دلیل؟ حجت؟” وہ ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکهنے لگی- ” ہمارے کورس کی گائیڈ بک میں لکها تها-“
” کورس کی گائیڈ بک انسان کی بات ہے اور انسان کی بات میں دلیل نہیں ہوتی- دلیل صرف قرآن یا حدیث سے پیش کی جاتی ہے، کیونکہ دونوں نازل خداوندی ہوتے ہیں، قرآن اور حدیث میں اور نہ ہی اسرائلیات میں، کہیں بهی نہیں بتایا گیا کہ اس عورت کا نام زلیخا تها-” اس کا لہجہ نرم تها- ” مصر کی اس عورت سے ایک غلطی ہوئی تهی، ایک جرم سرزد ہوا تها، مگر اللہ نے اسکا پردہ رکھ لیا- اس کا فعل تو بتایا مگر نام نہیں اور جس چیز کا پردہ اللہ رکهے، وہ کهل نہیں سکتا، مگر ہم نے ” یوسف و زلیخا” کے قصے ہر مسجد و منبر پر جا کر سنے- ہم کیسے لوگ ہیں؟”
” ہیں؟ تو اس کا نام زلیخا نہیں تها؟” وہ ساری خفگی بهلا کر حیرت سے پوچھ رہی تهی-
” اسکا نام راز ہے اور میرا اور تمہارا رب وہ راز نہیں کهولنا چاہتا، سو یہ ہمیشہ راز ہی رہے گا-”
” اچها-” اس نے شانے اچکائے- پہلی دفعہ اسے اپنی علمی کمتری کا خفیف سا احساس ہوا تها مگر یہ ماننا اس کی انا کی شکست تهی، سو لاپروائی سے ادهر ادهر دیکهتے ہوئے بولی-
” بہر حال، مجهے افسوس ہے کہ تمہارے کانسپیکٹ قرآن کے بارے میں غلط ہیں- یہ وہ کتاب نہیں ہے جو تم اسے سمجهتی ہو-”
” اور اگر یہ وہ نہ ہوئی جو تم اسے سمجهتی ہو تو؟”
” میں صحیح ہوں، مجهے پتا ہے-”
” تمہیں جو کوئی اس نور کی طرف بلائے گا، تم اسے یہی کہو گی؟”
” مگر تم نے یہ تو نہیں بتایا تها کہ یہ قرآن ہے- تم نے تو کچھ اور قصے سنائے تهے- آخر کیوں؟”
” اگر میں تمہیں تبلیغ کرتی تو تم اکتا کر مجھ سے دور بهاگ جاتیں-”
” اب بهی تو یہی ہو گا-” وہ جتا کر بولی تو سیاه فام لڑکی نے مسکرا کر سر جهٹکا-
” لیکن اب تمہاری حجت تمام ہو چکی ہے- آگے تمہاری مرضی-”
ایک سیاه مرسڈیز زن سے ان کے سامنے سے گزری، تهوڑی دور جا کر اس کے ٹائر چر چراتے ہوئے رکےاور وہ تیزی سے ریورس ہوئی- محمل نے چونک کر دیکها-
ڈرائیونگ سیٹ پہ فواد تها-
وہ حیران سی کهڑی ہوئی- وہ اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کر رہا تها- ساتھ ہی اس نے ہاتھ بڑها کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کهولا-
وہ جیسے کهل کر مسکرائی اور بنچ پہ رکها اپنا بیگ کندهے پہ ڈالا- سیاه فام لڑکی نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکها اور پهر محمل کی مسکراہٹ کو-
