مصحف  قسط   نمبر 22 ۔  

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد

گهر میں اگلے کئی روز تک خاموشی چهائی رہی- بس ایک حسن تها جو ہر دم ، ہر ایک کے سامنے اسکا دفاع کرتا نظر آتا تها-
” اگر محمل کی جگہ آرزو ہوتی تو بهی آپ یہی کہتیں چچی؟” ناعمہ کی کسی بات پہ بهڑک کر بولا، تو وہ جو سر منہ لپیٹ کر اندر پڑی تهی، جهٹکے سے اٹهی اور تیزی سے باہر آئی-
” آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ہر کسی کے سامنے میری صفائی دینے کی- وہ لاونج میں آ کر ایک دم چلائی تو سب چونک کر اسے دیکهنے لگے-
” مگر محمل!”
” اگر ان لوگوں نے مجهے یونہی سارے خاندان ميں  ذلیل کرنا ہے تو ٹهیک ہے- اگر عزت ایک دفعہ چلی گئی تو میں کس عزت کو بچانے کے لیے کورٹ میں چپ رہونگی؟ میں بهری عدالت میں سارے شہر کو بتاؤنگی- سن لیں آپ سب-”
اپنے پیچهے دهاڑ سے دروازہ بند کر کے اس نے پهر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا-
اندر مسرت بستر کی چادر درست کر رہی تهیں – اسے آتے ديکھ  کر لمحے بهر کو سر اٹهایا، پهر واپس کام میں مصروف ہو گئیں-
” آپ بهی مجھ  سے ناراض ہیں امآں؟” مسرت خاموشی سے تکیے پہ غلاف چڑهاتی رہیں-
” اماں!” اس کی آنکهوں کے گوشے بهیگنے لگے- وہ تکیے درست کر کے دروازے کی طرف بڑهیں-
” میں نے کیا کیا ہے اماں؟” وہ رو پڑی-
دروازے کی طرف بڑهتی مسرت نے گردن موڑی-
” تم نے اچها نہیں کیا محمل!” بہت دنوں بعد وہ اس سے بولی تهیں-
” اماں-” وہ تڑپ کر ان کے پاس آئی- فواد بهائی نے مجهے فنکشن کا کہہ کر ……”
” مجهے پتا ہے-”
” پتہ ہے ، مگر یقین نہیں ہے؟”
“ہے”
” پهر بات کیوں نہیں کرتیں مجھ  سے؟”
” میں برسوں انکی خدمت کرتی رہی کہ شاید کبهی یہ ہمیں عزت دیں، مگر میری بیٹی ان ہی کے بیٹے کو پکڑوا کر اس کے خلاف کورٹ کچہری ميں گواہی دیتی پهرے- پہلے زندگی کم مشکل تهی محمل جو تم نے مزید مشکل بنا دی ہے-” وہ تهکی تهکی سی پلٹ گئیں-
وہ نم آنکهوں سے انہیں جاتے ہوئے دیکهتی رہی- ایک غلط قدم اسے یہاں لا پہنچائے گا، اس نے کبهی سوچابهی نہ تها-
پهر کتنے ہی دن وہ ماتم کرتی رہی، اس کے پاس رونے کو بہت کچھ  تها- پهر کئی دنوں بعد اسے عبایا یااسکارف اور مردانہ شلوارقمیص کا خیال آیا تو دونوں کو الگ الگ شاپرز میں ڈال کر فرشتے کو واپس کرنے نکلی-
” کوئی ضرورت نہیں ہے ہمایوں داؤد کے منہ لگنے کی، فرشتے کو دے دوں گی ، وہی آگے پہنچا دے گی-” اس نے سوچا تها-
بس سٹاپ کا بنچ اب ویران ہوتا تها- وہ سیاہ فام لڑکی مڑ کر واپس کبهی نہ آئی تهی- جانے کون تهی کہاں چلی گئی- وہ اکثر سوچتی رہ جاتی-
