پہلی قسط. !انتخاب
راحیلہ ساجد
سنہری صبح بهیگ رہی تهی وہ سست روی سے چلتی بس اسٹاپ تک پہنچی. کندهے پہ بیگ لٹکائے، هاته میں پانی کی بوتل پکڑے، چہرے پہ ڈهیروں بےزاری لیے وہ بنچ کے قریب آئی’ جہاں بیٹه کر وہ روز دس منٹ بس کا انتظار کرتی تهی.
اس نے بیگ ایک طرف رکها اور بنچ پر بیٹه گئی. پهر ایک هاته سے جمائی روکتے دوسرے سے بوتل کهول کر لبوں سے لگائی. گرمی آج کل بہت بڑهتی جارہی تهی. صبح ہی صبح اسے پسینہ آنے لگا تها’ جانے آگے کیا ہوگا’ وہ گهونٹ بهرتی بےزاری سے سوچ رہی تهی. چہرے پہ بهی وہی اکتائے ہوئے تاثرات تهے ‘ جیسے دنیا بهر سے خفا ہو- سنہری پیشانی پہ مستقل پڑے بل اور کانچ سی خوبصورت بهوری سنہری آنکهوں میں چهائی خفگی….. کچه تها اس میں جو اسے سارے میں یکتا بناتا تها- لمبے کرتے اور جینز میں ملبوس رسی کی مانند دوپٹہ مفلر کے انداز سے گردن سے لپیٹے’ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے وہ پاوں جهلاتی’ تنقیدی نگاہوں سے ادهر ادهر دیکه رہی تهی اور تب ہی اسے احساس ہوا کہ وہ سیاہ فام لڑکی آج بهی بنچ پہ اسکے ساته بیٹهی ہے-
ان دونوں کے درمیان اسکا بیگ رکها تها اور اس وقت وہ سیاہ فام لڑکی سر جهکائے ‘ نگاه ترچهی کیے اس کے بیگ کو دیکه رہی تهی’ جہاں جگہ جگہ چاک اور وائٹنر سے اس نے اپنا نام لکه رکها تها-
” محمل ابراہیم …….. محمل ابراہیم……. Mehmil Ibrahim”-
آڑا ترچها ‘ چهوٹے بڑے ہر انداز میں یہی لکها تها- وہ لڑکی کبهی کبهی ہی اس کے بیگ کو دیکهتی تهی’ مگر محمل کے تو روز کے دس منٹ اس سیاہ فام لڑکی کا جائزہ لیتے ہی گزرتے تهے-
وہ بهی عجب پراسرار کردار تهی- یہاں اسلام آباد میں سیاہ فام نظر آ ہی جاتے تهے- مگر وہ اپنے جیسوں سے مختلف تهی- سر پہ رومال باندہ کر گردن کے پیچهے گرہ لگاتی اور نیچے اوورکوٹ ‘ موٹے ہونٹ ‘ سیاہ رنگت….. مگر چمکیلی آنکهیں……کوئی ایسی چمک تهی ان میں کہ محمل کبهی ان آنکهوں میں دیکه نہ پائی تهی ‘ ہمیشہ نگاہ چرا جاتی- شاید ڈیڑه مہینہ قبل وہ اسے اپنے مخصوص اوقات میں اسٹینڈ پہ دیکهتی تهی اور ان ڈیڑه ماہ میں انکا انداز ہمیشہ یکساں رہا تها-
کمر سیدهی رکهے الرٹ سی بنچ پہ بیٹهی ‘ خاموشی سے سامنے سیده میں دیکهتی وہ بہت چپ سی لڑکی معلوم نہیں کون تهی اور پهر اس کی وہ پر اسرار کتاب…….! سیاہ جلد والی بهاری سی کتاب جس کا سیاه ورق بالکل خالی تها ‘ اسکی گود میں دهری ہوتی اور کتاب کے کناروں پہ اس کے سیاه ہاته مضبوطی سے جمے ہوتے- اس کے انداز سے کچه خاص جهلکتا تها — کتاب کی حفاظت کا احساس یا شاید اس کے بیش قیمت ہونے کا-
کتاب بالشت بهر موٹی تهی- صفحوں کے جهلکتے کنارے پیلے اور خستہ لگتے تهے’ جیسے کوئی بہت قدیم کتاب ہو ‘ سینکڑوں برس پرانا کوئی نسخہ ہو- کچه تها اس میں کوئی قدیم راز ‘ کوئی پراسرار کتها- وہ جب بهی اس کتاب کو دیکهتی ‘ یہی سوچتی اور آج جانے کیا ہوا ‘ وہ اس خاموش سی لڑکی سےمخاطب ہو ہی گئی- شاید تجسس عاجز کر رہا تها-
” ایکسکیوزمی- ایک بات پوچه سکتی ہوں؟”
” پوچهو-” سیاہ فام لڑکی نے اپنی چمکیلی آنکهیں اٹهائیں-”
” یہ کتاب کس کی ہے ؟”
“میری!”
“میرا مطلب ہے اس میں کیا لکها ہے ؟”
جاری ہے