” تمہارے پاس دو راستوں کا انتخاب تها- مصحف یا دل—– تم نے اپنا انتخاب کر لیا، مگر مجهے ساری زندگی افسوس رہے گا کہ میں تمہیں مصحف کی طرف نہ لا سکی- اب تمہیں جو بهی لے آئے، میرا اس میں حصہ نہ ہو گا- لیکن میں ہمیشہ تمہارے لیے دعا کروں گی-” سیاه جلد والے مصحف کو سینے سے لگائے، اپنا بیگ کاندهے پہ ڈال کر وہ اداس سیاه فام لڑکی اٹهی اور خالی سڑک پہ ایک چل دی- محمل نے دیکها وہ لنگڑا رہی تهی- وہ سر جهٹک کر گاڑی کی طرف بڑھ گئی-
” جی فواد بهائی؟” اس نے فرنٹ سیٹ کے کهلے شیشے پہ جهک کر پوچها-
“آو بیٹهو-“” مگر…..” وہ متذبذب ہوئی- ” گهر تو کالج کا کہہ کر آئی تهی-”
” کالج کیوں جانا ہے؟”
” ایسے ہی فرینڈز ٹو گیدر کر رہی ہیں-”
” پهر کبهی چلی جانا، ابهی بیٹهو!” وہ حکم دے کر جیسے کچھ اور سننے کے موڈ میں نہ تها- وہ مسکراہٹ دبائے اندر بیٹهی اور دروازہ بند کر دیا-
ونڈ اسکرین کے اس پار وہ لنگڑاتی، سیاہ فام لڑکی دور ہوتی جا رہی تهی- محمل کو نہیں علم تها کہ وہ اسے اداس صبح میں آخری بار ديکھ رہی ہے- اس کا نام کیا تها وہ کدهر سے آئی تهی، وہ کچھ نہ جانتی تهی- مگر اس لمحے اسے جاتے ديکھ کر اسے احساس ہوا کہ وہ لڑکی اسٹاپ پہ بس پکڑنے نہیں آتی تهی، بلکہ وہ تو شاید اس کے لیے آتی تهی اور شاید اس کے بس پکڑ لینے کے بعد یونہی چلی جاتی تهی-
” ہم کہاں جا رہے ہیں فواد بهائی؟” فواد نے گاڑی آگے بڑهائی تو وہ پوچھ بیٹهی-
” تم مجهے بهائی کہنا چهوڑ نہیں سکتیں؟”
” وہ کیوں؟” دهڑکن بےترتیب ہوئی مگر بظاہر وہ سادگی سے بولی تهی-
” ایسے ہی-”
” پر ہم جا کہاں رہے ہیں؟”
” آفس! بتایا تو تها-” اسٹیرنگ پہ ہاتھ رکهے ذرا سا چہرہ اس کی طرف موڑا اور مسکرایا-
” آفس؟” اب کے وہ واقعتا حیران رہ گئی- ” مگر آغاجان نے تو منع کر دیا تها-”
” ان سے تو میں نے رسما پوچها تها-” وہ لاپرواہ تها-
“اور حسن بهائی نے بهی……”
” جہنم میں گیا حسن! تم آفس جانا چاہتی ہوں یا نہیں؟”
” جانا چاہتی ہوں-” اس که بگڑنے پہ وہ جلدی سے بولی-
وہ کهل کر مسکرا دیا-
” ایسے ہی اعتماد سے زندگی گزارو گی تو خوش رہو گی، ورنہ لوگ تمہیں ہضم کر جائیں گے- زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنا سیکهو، لڑکی!” وہ بہت موڈ میں ڈرائیو کر رہا تها، اور وہ یک ٹک اسے ديکھ رہی تهی- اسے تو کچھ بهی نہ کرنا پڑا تها، اور قسمت اس پہ مہربان ہو گئی تهی-
” اور یہ جوڑا جو تم نے پہن رکها ہے، غالبا میں پچهلے دو سال سے ديکھ رہا ہوں-”
” تین سال سے -” اس نے تصحیح کی-
” امیزنگ! یہ تمہاری کزنز تو تین بار سے زیادہ ایک جوڑا نہیں چلاتیں اور تم!”
” یہ تین سال پہلے عید پہ بنوایا تها-” محمل نے کرتے کے دامن پہ ہاتھ پهیر کر بغور اسے دیکها-” میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ نئے جوڑے بنوا سکوں- آغاجان تو بس عید کے عید کپڑوں کے پیسے دیتے ہیں-” اس کا جانے کیوں دل بهر آیا تها- آنکهوں سے دو موٹے موٹے آنسو پهسلے تهے-
” ارے نہیں محمل! ایسے نہیں روتے-” اس کے رونے پہ وہ پریشان سا ہو گیا اور گاڑی سائیڈ پہ روک لی-
” میرا مقصد تمہیں ہرٹ کرنا نہیں تها اور جب تک میں ہوں، تمہیں فکر کی ضرورت نہیں-”
اس نے سر اٹهایا کانچ سی بهوری آنکهیں بهیگی ہوئی تهیں-
” اور ابهی آفس نہیں جاتے، جناح سپر چلتے ہیں، وہاں سے تمہارے لیے ڈیرائنر وئیر لیں گے، تم بہت صورت ہو محمل، تمہیں خوبصورت چیزیں ہی پہننا چاہئیں-” وہ اس کے بہت قریب مخمور سا کہہ رہا تها، پهر چونکا اور ذرا سیدهے ہو کر اگنشن میں چابی گهمائی-
وہ سر جهکائے ہتهیلی کی پشت سے بهیگے رخسار رگڑنے لگی- ایک دلفریب مسکراہٹ اس کے لبوں پہ بکهر گئی تهی- ” اگر جو تائی کو پتا چلے کہ ان کا ولی عہد میرے آنسووں کی اتنی پرواه کرتا ہے تو کتنا مزه آئے-”
فواد ترپ کا وہ پتہ تها جس کے ذریعے اسے ان سب ظالم لوگوں سے انتقام لینا تها-
وہ اسے ڈیرائنر آوٹ لٹس پہ لے گیا- محمل ایک دو دفعہ ہی ندا، سامیہ وغیرہ کے ساته ادهر گئی تهی- رنگوں، خوشبووں اور خوابوں کی سرزمین- چمکتے سنگ مر مر کے فرش اور قیمتی ملبوسات- اسے لگا وہ کسی خواب میں چل رہی ہے، سب کچھ جیسے واقعی اس کے قدموں میں ڈهیر ہو چکا تها-
” آج کل ایسی شرٹس کا فیشن ہے اور جیسی کرتیاں پہنتی ہو” ایک تنقیدی نگاہ اس پہ ڈال کر اس نے ایک جدید تراش خراش کے لباس کا ہینگر اتارا اور اس کے کندهے کے ساتھ لگایا- ” ہوں، یہ ٹهیک ہے- تمہیں کیسا لگا؟”
” اچها ہے-” وہ تو جیسے بول ہی نہ پا رہی تهی-
” یہ پیک کر دیں-” اس نے ہینگر بےنیازی سے سیلزگرل کی طرف بڑهایا اور دوسرے ریک کی طرف بڑه گیا-
” سدرہ کی منگنی کے لیے بهی کوئی اچهاجوڑا تو لینا ہو گا، ہے نا-”
” سدرہ باجی کی منگنی؟” وہ چونکی-
” ہاں، اسکا رشتہ طے ہو گیا ہے اور نیکسٹ سنڈے اس کی منگنی ہے- تمہیں نہیں پتا؟” وہ فارملز کے ریک سے کپڑے الٹ پلٹ کر ديکھ رہا تها-
” نہیں-” وہ گهر میں غائب دماغ رہتی تهی، یا تائی اماں لوگوں نے خبر چهپا کر رکهی تهی؟ وہ فیصلہ نہ کر سکی-
” یہ منگنی کے فنکشن کے لیے لے لو اچها ہے نا-” اس نے ایک نارمل سا جوڑا نکال کر اسے دکهایا- محمل اس کے قریب چلی آئی-
پیکاک گرین رنگ کی لمبی سی سیدهی قمیص، آدهی آستینیں، ساتھ سلور چوڑیدار پائجامہ- گہری سبز قمیص پہ بهی گلے اور دامن پہ سلور موتیوں کو مازک کام تها-
” ٹیپیکل نہیں ہے، مگر بہت کلاسک ہے- یہ بهی پیک کر دیں-” اس کے چہرے پہ پسندیدگی ديکھ کر اس نے وہ بهی سیلزگرل کو تهما دیا-