بس سے اتر کر اس نے سڑک پہ کهڑے، گردن اونچی کر کے دیکها- وہ دونوں عمارتیں ساتھ  ساتھ  تهیں-
ہمایوں داؤد کا بنگلہ سبز بیلوں سے ڈهکا تها، اور ساتھ  موجود اونچے ستونوں والی سفید عمارت کوئی انسٹیٹیوٹ تها شاید-
” کوئی ضرورت نہیں ہے اس فضول انسان کا دروازہ کهٹکهٹانے کی- میں مسجد میں ہی چلی جاتی ہوں- ” وہ مسجد کے سیاه گیٹ کے سامنے آئی- گیٹ کا سیاه لوہا چمک رہا تها اسے اس چمکتے لوہے میں اپنا عکس دکهائی دیا-
بلیو جینز کے اوپر گهٹنوں تک آتاکرتا، گردن سے لپٹا دوپٹہ، اونچی بهوری پونی ٹیل باندهے، ماتهے پہ بل ڈالے وہ اپنے مخصوص حلیے میں تهی-
گیٹ کے اس طرف ایک بورڈ لگا تها جس کو وہ پہلے نہ ديکھ  سکی تهی- اس پہ واضح لکها تها-
” No Men Allowed” ( مردوں کا داخلہ ممنوع ہے)
ساتھ  باوردی گارڈ بیٹها تها- اس نے گہری سانس لے کر اندر قدم رکها-
بڑا سا سرسبز لان- سامنے سفید سنگ مر مر کا چمکتا برآمدہ- برآمدے کے کونے میں ریسیپشن ڈیسک کے پیچهے کهڑی لڑکی، جو سیاہ عبایا کے اوپر سرمئی اسکارف میں ملبوس ، فون کان سے لگائے محو گفتگو تهی-
سامنے سے سفید شلوار قمیص میں ملبوس ايک  لڑکی  چلی آ رہی تهی- اس نے عنابی اسکارف لے رکها تها- جیسے یونیفارم ہو- محمل کے قرین سے گزرتے اس نے مسکرا کر” السلام علیکم” کہا-
” جی؟” وہ چونکی- وہ لڑکی مسکرا کر اس کے پاس سے گزر کر چلی گئی-
” ہیں؟ اس نے مجهے سلام کیوں کیا؟ کیا یہ مجهے جانتی ہے؟” وہ الجھ  ہی رہی تهی کہ ریسیپشنسٹ کی آواز آئی-
” السلام علیکم- کین آئی ہیلپ یو؟”
“جی- مجهے فرشتے سے ملنا ہے-” وہ ڈیسک کے قریب آئی-
” فرشتے باجی کلاس میں ہوں گی – اندر کاریڈور میں رائٹ پہ فرسٹ ڈور-
“اچها-”
وہ ادهر ادهر دیکهتی سنگ مر مر کے چمکتے فرش پہ چلتی جا رہی تهی- کاریڈور میں  کهلے دروازے پہ وہ رکی- اندرسے فرشتے کی مضبوط مگر خوبصورت آواز آ رہی تهی-
“مرتین سے مراد بنی اسرائیل میں ہونے والا دو مرتبہ کا فساد ہے- مفسر کے مطابق پہلی دفعہ سے مراد زکريا  کا قتل ، جبکہ دوسری دفعہ سے عیسی کے قتل کی سازش مراد ہے-”
اس نے کهلے دروازے سے اندر گردن کی- سامنے بنے پلیٹ فارم پہ کرسی پہ وہ بیٹهی اپنے آگے میز پہ کتاب کهولے مصروف سی پڑها رہی تهی- اس کے سامنے قطار در قطار لڑکیاں کرسیوں پہ بیٹهی تهیں- عنابی اسکارف میں لپٹے بہت سے جهکے سر اور تیزی سے لکهتے قلم- وہ واپس پلٹ گئی-
برآمدے میں ریسیپشن ڈیسک کے سامنے دیوار سے لگے کاوچ پہ بيٹھ  کر وقت کاٹنااسے بہتر لگا، سو کتنی ہی دیر وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے بیٹهی، پاوں جهلاتی چیونگم چباتے ہوئے تنقیدی نگاہوں سے ارد گرد گزرتی لڑکیوں کا جائزہ لیتی رہی-
