تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
کہاں سے آرہی ہو؟”
وہ جو اپنے خیال میں گم تهی، آواز پہ گهبرا کر دو قدم پیچهے ہٹی-
سامنےتائی مہتاب قدرے مشکوک نظروں سے اسے ديکھ رہی تهیں-
” وہ….. وہ تائی، وہ-” اس نے بے اختیار خشک لبوں پہ زبان پهیری” وہ نادیہ سے کچھ نوٹس لینے تهے، ذرا اسٹاپ تک گئی تهی- اماں کو بتا کر گئی تهی-”
” ماں تمہاری ماں تو کہیں کی لینڈ لیڈی ہے، جس کی اجازت کافی تهی-”
” وہ، وہ تائی…… چچا، اسد کو بهی…. بتایا تها-” پہلی دفعہ وہ تائی کے سامنے اس طرح هکلا رہی تهی-
” اچها جا ؤ، سر نہ کها ؤ-” تائی بےزاری سے ہاتھ جهلا کر آگے بڑه گئیں-
وہ کمرے کی طرف لپکی، اور جلدی سے الماری کهول کر ایک خانے میں سارے کپڑوں کے نیچے وہ دبیز سیاه کتاب چهپا دی پهر الماری احتیاط سے بند کی ادهر ادهر دیکها- صد شکر کسی نے نہیں دیکها تها-
” محمل-” باہر اماں نے پکارا تو وہ جلدی سے چہرے پہ آیا پسینہ پونچهتی باہر آئی-
” جی؟”
مسرت جو کچن میں سارے گهر کے ناشتے بنانے میں مصروف تهیں، پین میں انڈہ پلٹتے ہوئے مڑ کر اسے دیکها-
” تم تو کالج گئیں تهیں،،اتنی جلدی واپس آ گئیں؟”
” جی بس-”
” خیریت؟”
” اوہو! آج سب کو میری فکر کیوں پڑ گئی ہے؟ نادیہ سے نوٹس لینے تهے، مل گئے تو آ گئی-” وہ خوامخواہ ہی چڑ گئی، پهر ادهر ادهر برتنوں میں ہاتھ مارتی بظاہر کچھ تلاش کرنے لگی-
” میں تو ایسے ہی پوچھ رہی تهی- اچها ناشتہ کر لو-”
” نہیں بهوک نہیں ہے-” وہ بس منظر سے ہٹنا چاہتی تهی، سو اتنا کہہ کر باہر لاونج میں آ گئی- ذہن ابهی تک الماری میں کپڑوں کے پیچهے چهپی کتاب میں اٹکا ہوا تها- پهر گهر کے کام کاج، صفائی اور اس کے بعد مسرت کے ساتھ مشین لگائے وہ میکانکی انداز میں خاموشی سے کام کرتی رہی، مسلسل اس کا دل پلٹ پلٹ کر اس کتاب کی طرف جاتا تها- وہ چند بار اندر آئی اور الماری کهول کر کپڑوں کے پیچهے ہاتھ تهپتهپا کر دیکها-
وہ سیاہ کتاب وہیں رکهی تهی-
پهر سارا دن وہ موقع ڈهونڈتی رہی کہ آسے جا کر پڑهے، کچھ تو پتہ چلے- کوئی راہ تو نکلے، مگر کاموں کا بوجھ اور کچھ فطری خوف تها کہ وہ اس کتاب کو کهولنے کی ہمت نہ کر سکی-
رات کهانے کے بعد اس نے جب سب کو ڈائننگ ہال میں سویٹ ڈش میں مصروف پایا، تو بالآخر الماری سے وہ بهاری کتاب نکالی اور اسے سینے سے لگائے دبے پاوں سیڑهیاں اوپر چڑهتی گئی-
ڈائننگ ہال سے براستہ لاونج کچن کی طرف جاتی تائی مہتاب نے چونک کر اسے آخری سیڑهی پهلانگتے دیکها-
” یہ محمل کیا کرتی پهر رہی ہے آج؟” انہوں نے پیچهے سے آتی نوعمہ چچی کو روک کر سرگوشی میں پوچها- ” ابهی کوئی کتاب پکڑے اوپر گئی ہے-”
” اچها؟” وہ متجسس سی تائی کے قریب آئیں- ” پڑهائی وڑهائی تو اب ختم ہے اور چهت پہ تو کبهی نہیں گئی پڑهنے، ضرور دال میں کچھ کالا ہے-”
اور انکی سرگوشیوں سے بےخبر، وہ باہر ٹیرس پہ نکل آئی، آہستہ سے دروازہ بند کیا اور ریلنگ کے ساتھ نیچے زمین پہ بيٹھ گئی- کتاب گهٹنوں پہ رکهے وہ کتنی ہی دیر اسے دیکهتی رہی-
محرومیوں ، نارسائیوں اور دکهوں کے اس کئی برس پرانے کرب کی اب جیسے انتہا ہو چکی تهی- اس سے اب مزید برداشت نہیں ہوتا تها- غلط ہو یا صحیح، وہ زندگی سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گی-
ایک ٹهوس اور قطعی فیصلہ کر کے محمل ابراہیم نے کتاب کی سیاہ جلد پہ ہا تھ رکها- وہ بےحد سرد تهی- ٹهنڈی اور پرسکون- وہ جلد پلٹنے ہی لگی تهی کہ ایک دم ٹیرس کا دروازہ کهلا-
اس نے گهبرا کر سر اٹهایا، اور ایک لمحے کو تو زمین آسمان اس کی نگاہوں کے سامنے گهومنے لگے-
آغا جان، دونوں چچا، تائی مہتاب، ناعمہ چچی اور لڑکیاں اور مسرت بهی…… سب ایک ساتھ باہر آئے تهے-
” یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟” آغا جان غصے سے غرائے تهے-” محمل کیا کر رہی ہو ادهر؟” وہ ہکا بکا منہ کهولے انہیں دیکهتی رہ گئی-
” ادهر کیا بیٹهی ہو، سامنے آو-” تائی مہتاب چمک کر بولیں’اور اس کی تو جیسے ٹانگوں میں جان ہی نہ رہی تهی-
بمشکل اٹهی اور دو قدم آگے بڑهی- کتاب اسی طرح دونوں ہاتهوں میں پکڑی تهی اور پورا جسم لرز رہا تها-
” وہ……آغاجان…..میں-”
” میں پوچھ رہا ہوں، اتنی رات کو ادهر کیا کر رہی ہو؟”
“مم ….. میں پڑهھ، رہی…..” لفظ لبوں پہ ہی دم توڑ گئے، اس کی ٹانگیں کانپنے لگی تهیں-
” کیا پڑھ رہی ہو؟ ادهر دکها ؤ-” آغاجان کے لہجے کی سختی کم نہیں ہوئی تهی- انہوں نے کتاب لینے کو ہاتھ بڑهایا تو وہ بدک کر پیچهے ہٹی-
” کک……کک کچھ نہیں، کچھ نہیں-” اس نے کتاب پیچهے کرنی چاہی اور پهر اس نے دیکها، آغاجان کے پیچهے کهڑی مسرت کی آنکهوں میں آنسو تهے- اور تائی وہ فاتحانہ مسکرائی تهیں-
” ارے ہم بهی تو دیکهیں، بهری رات میں ادهر کون سی کتابوں میں چهپا کر خط و کتابت ہو رہی ہے، میں تو پہلے ہی کہتی تهی، یہ لڑکی کوئی چاند ضرور چڑهائے گی-” اس کے اردگرد جیسے دهماکے ہو رہے تهے-
“نہیں…..تائی…..نہیں-” وہ پهٹی پهٹی نگاہوں سے انہیں دیکهتی نفی میں سر ہلا رہی تهی- ” میں نے کچھ نہیں کیا،میں تو….”
آغاجان نے زور سے اس کے ہاتهوں سے کتاب چهینی- ” پڑھ رہی تهیں تو دکهاتی کیوں نہیں ہو؟” ایک غصیلی نظر اس پہ ڈال کر انہوں نے کتاب اپنے سامنے کی-
” میں بهی کہوں کیوں راتوں کو چهت پہ آجاتی ہے، کس کے ساته منہ کالا کرتی ہے، یہ زبان جو اتنی لمبی ہو رہی ہے، ارے میں بهی کہوں کوئی تو ہے، اس کے پیچهے آغاصاحب، اس سے کہیے کہ جس مردود کے لیے چٹهیاں ڈالنے ادهر آتی ہے، اسے کہے کہ ابهی آئے اور دو بول پڑها کر اسے لے جائے- خاندان بهر میں بدنام کرے گی ہمیں کیا-”
اور اسے لگا آج وہ واقعتا ہار گئی ہے- آغاجان کتاب کے صفحے پلٹ رہے تهے…. ہر پلٹے صفحے کے ساتھ اس کا دل ڈوبتا جا رہا تها- اس نے سر جهکا کر آنکهیں سختی سے میچ لیں- آج وہ اسے یقینا قتل کر ڈالیں گے- وہ سفلی عملیات میں پڑگئی ہے- کبهی نہیں بخشیں گے-
” شرم نہیں آتی تمہیں، گهٹیا عورت-” آغاجان ایک دم دهاڑے تو اس کی رہی سہی جان بهی نکل گئی- اسے لگا وہ لہرا کر گرنے کو ہے جب………
” میں….. میں نے کیا کیا ہے؟” تائی کی ہکلاتی آواز نکلی-
محمل نے جیسے کسی خواب سے جاگ کر سر اٹهایا-
وہ کهلی کتاب ہاتھ میں پکڑے محمل سے نہیں، تا ئی سے مخاطب تهے-
” تمہیں شرم آنی چاہیے، اس یتیم بچی پہ الزام لگا کر ہم سب کو اکٹها کرکے؟ ڈوب مرو تم ایسے الفاظ کہنے سے پہلے، وہ اب چهت پہ پڑھ بهی نہیں سکتی؟”
محمل نے پلکیں زور سے جهپکائیں یہ آغا جان کیا کہہ رہے تهے-
” مگر آغاصاحب، وہ اس کتاب میں……”
” ڈوب مرو تم بےدین عورت! وہ قرآن پڑھ رہی تهی، تم قرآن کی حرمت کا تو پاس رکھ ليتيں -” انہوں نے سیاه فام کتاب بند کی، اسے چوما، آنکهوں سے لگایا اور محمل کی طرف بڑها دیا-
” بیٹا نیچے پڑھ لیتیں تو سب پریشان نہ ہوتے – یہ لو؛” وہ اسے کتاب تهما کر، ایک کٹیلی نگاہ ان عورتوں پہ ڈال کر واپس ہو لیے-
” نہبں تو اب چوروں کی طرح پڑهے گی تو بندہ شک تو کرے گا ہی، ورنہ میرا کیا دماغ خراب ہے کہ یوں کہتی-” تائی شرمندہ سی پلٹیں-
آغاجان کبهی کبهار انہیں یونہی سب کے سامنے جهڑک دیا کرتے تهے، خصوصا جب وہ اپنے رشتے داروں پہ بےدریغ پیسے لٹاتی تهیں-
” اور نہیں تو کیا-” آہستہ آہستہ سب نادم سے پلٹ گئے-. وہ اسی طرح ساکت سی ہاتھ میں کتاب لیے کهڑی تهی- ٹیرس خالی ہو چکا تها- سب جا چکے تهے- پرسکون اور سرخرو’ مسرت بهی اور وہ اسی طرح پتهر کا بت بنے وہاں کهڑی تهی-
” اس کتاب کا ہر صفحہ تمہارے گزرے دن کی روداد ہے-”
” یہ کتاب کبهی پرانی نہیں ہوگی-”
” تم سب کو اپنی مٹهی میں کر کے دنیا پہ راج کرو-‘
اس سیاه فام لڑکی کا ایک ایک فقرہ طمانچے کی طرح اس کے منہ پر برس رہا تها-
تڑاخ…. تڑاخ…. تڑاخ-
اسے لگا، وہ کبهی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گی، یونہی اس اندهیرے ٹیرس پی کهڑی رہے گی- دهوکہ….. مزاق. . فریب…. تمسخر قرآن کی بےحرمتی…. ” اس سیاه فام لڑکی نے کیا نہیں کہا تها- اتنا برا مذاق؟ ایک پریشان حال لڑکی کو سبز خواب دکها کر اسے اسی کی مقدس کتاب پکڑا دی؟ یہ ہوا کیا تها اس کے ساتھ ؟
اس کے ہاتھ ابهی تک لرز رہے تهے- نہایت بےیقینی کے عالم میں اس نے سیاه جلد والی کتاب کو چہرے کے سامنے کیا-
سیاه جلد صاف تهی- بے داغ، بےکفظ-
اس نے درمیان سے کتاب کهولی-
اوپر عربی کی عبارتیں تهیں اور نیچے انگریزی کی- سب سے اوپر لکها تها-
الکہف…… The Cave
اس نے چند صفحے آگے کهولے-
العنکبوت……The Spider-
اس نے شروع سے دیکها-
المائدہ…… The Table Spread-
محمل نے کتاب بند کر دی-
آغاجان نے ٹهیک کہا تها – وہ قرآن تھا- ان کی مذہبی کتاب،مقدس کتاب اور اس فرنگن نے کیسے کیسے قصے گهڑ دیے تهے اس کے ساتھ –
” ذلیل عورت!” وہ شاک سے نکلی تو بےپناه غصہ آیا -وہ لڑکی تو اپنے گهر بیٹهی اس پہ ہنس رہی ہو گی، اس کا تمسخر اڑا رہی ہو گی اور وہ بهی کتنی جلدی بےوقوف بن گئی- اف!
وہ تیز تیز قدموں سے سیڑهیوں کی طرف لپکی-
” نہ سر پہ ڈوپٹہ، نہ وضو نماز، اور چلے ہیں قرآن پڑهنے- ہونہہ-” لاونج کے بڑے صوفے پہ بیٹهی تائی اسے زینہ اترتے ديکھ کر اونچا بڑبڑائی تهیں- بڑے عرصے بعد آغاجان نے انہیں سب کے سامنے بےعزت کیا تها اور وہ بهی صرف اور صرف محمل کی وجہ سے انہیں اب کسی طرح تو غصہ اتارنا تطا- مگر محمل کوئی بهی جواب دیے بغیر سر جهکائے تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑه گئی-
صبح وہ پهر جلدی آگئی تهی-
سیاه فام لڑکی آج بہت پہلے سے اس بنچ پہ بیٹهی تهی، اسے ديکھ کر محمل کے قدم تیز ہوگئے-
قدموں کی چاپ پہ ہی اس نے سر اٹهایا محمل نے دیکها، اسے ديکھ کر اس کی سیاه آنکهوں میں امید کے دیے جل اٹهے تهے-
سڑک خالی تهی- دور نارنجی سورج طلوع ہو رہا تها- محمل اس کے بالکل سامنے آ کهڑی ہوئی- سورج کی نارنجی شعائیں اس کے پیچهے چهپ گئیں-
” تمہیں شرم تو نہیں آئی ہوگی میرے ساتھ ایسا بیہودہ مزاق کرتے ہوئے؟”
سیاه فام لڑکی کی نگاہیں اس کے ہاتهوں میں پکڑی کتاب پہ جهکیں- ایک دم ہی اس کی آنکهوں کی جوت بجھ گئی-
” مصحف واپس کرنے آئی ہو؟”
” مصحف؟” اکهڑی اکهڑی سی محمل نے ابرو اٹهایی-
” ہم ایرب ورلڈ( عرب دنیا) میں قرآن کو مصحف کہتے ہیں-”
” تم نے مجهے کیا قصے کہانیاں سنا کر قرآن تهما دیا- یہ کوئی مذاق کرنے کی کتاب تو نہ تهی- یہ تو قرآن تها-”
” قرآن نہیں قرآن( پیش کے ساتھ) ہوتا ہے-” وہ اداسی سے مسکرائی تو محمل نے شانے ااچکائے-
” بہر حال تمہیں یہ پریٹیکل جوک کر کے مجهے شرمندہ کرنے پہ شرم آنی چاہئے- میں تو کیا سوچ رہی تهی اور تم نے مجهے ایک مقدس کتاب تهما دی؟”
“تو تم کسی غیر مقدس چیز کی توقع کر رہی تهیں کیا؟”
” جی نہیں-” وہ تلملائی، پهر قرآن اس کی گود میں رکها- ” یہ میرے پاس پہلے سے ہے، مجهے ضرورت نہیں ہے-”
” بيٹھ کر بات کرلو-”
” میں ٹهیک ہوں-” وہ اسی طرح سینے پہ ہاتھ باندهے اکهڑی اکهڑی سی کهڑی رہی-
” اچها-” اس نے نرمی سے مصحف کی سیاہ جلد پہ ہاتھ پهیرا- “تو تم نے یہ پڑھ رکها ہے؟” اس کی آواز میں صبح کی ساری اداسی سمو گئی تهی-
” ہاں اور بچپن میں ہی پڑھ لیا تطا- اللہ کا شکر ہے کہ ہم شروع سے ہی مسلمان ہیں-” وہ عادتا جتا کر بولی-
” اور تمہاری مقدس کتاب کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں، یہ کوئی فال نکالنے والی کتاب نہیں ہے، نہ ہی اس میں میری یا تمهاری سٹوری ہے- لاحول ولا قوت-”
” اچها-” وہ ذرا سا مسکرائی- ” چلو پهر بیٹهو اور مجهے بتاو کہ اس میں کیا ہے-”
” اس میں احکامات ہیں، نماز ، روزے، حج ، زکوۃ کے-” وہ اس کے ساته بنچ پہ بيٹھ کر اسے بہت سمجھ داری سے بتانے لگی- ” اس میں پرانی قوموں کے قصے ہیں، قوم عاد، نمود اور بنی اسرائیل-”
” یہ بنی اسرائیل کا کیا مطلب ہوتا ہے؟”
” مطلب؟” وہ ہلکا سا گڑبڑائی- ” بنی اسرائیل کا مطلب ہوا، اسرائیل کے بیٹے؟” وہ پوچھ رہی تهی، یا بتا رہی تهی، خود بهی نہ سمجھ سکی-
” اسرائیل کا مطلب عبداللہ ہوتا ہے- ایل اللہ کو کہتے ہیں – یہ یعقوب کا نام تها-”
” آں ہاں حضرت یعقوب ع کا قصہ حضرت یوسف ع کا قصہ، سب پڑھ رکها ہے میں نے، سب پتہ ھے مجهے- ہمیں تو کورس میں پڑهایا گیا تها یوسف ع اور زلیخا والا قصہ-”
” یوسف ع اور کس والا قصہ-”
” عزیز مصر کی بیوی کا نام زلیخا تها؟”
” کیا نہیں تها؟” وہ کنفیوز ہو گئی-
” کوئی دلیل ہے تمہارے؟ پاس کوئی حجت؟”
جاری ہے