قسط نمبر 4 –
تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
!شام میں وہ کمرے میں بند پڑهتی رہی ‘ پهر مغرب ڈهل گئی تو کچن میں آگئی جہاں مسرت پهرتی سے کٹنگ بورڈ پہ پیاز ٹماٹر کاٹتی رات کے کهانے کی تیاری کر رہی تهیں – کچن میں اور کوئی نہ تها اور سارا پهیلاوا یقینا انہی کو سمیٹنا تها –
” اماں ! یہ تائی اماں یا چاچیوں میں سے کوئی کهانے کی ذمہ داری کیوں نہیں لیتا ؟ ہمیشہ آپ ہی کیوں بناتی ہیں ؟” وہ یہ سب ديکھ کر ہول گئی تهی –
” تو ہمارا گهر ہے بیٹا ‘ میں یہ کر دونگی تو کیا ہو جائے گا ؟”
” آپ تهکتی نہیں ہیں انکی خدمت کرتے کرتے ؟”
“نہیں ‘ تهکن کیسی؟” وہ اب جهک کر چولہا جلا رہی تهیں-
” اچها بتائیں ‘ کیا بنانا ہے ؟ میں کچھ کرا دوں -”
” بریانی تو بنانی ہی ہے ‘ باقی مہتاب بهابهی سے پوچهتی ہوں -” اور اس پل مہتاب تائی نے کچن کے دروازے سے جهانکا –
” کهانا بنانا اب شروع بهی کر دو مسرت ! روز دیر ہو جاتی ہے -”
مسرت چولہا جلاتے فورا پلٹی – ” جی بهابهی ‘ بس شروع کر رہی ہوں -” آپ بتائیں ‘ بریانی کا وسیم بیٹا کہہ گیا تها ‘ ساتھ کیا بناوں ؟” وہ دوپٹے سے ہاته پونچهتے ان کے سامنے جا کر پوچهنے لگیں –
” ساته ہی مٹر قیمہ بنا دو ‘ کباب بهی تل لینا ‘ اور دوپہر والا اروی گوشت بهی گرم کر لینا ‘ آلو کا ایک سالن بهی بنا لو ‘ سلاد رائتہ بهی نہ بهولنا -”
” جی اور میٹهے میں ؟”
” ديکھ لو -” وہ بے نیازی و نخوت سے گایا ہوئیں – ” پڈنگ بنا لو – یا ڈبل روٹی کی کهیر -” اور ایک اچٹتی نظر اس پہ ڈال کر پلٹ گئیں –
” ایک ٹائم پہ دیگچے بهر بهر کے آپ تین تین ‘ چار چار ڈشز بناتی ہیں ‘ مگر رات کے لیے کچھ بچتا ہی نہیں ہے -” وہ کلستی بهی تهی اور حیران بهی ہوتی –
” تم خود ہی تو کہتی ہو کہ وہ ہمارا مال حرام طریقے سے کهاتے ہیں پهر حرام میں کہاں برکت ہے بیٹا ؟” ان کے لہجے میں برسوں کی تهکن تهی اور وہ کہہ کر پهر سے کٹنگ بورڈ پہ جهک گئیں –
وہ بالکل چپ سی ہو گئی – واقعی کیوں یہاں دیگچے کے دیگچے ایک وقت کے کهانے پہ ختم ہو جاتے تهے ‘ اس نے تو کبهی اس پہلو پہ سوچا ہی نہ تها اور اماں بهی انکے ہر ظلم و زیادتی سے آگاه تهیں ‘ پهر بهی چپ چاپ سہے جاتی تهیں – .” ہمارا مال !” دل میں ایک کانٹا چبها – گیارہ برس قبل ابا کی ڈیتھ سے پہلے یہ فیکٹریاں ‘ یہ جائیدادیں ‘ بینک بیلینس ‘ یہ امپورٹ ایکسپورٹ کی پوتی بزنس ایمپائر’ سب ابا کا تها اور یہ آغا کریم ‘ یہ راجہ بازار میں کپڑے کی ایخ دکان چلاتے تهے – غفران چچا ایک معمولی سی کمپنی میں انجینئر بهرتی تهے اور آرزو کے والد اسد چچا ‘ وہ تو وسیم کی طرح تهے ‘ بے روزگار ‘ نکمے ‘ نکهٹو اور نالائق پهر کیسے ابا کے چہلم کے بعد وہ اپنے اپنے کرائے کے گهر خالی کر کے باری باری ادهر آن بسے – یہ آغا ابراہیم کا گهر ” آغا ہاوس ” تین منزلہ عالی شان محل نما کوٹهی تهی ‘ نچلی منزل پہ آغا جان کی فیملی نے بسیرا جمایا ‘ بالائی پہ فضہ چاچی نے اور سب سے اوپری منزل پہ اسد چچا کی فیملی کا قبضہ تها – وہ چند دن کے لیے آئے تهے ‘ مگر پهر وہ چند دن کبهی ختم نہ ہوئے – بات بے بات جگہ کی کمی کا رونا رویا جاتا ‘ یہاں تک کہ ماسٹر بیڈروم سے مسرت اور محمل کو نکال کر اسٹور میں شفٹ کر دیا گیا – وہ اس وقت چهوٹی تهی ‘ شاید نودس برس کی ‘ مگر جیسے جیسے شعور کی منزلیں پار کیں ‘ تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا ‘ اب تو عرصہ ھوا اس نے دبنا چهوڑ دیا تجا – گهر کے مردوں کے سامنے تو خیر وہ زبان بند ہی رکهتی مگر تائی چچیوں سے برابر کا مقابلہ کرتی اور کزنز تو کسی کهاتے میں نہ تهیں – لیکن اس زبان چلانے کے باعث اس پہ سختیاں بڑهتی گئیں – وہ محض زبان سے جواب دے سکتی تهی مگر تائی اماں وغیرہ دوسرے حربے بهی استعمال کرتے – جب سے اس نے ذاتی خرچ کے لیے ایک دوست کے والد کی اکیڈمی مئں ٹیوشنز دینی شروع کی تهیں اس کو گهر واپسی میں دیر ہو جاتی اور نتیجتا یا قصدا اس کے لیے دوپہر کا کهانا نہ رکها جاتا – ایک دفعہ اماں ایک روٹی اور سالن کی پلیٹ بچا کر کمرے میں لے گئیں ‘ مگر تائی مہتاب کہ نگاہ پڑ ہی گئی اور گهر میں بهونچال ہی آ گیا – وہ باتیں سنائیں مسرت کو ایسه ایسه “چوری ” کے الزامات و القابات سے نوازا کہ مسرت پهر کبهی اس کے لیے کچھ نہ بچا سکیں – شاید تائی یی سب اس لیے کرتی تهیں تاکہ وہ ٹیوشن چهوڑ دے اور جو پندرہ سو روپیہ اس ٹیوشن سے ملتا ہے ‘ وہ اسے نہ ملا کرے –
اور ٹیوشن کی اجازت بهی تو کتنی منتوں سے اسے ملی تهی – جب سب کے سامنے ہی اس نے پوچھ لیا تو شروع میں تو سب ہی اکهڑ گئے لیکن اس کا فقرہ کہ ” ٹهیک ہے ‘ آج یکم تاریخ ہے ‘ لائیے آغاجان ‘ میری پاکٹ منی نکالیے ‘ مگر وہ اتنی ہی ہو جتنی سدرہ اور مہرین باجی کو ملتی ہے ‘ کیونکہ اگر مجهے پاکٹ منی نہ ملی تو سدرہ اور مہرین کے اچهے اور مہنگے جوڑے کو آگ لگا دونگی ‘ اور وہ پہلی دفعہ وہ اتنی جنونی ہو کر بولی تهی کہ مزید دس منٹ کی بحث کے بعد اسے اجازت مل ہی گئی تهی اور ابهی جو اماں نے یاد دلایا کہ وہ لوگ ان کا مال کهاتے ہیں ‘ تو وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ کچھ ایسا ضرور ہے کہ آغاجان اس بیس سالہ لڑکی سے خائف ہیں – اگر کبهی جو وہ اپنا حصہ مانگنے کهڑی ہو جائے تو …… تو کیا انکا کیس اتنا کمزور ھے کہ وہ عدالت کا فیصلہ اپنے حق میں نہ کرا سکیں گے اور انہیں ہر چیز محمل کے حوالے کرنی پڑے گی ؟ اور کیا وہ بیس سالہ لڑکی اتنی باہمت ہے کہ وہ ان سب کو ‘ ان شطرنج کے اتنے ماہر اور چالباز کهلاڑیوں کو اپنی انگلیوں پہ نچا سکے ؟
جواب ایک زوردار نہیں تها – وہ کبهی بهی ان کے خلاف اٹه کهڑی نہیں ہو سکتی تهی ‘ لیکن……. اگر کبهی اس کے ہاتھ ان کی کوئی کمزوری لگ جائے ‘ کوئی دکهتی رگ جسے دبا کر وہ اپنے سارے حساب چلتا کرسکے ‘ تو کتنا مزہ آئے…..مگر ایسی کیا دکهتی رگ ہو سکتی تهی انکی ؟
“بات سنو” مہتقب تائی نے پهف سے کچن میں جهانکا تو وہ اپنے خیالات کی بہکتی رو سے چونکی –
” فواد کہہ رہا ہے میٹهے میں چاکلیٹ سوفلے ہونا چاہیے یوں کرو ‘ ابهی ساتھ ساتھ شروع کردو اور هاں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے – بہت عرصے بعد میرے بیٹے نے کسی خاص میٹهے کی فرمائش کی ہے -” بہت مان و فخر اور تنبیہ بهرے انداز میں کہہ کر وہ پلٹ گئیں اور محمل کے ذہن کی بهٹکتی رو اسی ایک نکتے پہ منجمد ہو گئی –
” میرا بیٹا……. میرا بیٹا-”
تو آغاجان اور مہتاب تائی کی کمزوری ‘ دکهتی رگ اور ترپ کا پتہ سب کچھ “فواد” ہی تها –
اور اگر…….. اگر جو یہ دکهتی رگ اس کی انگلی تلے آجائے …..تو ؟
” محمل ! یہ آلو کاٹ دو – میرا خیال ہه آلو انڈے بهی بنا لیتے ہیں ‘ سب شوق سے کهاتے ہیں -”
” ہوں-” وہ سوچ میں گم ان کے قریب آئی اور آلو چهیلنے لگی –
مسرت نے بریانی کا مسالہ بنایا ‘ قیمہ مٹر بهی پکنے کے قریب تها – محمل نے شامی تلے ‘ پهف آلو انڈے کا سالن ‘ سلاد رائتہ ، سب بنا چکی تو مسرت روٹی پکانے لگیں –
” فواد کے لیے سوفلے بنا کر فریج میں رکه دیا تها نا ؟”
” جی اماں ! آپ فکر ہی نہ کریں -” وہ مسکرا کر بولی – اسے شام لان میں فواد کا خود کو چونک کر دیکهنا اور لمحے بهر کو مبہوت ہونا یاد آیا تها – جو غلطی خاندان کی ساری لڑکیاں کرتی تهیں وہ محمل کو نہیں دهرانی تهی – اے اپنی اہمیت نہیں گنوانی تهی ‘ اس نے فیصلہ کر لیا تها –
ذرا دیر کو وہ ہاتھ روک کرمسرت سے نظر بچا کر باہر لاونج میں گئی ‘ جہاں تمام لڑکیاں اس وقت بیٹهی ٹی وی دیکه رہی تهیں-
آرزو اسی چست لباس میں ٹانگ پہ ٹانگ رکهے بیٹهی تهی- فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین بهی قریب تهیں – سدرہ طوبیس برس کی بہت عام شکل کی لڑکی تهی ‘ اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے خوب سارا میک اپ اور جیولری گهر میں بهی زیب تن کیے رہتی – سیاہ بالوں میں هولڈن اسٹتیکنگ بهی کرا رکهی تهی ‘ پهر بهی زیادہ فرق نہ پڑا تها-
تئیس سالہ مہرین کا البتہ قد چهوٹا تها ، کافی چهوٹا اور بال بےحد گهنگهریالے – وہ سارا سارا دن اپنے بال سیدهے کرنے یا قدلمبا کرنے کے ٹوٹکے آزماتی رہتی – نقش اس کے سدرہ کی نسبت بہتر تهے –
فضہ چچی کی ندا اور سامیہ میں سے ندا بڑی تهی اور سامیہ بهی ماں کی طرح میٹهی میٹهی باتوں میں سارا دن مہرین کو مزید احساس دلاتی رہتی- ندا شکل کی زرا اچهی تهی ‘ سانولی رنگت پر بڑی بڑی آنکهیں اسے قدرے ممتاز بناتی تهیں اور تبهی آرزو اس کو ناپسند کرتی تهی – شاید وہ جانتی تهی کہ فواد کے لیے اس کے مقابلہ پر سامیہ کمزور جبکہ ندا ایک مضبوط امیدوار تهی –
فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین تو بی اے کر کے ہی پڑهائی چهوڑ چکی تهیں جبکہ بائیس سالہ سامیہ ، تئیس سالہ ندا بی اے کرنے کالج اور تئیس سالہ آرزو ماسٹرز کے لیے یونیورسٹی جاتی تهیں- آرزو مر مر کر پاس ہونے والوں میں سے تهی اور اس کے یونیورسٹی پہنچ جانے کی بڑی وجہ آغاجان کی سفارشیں تهیں – یہ سفارشیں سدرہ اور مہرین کے وقت بهی کام آ جاتیں اگر جو انهیں پڑهنے کا رتی بهر بهی شوق ہوتا –
” بات سنیں -” اس نے بظاہر عجلت میں سب کو مخاطب کیا – ” رات کهانے کے لیے سوفلے بنانا ہے ، آپ لوگوں میں سے کوئی ہیلپ کرائے گا ؟”
” نہیں -” آرزو نے ریموٹ سے چینل بدلتے اسے دیکهنا گوارا نہیں کیا –
ندا اپنے ناخنوں پہ سے کیوٹکس کهرچ رہی تهی ، لمبی سی سامیہ فورا فون کی طرف متوجہ ہو گئی – مہرین نے چہرے کے آگے رسالہ کر لیا اور سدرہ بہت انہماک سے اسی وقت ٹی وی دیکهنے لگی –
” چلیں فائن ” وہ واپس کچن میں آگئی –
ڈائننگ ہال میں روز کی طرح کهانا کهایا گیا –
محمل ہمیشہ کی طرح سب سے آخری کرسی پہ موجود تهی ، جو آغاجان کی سربراہی کرسی کی بالکل سیدہ میں تهی – مسرت ادهر ادهر چیزیں پکڑاتی پهر رہی تهیں –
” میٹها لے آو -” کهانا ختم ہوا تو مہتاب تائی نے محمل کو اشارہ کر کے کہا – مسرت ابهی جهوٹے برتن اٹها کر کچن کی طرف گئی تهیں –
” میٹها تو آج نہیں بنا -” وہ بہت اطمینان سے بلند آواز بولی تو سب چونک کر اسے دیکهنے لگے –
“مگر…..” فواد نے الجھ کر ماں کو دیکها – ” میں نے کہا تها کہ چاکلیٹ سوفلے بنانا ہے -”
” مگر آپکا چاکلیٹ سوفلے نہیں بنا -”
” محمل یہ کیا بدتمیزی ہے ؟” تائی اماں نے گهرکا –
” بدتمیزی ؟ فواد بهائی ، آپ یہ کهانے کی ڈشز گنیں – بریانی ، مٹر قیمہ ، اروی گوشت ، آلو کباب ، سلاد رائتہ ، ذرا گن کر دیکهیں ،يہ سب اماں نے اکیلے بنایا ہے – میرے ایگزامز ہو رہے ہیں ، میرے پاس وقت نہیں تها کہ بناتی اور آپ کی ان بہنوں سے کہا بهی کہ فواد بهائی کے لیے سوفلے بنانا ہے ، ہیلپ کروا دو ، مگر سب نے انکار کر دیا – اب اتنا سب کرنا اور اوپر سے میٹها بنانا امی کے بس سے باہر تها ‘ سوری میں کل بنا دونگی یا اگر میری ماں کی تهکن سے بڑه کر آپ کو اپنا سوفلے عزیز ہے تو میں انہیں کہہ دیتی ہوں – اماں ، اماں -” اس نے آواز لگائی اور جہاں لڑکیاں بےچینی سے پہلو بدل رہی تهیں اور مہتاب بائی کچھ سخت سنانے ہی لگی تهیں ‘ وہ کہہ اٹها –
” نہیں ‘ نہیں اٹس اوکے میں نے خیال نہیں کیا کہ تمهارے ایگزام ہیں اور ممی -” اس نے ماں کو تنبیہی نگاہوں سے دیکها – ” کچن کا کام صرف محمل اور مسرت چچی کی ذمہ داری نہیں ہے ، ان ساری نواب زادیوں کو بهی کہا کریں ، ہاتھ تو بٹا سکتی ہیں یہ -”
جاری ہے………!