تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
ہاں تو کرتی تو ہیں –
” ہاں ٹهیک ہے -” آغاجان نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی – جوان بیٹا جو ان سے اونچا تها ، اسکی بات کے آگے انہیں اپنی بات کمزور لگ رہی تهی – مہتاب تائی پہلو بدل کر رہ گئیں ….. ناعمہ چچی زیرلب کچھ بڑبڑائیں اور تو اور فضہ چچی بهی کچھ خاموش سی ہو گئی تهیں- لڑکیاں الگ شرمندہ –
وہ اطمینان سے فواد کے اٹهنے سے قبل ہی اٹھ گئی تهی – مسرت کو برتن اٹهاتے پہلے تو علم ہی نہ ہو سکا کہ کیا ہوا ہے اور جب ہوا تو معافی تلافی کرنے لگیں، اندر آ کر محمل کو بهی ڈانٹا مگر وہ پرواہ کیے بغیر کتابوں میں سر دے کے بیٹهی رہی- فواد کے اٹهنے کے بعد یقینا تائی نے بہت سنائی تهیں ‘ مگر فواد کے الفاظ کا اثر زائل نہیں کر سکتی تهیں – اس کی گهر میں ایک مضبوط حیثیت تهی اور پہلی دفعہ کسی مضبوط حیثیت والے نے محمل اور مسرت کی طرف داری کی تهی – سو بہت سی خواتین رات کو کڑهتے ہوئے سوئی تهیں –
صبح کالج بس کے لیے وہ اسٹاپ پہ رکهے بنچ کی طرف آئی تو ذہن ابهی تک ادهر ہی الجها تها- بنچ پہ بیٹهتے ہوئے اس نے سرسری سا دیکها. وہ سیاہ فام لڑکی اسی طرح بیٹهی تهی . گود میں رکهی کتاب کے کناروں پہ مضبوطی سے ہاتھ جمائے خاموشی سے سامنے ديکھ رہی تهی –
وہ جمائی روکتی بيٹھ ہی گئی ‘ اور بےدلی سے بس کا انتظار کرنے لگی . اس نے وہی کل والا اجرک کا کرتا جینز کے اوپر پہن رکها تها اور بال اونچی پونی میں بندهے تهے . سوچ وہیں فواد کے اردگرد گهوم رہی تهی – صبح وہ جلدی نکلتی تهی، تب تک وہ نیچے نہیں آیا ہوتا تها- اسکا کمرہ دوسری منزل پہ تها جو تهی تو غفران چچا، فضہ چچی کی آماجگاہ ، مگر وہ کنارے والا کمرہ فواد کا پسندیدہ تها، سو وہ اسکو عرصہ پہلے الاٹ کر دیا گیا تها. فضہ چچی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا حسن هی تهے ، سو وہ کمرہ انکی ضرورت سے زائد ہی تها. اور یہ تو محمل کا دل ہی جانتا تها کہ وہ کمرہ تو ابا نے بنوایا ہی اس کے لیے تها مگر…..-
سیاه فام لڑکی اسی خاموشی سے سامنے ديکھ رہی تهی . وہ بور ہونے لگی تو ادهر ادهر گردن گهمائی. سیاہ کتاب ديکھ کر کل کا واقعہ یاد آیا.
” یہ کتاب کب ملی تهی آپکو ؟” بغیر تمہید کے اچانک سوال – اس لڑکی نے اطمینان سے گردن اس کی طرف موڑی –
” دو سال پہلے -”
” یہ کس نے آپ کے لیے خصوصا چهوڑی تهی ؟”
“ہے کوئی-” وہ ذرا سامسکرائی ، موٹی آنکهوں کی چمک بڑه گئی –
” آپکو اچها لگتا ہے وہ ؟” اس نے غور سے اس چمک کو دیکها –
” بہت زیادہ-”
” آپ اسے کیسے جانتی تهیں ؟ میرا مطلب ہے یہ تو صدیوں پرانی کتاب ہے -”
” بس میں جانتی ہوں -”
” اور یہ کتاب…. یہ آپکو آپکا ماضی،حال،اور مستقبل کیسے دکهاتی ہے ؟”
” اس میں سب لکها ہے،گزرے واقعات اور وہ جو میرے ساتھ پیش آنے والا ہے اور مجهے ایسے موقع پہ کیا کرنا ہے سب لکها ہے -”
محمل کا دل زور سے دهڑکا – وہ سیاہ فام لڑکی اسے بہت عجیب بات بتا رہی تهی-جانے کیسی پراسرار بهید بهری کتاب تهی وہ-
” آپکو اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟”
“جتنا تمهاری سوچ سے بهی اوپر ہے-”
” تو آپ کے تو بہت مزے ہونگے،آپ اسکو پڑه کر سب کچھ جان جاتی ہونگی؟”
“ہاں،مگر اس میں کچھ عمل ہیں،پہلے وہ پرفارم کرنے ہوتے ہیں،پهر ہر چیز ویسے ہو جاتی ہے جیسے اس میں لکها آتا ہے-”
“عمل،عملیات؟” وہ چونکی اندر الارم سا بجا- یہ تو کوئی سفلی علم کی ماہر بیٹهی تهی،اسے ذرا احتراز برتنا چاہیے-
“ہاں-” سیاہ فام لڑکی مسکرائی – “جو عملیات کر لے،وہ اس کتاب کے ذریعے دنیا پہ راج کرتا ہے،سب لوگ اس کی مٹهی میں آجاتے ہیں،اور ہر شے اس کے لیے تسخیر ہو جاتی ہے- صرف میں نہیں،اگر تم بهی اس کتاب کا خاص علم سیکهو تو تمهیں اس کے الفاظ میں اپنا ماضی حال اور مستقبل نظر آنے لگے گا-“”اور….. اور اس کے بعد؟” وہ سحرزدہ سی سوال پہ سوال کیے جا رہی تهی –
“اس کے بعد تم اس کتاب کو چهوڑ نہیں سکتیں،تمہیں اپنی زندگی اس سے بانده کر ہی گزارنی ہوگی -”
“اور اگر میں اسے چهوڑ دوں تو؟”
“تو تم تباہ ہوجاوگی،تمہاری ہر چیز،ہرمحبت،سب تباہ ہو جائے گا-اسکولے کر تم چهوڑ نہیں سکتیں- یہ سب اتنا آسان نہیں ہے-”
محمل گهبرا کر اٹه کهڑی ہوئی- “میری بس….”اسی پل بس قریب آتی نظر آئی،وہ دوڑکر بس کی طرف جانے لگی-
“تم ایک دن ضرور آوگی میرے پاس”سیاہ فام لڑکی مسکرائی تهی “تم ایک دن ضرور گڑگڑا کر یہ کتاب مانگنے آو گی -میں جانتی ہوں،تم لوگوں کی ستائی ہوئی ہو،تمهارا دل زخمی اور ہاتھ خالی ہیں اور جس دن یہ دل پوری طرح ٹوٹ جائے گا،میں تمہیں یہ کتاب دے دوں گی-جاو تمہاری بس آ گئی ہے-
وہ خوفزدہ سی بس کی طرف لپکی تهی – آج راڈ پکڑ کر اوپر چڑهتے ہوئے اسے پیچهے دیکهنے کی ہمت نہیں ہوئی تهی – جانے کیا معمہ تها-
جاری ہے………!