وہاں ایک منظم سی چہل پہل ہمہ وقت ہو رہی تهی- وہ جیسے کوئی اور ہی دنیا تهی- یونیفارم میں ملبوس ادهر ادهر تیزی سے آتی جاتی لڑکیاں- وہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تهیں- اسٹوڈنٹس کی سفید شلوار قمیص اور اوپر کسی رنگ کا اسکارف تها-جبکہ تمام ٹیچرز اور آفیشلز کے سیاه عبایے اور سرمئی اسکارف تهے- ان کے عبایا اور اسکارف لینے کا انداز بہت نفیس تها- بہت پراعتماد ،ایکٹو اور مصروف سی لڑکیاں- جیسے وہ الگ سی دنیا وہ لڑکیاں ہی چلا رہی تهیں- کچھ  تها اس مسجد میں جو محمل کو کہیں اور نظر نہیں آیا تها-
” السلام علیکم- اگر آپ بور ہو رہی ہیں تو سکا مطالعہ کر لیں-
“شیور-” اس نے شانے اچکا کر ریسیپشنسٹ کئ ہاتھ  سے وہ دبیز کتاب لے لی-
چند صفحے پلٹتے ہی اسے وہ شام یاد آ گئی جب آغاجان نے ٹیرس پہ اس سے وہ سیاه جلد والا مصحف چهینا تها-
وہ قرآن کی سادہ ٹرانسلیشن تهی-
وہ یونہی درمیان سے کهول کر پڑهنے لگی-
” اور اس نے ہی غنی کیا اور مالدار بنایا ہے- اور وہی ہے جو شعری ( ستارے) کا رب ہے اور بلاشبہ اس نے ہی پہلی قوم عاد کو ہلاک کیا اور قوم ثمود کو بهی- پهر کچھ  باقی نہ چهوڑا اور ان سے پہلے قوم لوط کو بهی- بلا شبہ یہ سب انتہائی ظالم و سرکش لوگ تهے- اور اسی نے پلٹا الٹی ہوئی بستیوں کو – پهر ان پر چها گیا جو چهانا تها- تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں پہ جهگڑو گے؟ یہ تو  تنبیہہ تهی پہلی تنبیہات میں سے- آنے والی قریب آ گئی- اللہ کے علاوہ اسے کوئی ظاہر کرنے والا نہیں تو کیا تم اس قرآن سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو، روتے نہیں اور تم کهیل تماشہ کر رہے ہو؟”
“محمل؟ ارے…..!”
وہ جو بالکل کهو کر پڑهتے جا رہی تهی، بری طرح چونکی-
فرشتے سامنے کهڑی تهی-
اس نے قرآن بند کیا اور میز پہ رکھ  کر کهڑی ہوئی-
” السلام علیکم- کیسی ہو؟” فرشتے اس کے گلے لگ کر الگ ہوئی اور اسے شانوں سے تهام کر مسکرا کر دیکها- وہ محمل سے دو انچ لمبی تهی- شفاف سپید چہرہ سرمئی اسکارف میں مقید، اور وہ کانچ سی بهوری آنکهیں جو کسی اے بہت ملتی تهیں-
” ٹهیک، آپ کیسی ہیں؟”
” الحمدللہ- اتنے دنوں بعد تمہیں ديکھ  رہی ہوں ، گهر میں سب ٹهیک ہیں؟”
” جی-” اس نے نگاہیں جهکائیں اور بہت سی نمی اپنے اندر اتاری-
” چلو کوئی بات نہیں، سب ٹهیک ہو جائے گا-”
” آپ کی چیزیں تهیں میرے پاس-” اس نے شاپر اوپر کیا-
” میں سمجهی ، تم میرے کیے کوئی گفٹ لائی ہو-” وہ ہنسی اور شاپر لے لیا- کوجی تکلف نہیں، بہت خالص سا انداز- سچا اور خالص-
