تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
دور بنچ پہ بیٹهی سیاه فام لڑکی کو ديکھ کر اس کے قدموں میں تیزی آ گئی – وہ سبک رفتاری سے چلتی بنچ کے قریب آئی-
” گڈمارننگ-”
سیاه فام لڑکی نے چونک کر سر اٹهایا اور پهر ذرا سا مسکرائی-
” گڈ مارننگ ٹو یو ٹو-” وہ اسی طرح کتاب کے کناروں پہ دونوں ہاته مضبوطی سے جمائے بیٹهی تهی-
” میں دراصل ……” محمل متزبزب سی اس کے ساته بیٹهی- ” مجهے کل کے رویے پہ بہت شرمندگی ہے – میں کبهی بهی اتنا روڈ نہیں ہوتی اور…..”
” جانے دو مجهے برا نہیں لگا-”
” نہیں…… آئی ایم سوری….. رئیلی سوری……. میں کچھ پریشان تهی-”
” میں نے تو تمہیں تمہاری ہر پریشانی کا حل بتایا تها- تم خود ہی اس طرف نہیں آنا چاہتیں-”
” نہیں وہ……” اس نے بے ساختہ نگاہیں چرائیں- ” مجهے اس کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے-”
” مگر اس کتاب کو تم سے ہے – اس نے مجھ سے کہا ہے کہ میں اسے تمہارے حوالے کر دوں-”
وہ بری طرح چونکی تهی- پہلی گفتگو میں اس نے کوئی ایسی ہی بات بتا ئی تهی-
” یہ…. یہ کتاب مجهے جانتی ہے؟”
” سو فیصد جانتی ہے- تمهاری زندگی کی ساری کہانی اس میں لکهی ہے- گزرے واقعات اور آنے والے حالات-”
” واقعی؟” وہ ششدر سی اسے ديکھ رہی تهی ز عجب بےیقینی سی بےیقینی تهی-
” ہاں، اس میں سب لکها ہے-”
” تم نے….. تم نے میری زندگی کی کہانی پڑهی ہے؟”
” نہیں میں وہ نہیں پڑه سکتی-”
” کیوں؟ کیا تم نے یہ کتاب پوری نہیں پڑهی؟”
” میں نے پوری پڑھ رکهی ہے مگر مجھ پہ صرف میری زندگی کی کہانی کهلی ہے، تمهاری زندگی کی کہانی صرف تم پہ ہی کهلے گی-”
” تم کیا کہہ رہی ہو، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا-” اب کے وہ واقعی پریشان ہو گئی تهی-
” آجائے گی، ہر بات سمجھ میں آجائے گی- بس تهوڑا وقت لگے گا-” وہ اسے ديکھ کر رہ گئی- وہ لڑکی کون تهی، کہاں سے آئی تهی اور یہ کتاب کس نے اس کے لیے صدیوں قبل لکهوا کر رکھ چهوڑی تهی، کچھ سمجھ میں نہ آتا تها- بس کا ہارن بجا تو وہ چونکی اور پهر بغیر کچھ کہے تیزی سے اٹھ کهڑی ہوئی-
سیاه فام لڑکی مسکراتے ہوئے اسے بس میں سوار ہوتے دیکھ رہی تهی-
فواد کو چائے کمرے میں دے آو اور محمل، تم ٹرالی باہر لے آو-” تائی مہتاب اپنی ازلی بےنیازی سے حکم صادر کر کے پلٹ گئیں تو ٹرالی سیٹ کرتی محمل کسی خیال سے چونکی-
” فواد کی ٹرے الگ سیٹ کردو محمل! میں دے آوں گی، تم ٹرالی باہر لے جاو-”
” میں نہیں لے جا رہی ٹرالی- تنگ آ گئی ہوں میں ان ذلیل لوگوں کے سامنے-”
” اچها اچها چپ کر؛” مسرت بوکهلا کر آگے بڑهیں اور ٹرالی کا کنارہ تهام لیا، میں لے جاتی ہوں، تم فواد کو چائے دےآؤ-”
اور یہی تو وہ چاہتی تهی، سو شانے اچکا کر بظاہر لاپرواہی سے فواد کی ٹرے سیٹ کی اور پهر اسے اٹها کر دهپ دهپ کرتی سیڑهیاں چڑهتی گئی-
“فواد بهائی-” دروازے پر ہلکا سا ناک کیا-
” ہوں، آجاو-”
اس نے دروازہ دهکیلا تو وہ کهلتا ہی چلا گیا-
فواد بازو آنکهوں پہ رکهےبیڈپہ نیم دراز تها-
“فواد بهائی آپ کی چائے-”
” ہاں رکه دو-” وہ کسل مندی سے اٹها- انداز سے تهکا تهکا لگ رہا تها-
” کیا بات ہے فواد بهائی، آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں-” اس نے ٹرے میز پہ رکهی اور کپ اٹها کر قریب آئی-
” ہاں ، کچھ نہیں- آفس کا مسئلہ ہے-” اس نے چائے کے لیے ہاتھ بڑهایا تو اسے کپ پکڑاتے محمل کی انگلیاں اس کے ہاتھ سے مس ہوئیں- اس نے فورا ہاتتھ کهینچ لیا تو وہ بےساختہ مسکرا دیا- پهر چائے کا گهونٹ بهرا-
” ہوں چائے تو تم اچهی بناتی ہو-”
” اماں نے بنائی ہے-” وہ جز بز سی اس کے سامنے کهڑی تهی- اونچی بهوری پونی ٹیل والی دراز قد سی محمل-
” لائی تو تم ہو- ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں-”
” اچها-” وہ مسکرا دی-
” اور یہ انگلینڈ جانے کا کیا سین ہے؟”
” وہ میں…. میں آگے پڑهنا چاہتی ہوں-” وہ سر جهکائے کهڑی انگلیاں مڑوڑ رہی تهی-
” مگر تم جاب کرنے کا کہہ رہی تهیں، مجهے یہ بات اچهی نہیں لگی تهی-” وہ چائے کا کپ سائیڈ پہ رکهے بہت سنجیدگی سے اسے ديکھ رہا تها-
” میں صرف اپنے خرچوں کے لیے جاب کرنا چاہتی ہوں-”
” اور یہ اتنی بڑی بزنس ایمبائر؟ یہ کون سنبهالے گا؟” محمل نے جهٹکے سے گردن اٹهائی- اسے لگا اس نے غلط سنا ہے-
” بزنس ایمپائر؟”
” ہاں، تم اس کے اونرز میں سے ہو، کیا تمہارا فرض نہیں ہے کہ تم اپنے ابا کے بزنس کو بهی توجہ دو، آخر کبهی نہ کبهی تو تمہیں یہ سب سنبهالنا ہے-”
” جی؟” وہ بے یقینی سے اسے ديکھ رہی تهی-
” اتنی حیران کیوں ہو محمل؟” وہ اٹھ کر اس کے سامنے آ کهڑا ہوا- محمل نے دیکها وہ اس سے خاصا لمبا تها-
” میں…… میں پتہ نہیں-”
” کیا تم یہ سب نہیں سنبهالنا چاہتیں؟”
” میں سنبهالنا چاہتی ہوں مگر کیسے؟”
” تم واقعی سنبهالنا چاہتی ہو؟” فواد کے چہرے پر خوشگوار حیرت اتری- ” یعنی اگر میں تمهیں اپنے ساتھ آفس میں لگانا چاہوں تو تم میرے ساتھ کام کرو گی؟”
” جی، جی بالکل-” اس کا دل ایک دم کسی اور لے پہ دهڑکنے لگا تها، ہا تھ لرزنے لگے تهے-
” ٹهیک ہے، پهر میں شام میں آغا جان سے بات کر لیتا ہوں-”
” وہ……وہ اجازت دے دیں گے؟” اس کے اندر وسوسوں نے سر اٹهایا تها-
” شیور کیوں نہیں دیں گے-” وہ مسکرا کر اسے تسلی دے رہا تها، اور اسے سمجھ نہیں آ رہی تهی کہ وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرے- ایک دم ہی سب کچھ اسے اپنی مٹهی میں آتا دکهائی دینے لگا تها-
دولت نچهاور….. محبوب قدموں میں…..
اب اسے اس سیاه فام لڑکی کی کتاب کی ہرگز ضرورت نہ تهی-
وہ ہواؤں میں اڑتی واپس اپنے کمرے میں آئی تهی-
اور پهر جب رات میں فواد نے اسے اپنے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹانے کی تجویز آغاجان کو دی تو سب سے پہلے حسن نے بےچینی سے پہلو بدلا تها-
” اس کی کیا ضرورت ہے فواد! محمل کو ابهی اپنی پڑهائی پہ توجہ دینی چاہیے-” وہ ناگواری سے بولا تو محمل کو واضح برا لگا- شکر تها خاندان کی عورتیں وہاں نہ تهیں، ورنہ تو طوفان ہی آ جانا تها-
” تم بیچ میں مت بولوحسن! میں آغا جان سے بات کر رہا ہوں-”
” اور میں تمہاری باتوں کے مطلب اچهی طرح سمجهتا ہوں-” حسن نے ایک کٹیلی نگاه محمل پہ ڈالی- ” مجهے اچهی طرح پتہ ہے کہ یہاں کیا چکر چل رہا ہے-”
“شٹ اپ!” فواد بهڑک –
” شٹ اپ یو بوتھ!” فواد بهڑک اٹها تو آغاجان نے دونوں کو ہی جهڑک دیا- حسن تم جاو اپنے کمرے میں -” اور وہ فورا اٹھ کر وہاں سے نکل گیا-
” اور فادی، حسن ٹهیک کہہ رہا ہے- محمل کا آفس سے کوئی تعلق نہیں ہے- نہ ہی وہ کبهی آفس جائے گی-”
” مگر آغاجان…….”
” آغا بهائی ٹهیک کہہ رہے ہیں- محمل کا آفس میں کیا کام؟”
جاری ہے