وژن کو مبارک۔ یہیں مجھے ٹی وی ہو کہ مشاعرہ گاہ، خواتین لکھنے والیوں کو اسی طرح یاد کراتی ہوں جیسے ممبر پارلیمنٹ خواتین کو میں کئی دفعہ کہہ چکی ہوں کہ یہ مقام آپ کو ہیرے کی انگوٹھیاں دکھانے کو نہیں، ذہانت کے چراغ روشن کرنے کیلئے، خدا اور معاشرہ دونوں دیتے ہیں، اس کی لاج رکھیں۔