” بس بہت ہیں فواد بهائی، میں اتنا سب گهر کیسے لے کر جاونگی-” جب وہ اگلے بوتیک کی طرف بڑها تواس نے گهبرا کر رقک دیا-
” واقعی- یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں- چلو پهر کچھ چهوٹی موٹی چیزیں لے لیتے ہیں-” جوتے، پرفیومز، کاسمیٹکس، جیولری اور سبز اور سلور جوڑے کے ساته میچنگ کانچ کی چوڑیاں دلوا کر اس کے بصد اصرار بالآخر فواد نے بس کر سی-
” میرا دل کرتا ہے محمل! میں تمہیں پوری دنیا خريد کر دے دوں- پتہ نہیں کیوں-” وہ فرنٹ سیٹ کا لاک کهولتے ہوئے کہہ رہا تها، اور وہ وہیں دروازے کے ہینڈل پہ ہاتب رکهے گم صم سی اسے دیکهے گئی- یہی سب تو چاہا تها اس نے، مگر کبهی سوچا ہی نہ تها کہ یہ اتنی آسانی سے ہو جائے گا؟
پهر وہ اسے فیکٹری لے آیا-
” ہیڈ آفس میں پاپا اور حسن ہوتے ہیں- اسد چچا اور غفران چچا پنڈی والی برانچ میں ہوتے ہیں جبکہ میں فیکٹری سائیڈ پہ- تم آج سے روز ادهر میرے ساتھ کام کرو گی- میں تمہیں آہستہ آہستہ سب کام سکها دوں گا- ٹهیک؟-
” ٹهیک ہے، مگر میں کیا کہونگی؟”
” تم ٹیوشن پڑهانے جاتی ہو نا تو بس تمہیں ایک ٹیوشن اور مل گئ ہے جس کی پے سے تم نے اپنے لیے اتنی شاپنگ کر لی ہے- مسرت چچی کا شاپنگ کے بارے میں یہی کہہ دینا اور باقیوں کو کچھ دکهانے کی ضرورت نہیں ہے- رائٹ؟ اب چائے لو گی یا کافی؟” وہ اپنی سیٹ سنبهالتے بےنیازی سے ہداہات دے کر فون کی طرف بڑها تو وہ طمانیت سے مسکرا دی-
” کافی-” اور اس کے مقابل کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی-
” گڈ-” وہ بهی مسکرا دیا- مسکراتے ہوئے وہ بہت اچها لگتا تها-
اس روز فواد نے اسے کوئی کام نہ کرنے دیا” بس ادهر بيٹھ کر مجهے آبزرو کرو اور سیکهو” کہہ کر اسے اپنے سامنے بٹها دیا- کام کرتے کرتے وہ گاہے بگاہے نگاه اٹها کر اسے مسکراتا دیکهتا تو وہ ہنس پڑتی-
وہ دن اسے اپنی زندگی کا بہترین دن لگا تها-
” اماں مجهے دوسری ٹیوشن بهی مل گئی ہے، سو آئندہ صبح جایا کرونگی-”
مسرت اپنے کاموں میں الجهی ہوئی تهیں، سو دهیان نہ دیا اور اس نے خاموشی سے سارے کپڑےاور چیزیں الماری میں رکھ دیں-
پهر روز کا یہی معمول بن گیا- نادیہ کے والد کی اکیڈمی سے اس نے مہینے بهر کی چهٹی لے لی اور صبح سے شام ڈهلے فواد کے ساتھ فیکٹری چلی جاتی- اس نے آغاجان سے پیسے مانگنے چهوڑ دیے تهے اور جب سدرہ کی منگنی کے لیے آغاجان نے اسے کپڑے بنوانے کے لیے چند سو روپے دینے چاہے تو اس نے بےنیازی سے انکار کر دیا-
” تهینک یو آغاجان مگر میرے پاس پہلے ہی بہت ہیں ، تین تین ٹیوشنز پڑهاتی ہوں، میرے خرچے پورے ہوہی رہے ہیں- پهر بهی اگر چاہیے ہوں گے تو آپ سے مانگ لوں گی-”
آغاجان اور تائی مہتاب نے پهر کبهی اس کے شام کو گهر آنے پہ اعتراض نہ کیا- محمل ان سے پیسوں کا مطالبہ نہیں کرتی، انہیں اور کیا چاہیے تها-
جاری ہے……….