“لیکن آگر تم یہ رکهنا چاہو تو……”
” نہیں ، میں یہ عبایا وغیرہ نہیں لیتی-”
” نو پرابلم دین…. بہت شکریہ-” وہ خوش دلی سے مسکرائی تو محمل کو اچها لگا-
بہت مذہبی لوگ عموما اتنے سنجیدہ اور سخت نظر آتے ہیں کہ جیسے ایک وہی نیک مومن ہوں اور باقی سب گناهگار کافر- اسے ایسے لوگوں سے شدید چڑ ہوتی تهی جن کے سامنے اسے لگے کہ یہ مجهے بہت گناهگار سمجھ  رہا ہے- مگر فرشتے اور اس کی مسجد کی لڑکیاں اس روایتی امیج سے بہت مختلف تهیں-
” یہ ان کا ہے-” اس نے دوسرا شاپر سامنے کیا-
“ہمایوں کا؟”
“جی-”
” اچها، ہمایوں کبهی شہر میں ہوتا ہے ، کبهی نہیں- میرا اس سے ایز سچ کونٹیکٹ نہیں رہتا- میں بهول بهی جاتی ہوں بہت- اگر تم یہ اس کے چوکیدار کو دے دو، تو وہ پہنچا دے گا-”
” فرشتے! انہوں نے آپ کو اپنی اور فواد بهائی کی ڈیل کے بارے میں بتایا تها؟”
” ڈیل نہیں، وہ دراصل آغا فواد سے بہت تنگ تها اور اسے اس کی گینگ کی کسی لڑکی کے ذریعے پکڑنا چاہتا تها-”
” وہ گینگ کی لڑکی کی توقع کر رہے تهے تو آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں ان کی کزن ہوں؟”
” تم نے خود بتایا تها جب ہم پرئیر ہال میں تہجد پڑھ  رہے تهے-”
” اوہ!” کئی دن کی الجهن سلجھ  گئی- ” میں تو گینگ کی لڑکی نہیں تهی، پهر انهوں نے فواد بهائی کو کیسے اریسٹ کر لیا؟”
” یہ تو تم ہمایوں سے پوچهنا- میری تو عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی-”
” ٹهیک- دو بجنے کو ہیں فرشتے! میں پهر آؤنگی-” اور وہ سوچ رہی تهی کہ اس ہمایوں سے زیادہ رابطہ نہیں رہتا مگر اسے فواد کے کیس کی ہر بات معلوم تهی- عجیب بات تهی-
” اور میں دعا کرونگی کہ تم کبهی ہمارے ساتھ  آ کر قرآن پڑهو-”
” معلوم نہیں- شاید میں کچھ  عرصے تک انگلینڈ چلی جاوں-”
” اوہ-” فرشتے کے چہرے پہ سایہ سا لہرایا-
” آپ کی مسجد میں قرآن پڑهاتے ہیں؟”
” ہاں….. دراصل یہ ایک اسلامک اسکول ہے-”
” ہوں ، میں چلتی ہوں-” وہ اسے لان تک چهوڑنے آئی-
” تمہیں کبهی کسی نے اس کتاب کی طرف نہیں بلایا محمل؟” جاتے سمے اس نے پوچها تو اس کے بڑهتے قدم رک گئے-
یادوں کے پردے پہ ایک سیاہ فام چہرہ لہرایا تها-
“بلایا تها، مگر میں نے دل کا انتخاب کیا اور میں خوش تهی- اس نے کہا تها یہ کتاب سحر کر دیتی ہے، اور مجهے مسحور ہونے سے ڈر لگتا ہے-”
” کتاب سحر نہیں کرتی، پڑهنے والا خود سحر زدہ سا محسوس کرتا ہے-”
” ان دونوں میں کیا فرق ہے؟”
” بہت ہے- لفظوں کو الگ الگ پرکهنا سیکهو، ورنہ زندگی سمجھ نہیں آئے گی-”
جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں