پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا قوم میں موجود ”کر کٹیریا ” کے مریضوں پر یہ احسان رہا ہے کہ وہ انہیں کسی ایک شکست کے صدمے سے زیادہ دیر تک دوچار نہیں رکھتے۔ ہر نئی شکست کا غم پچھلی ہار کے دکھ اور کرب کو بھُلا دیتا ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں بار بار کی شکست کے ہم عادی ہوچُکے ہیں۔ اب ہمیں اس کھیل میں شکست پر دکھ کی بجائے کبھی کبھا رکی جیت پر حیرت ہو تی ہے۔چند دن پہلے ہی کی بات ہے کہ کچھ بے صبرے شائقین عین اُس وقت ایئر پورٹ جا پہنچے جب ون ڈے سیریز میں شکست کھانے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق وطن واپس لوٹے تھے۔ شائقین ِ کرکٹ نے قومی ٹیم اور کپتان کے خلاف نعرہ بازی کی ، جذبات میں آکرکپتان کو گیڈر کے خطاب سے نواز دیا۔شائقین کے جذباتی ہونے کے باوجود قومی ٹیم کے کپتان کے جذبات نے حسب ِ معمول کسی قسم کی کوئی انگڑائی نہیں لی۔ اس صورتحال میں بھی انہوں اپنی طبیعت میں موجود اُسی ” ٹھراؤ ” سے کام لیا جیسا ٹھراؤ وہ کھیل کے میدان میں دکھاتے ہیں۔ ہزیمت اُٹھانے کی عادی ٹیم کے کپتان نے ”گیڈر ” کا اعزاز ملنے پر بُرا منایا بھی تو اس انداز میں ۔۔۔۔کہ کہنے لگے ” گیڈر کون ہوتا ہے۔۔؟ شیر کون ؟ جو اندر( میدان ) میں کھڑے ہوکر لڑتا ہے وہ گیڈر ہے؟ تو میں گیڈر ہی ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔” مصباح الحق نے شائقین کی جانب سے ” گیڈر ” کے اعزاز کو قبول کرتے ہوئے شکست کی ذمہ داری بیٹنگ لائن پر ڈالی ۔ اس شکست کے بعد بہت سے کرکٹر ز نے جن میں محمد یوسف ، شعیب اختر اور حفیظ نمایاں ہیں ۔ مصباح الحق کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شاہد آفریدی اورحفیظ مصباح الحق کے مخالف ہیں ان دنوں کو ٹارگٹ یہ ہے مصباح الحق سے آئندہ ورلڈ کپ سے پہلے کپتانی چھین لی جائے۔۔۔۔۔۔
مصباح الحق سے جب یہ کہا گیا کہ ماضی میں ورلڈ کپ کی فاتح پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو سزا دیا کرتے تھے انہیں میچز سے ڈراپ کر دیا جاتا تھا۔ آپ ایسا کیوں نہیں کرتے توان کا کا جواب تھا کہ ” اگر ایسا کیا جائے تو ہر میچ نئی ٹیم کے ساتھ کھیلنا پڑے گا’اس بیان سے جہاں ایک طرف پوری کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کا نقشہ سامنے آجاتا ہے وہاں مصباح الحق کی قوتَ فیصلہ اور جرائت کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔۔۔ مصباح الحق عمران خان بننے سے تو کیا صحیح معنوں میں کپتان بننے سے بھی ڈرتے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ وہ بھی عمران خان کے علاقے میانوالی سے تعلق رکھتے ہیں۔ علاقائی طور پر وہ کئی حوالوں سے عمران خان کے ساتھ مشترکہ تاریخی حوالوں میں بندھے ہوئے ہے۔۔
عمران خان شیر مانخیل قبیلے کے فرزند ہیں جبکہ مصباح الحق کا تعلق پنوں خیل قبیلے سے ہے۔یہ دونوں قبیلے نیازیوں کے ایک بڑے قبیلے ” بلو خیل ” ( Ballo Khel )کی ذیلی شاخیں ہیں۔بلو خان کا شجرہ نسب نیازیوں کے جدِ امجد سرہنگ نیازی سے جا ملتا ہے۔تاریخی حوالوں میں مرقوم ہے کہ ” 1845 ء میں موجودہ بلو خیل سے چھ کلو میٹر مغرب میں بلو خیل قبیلہ کے سردار سہراب خان کی قیادت میں ایک تاریخی لڑائی لڑی گئی تھی ۔ اس لڑائی میں سہراب خان تو شہید ہوگیا تھا۔مگر جنگ کے نتیجے میں لاتعداد سکھ سپاہیوں کی کٹی ہوئی گردنیں ( گلو ) اور کھوپڑیاں گھوڑوں کے سموں تلے کچلتے کچلتے گارا بنا دی گئی تھیں ۔یوں اس جائے حرب کا نام ” گلو گارہ ”پڑ گیا ہے۔
مصباالحق کا قبیلہ ” پنوں خیل ” اِ سی جنگجو قبیلے کی ذیلی شاخ ہے۔اس قبیلے کے جدِ اعلیٰ پتن عرف پنوں، جوگے خان کے بیٹے اور بلو خان کے پوتے تھے۔بعد کی تاریخ میں اس قبیلے نے جرات و بہادری کی بجائے دولت و ثروت میں شہرت حاصل کی۔معروف گلوکارہ ناہید نیازی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے اس کے والد سجاد سرور اپنے وقت کے بہترین میوزک ڈائریکٹر تھے بعد میں وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان کے عہدے پر فائز بھی رہے۔ ایک روایت کے مطابق ” علامہ اقبال بصد تکرار ان سے حالی کی غزلیں سُنا کرتے تھے ”۔اس قبیلے کی ایک اور قابلِ ذکر شخصیت انسپکٹر عبد الحئی نیازی ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف ایف آئی آر چاک کی تھی۔ ایک دوسری نمایاں شخصیت ڈاکٹر ظفر خان نیازی بھی ہیں ۔ بھٹو خاندان کے ایام ِ ابتلا میں یہی شخصیت ان کی معالج اور میزبان تھی۔ ڈاکٹر ظفر خان نیازی ان لوگوں میں بھی نمایاں ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹوکی خواہش پر محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان آنے پر رضامند کیا تھا۔
مصباح الحق نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کو ٹیم سے ڈراپ کرنے کے سوال پر اپنی بے بسی کا اظہار عین اُس وقت پر کیا جب ماضی کے کرکٹر اور حال کے سیاستدان عمران خان نے اپنی اکلوتی صوبائی حکومت میں شامل تین وزراء کو کرپشن کے الزامات کے تحت معزول کردیا۔ اور ان وزراء کی سیاسی پارٹی ” قومی وطن پارٹی ” سے اتحاد ختم کر دیا۔ نیٹو سپلائی کی بندش کا معاملہ ہو یا کرپٹ وزراء کی معزولی دونوں مواقع پر انہوں نے اپنے عزم پر کاربند رہنے کے لئے یہ کہا ” کہ چاہے ان کی حکومت چلی جائے”۔۔۔۔۔۔۔ مصباح الحق اپنی کپتانی کے چلے جانے سے ڈرتے ہیں۔۔۔ جبکہ عمران خان کپتانی کے چلے جانے کے خوف میں کبھی مبتلا نہیں ہوئے تھے۔ عمران خان کو کرکٹ میں ان کے کزن ماجد خان لائے تھے۔ عمران خان جب کپتان بنے تو انہوں نے خراب کارکردگی پر سب سے پہلے ماجد خان کو ہی ڈراپ کیا تھا ۔ عمران خان خود بتاتے ہیں کہ ان کے اس ایکشن پر ماجد خان نے ان سے چودہ مہینوں تک بات نہیں کی تھی۔۔۔
سیاست میں بھی ایک ایسا ایکشن ان کے لئے خاندانی تنازعات کا سبب بنا ہوا ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کی وہ اکثریت جو عمران خان کی سیاست سے خائف ہے ۔یہ لوگ اکثر یہ کہتے سُنے جاتے ہیں کہ” عمران خان سیاست کو کرکٹ سمجھ بیٹھے ہیں” ۔۔۔ ان اربابِ سیاست کی یہ بات کچھ لمحوں کے لئے درست مان لی جائے توان حضرات کو یہ مفت مشورہ دینے کے لئے ہمارا دل بے تاب ہوجاتا ہے کہ سیاست نہیں تو کرکٹ کے حوالے سے ہی عمران خان کے مشوروں اور تجاویز کو عملی جامہ پہنا دیا جائے۔ تا کہ کم و بیش ہر دوسرے میچ میں شکست کی ذلت سے توقوم محفوظ ہو جائے۔میاں برادران جب بھی بر سرِ اقتدار آتے ہیں ، قومی عہدے اپنے ان قرابت داروں میں بانٹ دیتے ہیں جنہیں وہ اپنا وفادار سمجھتے ہیں۔اس مرتبہ انہوں نے کرکٹ کنٹرول بورڈ کی سربراہی نجم سیٹھی کی جھولی میں ڈال دی۔ میاں صاحبان کی اس نوازش پر پوری پاکستانی قوم عمران خان کے اس موقف کی حامی ہے کہ ”کرکٹ کے حوالے سے کسی قسم کے تجربے سے یکسر عاری کو حکومتی جماعت کی معاونت کے عوض کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے ”
مصباح الحق اپنی قبائلی روایت کے مطابق جرائت دکھانے کی بجائے اپنی کپتانی بچانے کے چکر وں میں نظر آتے ہیں ۔ ہمیں ان کی انفرادی کارکردگی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ قومی ٹیم کے کپتان ہیں اس لئے ٹیم کی اجتمائی کارکردگی کے بھی وہی ذمہ دار ہیں۔ بہت غور و خوض کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں ابھی کرکٹ کے میدان میں بہت سے نئے مقاماتِ آہ و فغاں سے گذرنا ہے۔ ” ائر مارشل نور خان” اور ” عمران خان ” کا خلا پوراکرنے کے لئے ابھی نرگس کو اپنی بے نوری پہ رونا ہے۔ کئی سال تلک ۔۔۔۔۔ کیونکہ ابھی نجم سیٹھیوں، مصباالحقوں، شعیب اختروں، شاہد آفریدیوں اور حفیظوں کا دور ِ ہزیمت ابھی باقی ہے۔۔۔۔۔