تحریر عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
قسط نمبر 43
وہ چند لمحے خاموش کهڑی کهلے دروازے کو دیکهتی رہی، وہ دروازہ بند کرکے نہیں گیا تها، کیا اس کا مطلب تها کہ وہ اندر آ جائ
؟ پہلے بهی تو وہ بغیر اجازت اسکی زندگی میں داخل کر دی گئی تهی- اب بهی چلی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ اس نے تلخی سے سر جهٹکا اور کهلے دروازے سے اندر چلی آئی-
لاؤنج کے سرے پہ سیڑهیوں کے قریب فرشتے اور ہمایوں کهڑے تهے- وہ اپنے بیگ کا ہینڈل تهامے، سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے انگلی سے ٹهوڑی کے نیچے اڑس رہی تهی-
” نہیں، بس اب میں چلتی ہہوں، کل مجهے کلاس لینی ہے-”
” کم از کم کچھ دن تو تمہیں ادهر رہنا چاہئیے-”
وہ دونوں باتیں کر رہے تهے، ان کی آواز بےحد مدهم تهی، محمل کو اپنا آپ ادهر بیکار لگا تو وہ سر جهکائے کچن میں چلی آئی-
بلقیس جا چکی تهی- کچن صاف ستهرا پڑا تها- اس نے چولہا جلایا اور کهانا گرم کرنے لگی-
“محمل!” فرشتے نے کهلے دروازے سے جهانکا- محمل نے ہاتھ روک کر اسے دیکها- وہ جانے کے لیے تیار کهڑی تهی-
” آپ مت جائیں فرشتے، پلیز!” وہ بےاختیار روہانسی سی ہو کر اس کے قریب آئی-
” اوہو، میرا کزن بہت اچها انسان ہے، تم کیوں پریشان ہو رہی ہو پاگل!”
اس نے ہولے سے اس کا گال تهپتهپایا- محمل چند لمحے اسے دیکهتی رہی اور یکایک اسکی بهوری آنکهیں پانی سے بهر گئیں- وہ جهک کر چولہے کو تیز کرنے لگی-
” محمل! کیا ہوا ہے؟ تم مجهے پریشان لگ رہی ہو؟” وہ ذرا فکر مندی سے اس کے پیچهے آئی- محمل کی اس کی طرف پیٹھ تهی، فرشتے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تهی-
” کسی کی شادی ایسے بهی ہوتی ہے، جیسے میری ہوئی؟” بہت دیر بعد وہ بولی تو آواز میں صدیوں کی یاس تهی-
فرشتے کچھ نہ بولی تو وہ پلٹی-
فرشتے بےیقینی سے اسے دیکھ رہی تهی- اسے لگا ، اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے-
” کیا؟” وہ گڑبڑا گئی-
” محمل! تم!” حیرت کی جگہ خفگی نے لے لی-
” کیا ہوا؟”
” تم….. تم بہت ناشکری ہو محمل! بہت زیادہ-” وہ جیسے غصہ ضبط کرتے ہوئے تیزی سے مڑ گئی-
” فرشتے ! رکیں-” محمل بوکهلا کر اس کے پیچهے لپکی- وہ تیزی سے باہر نکل رہی تهی، اس نے اسے بازو سے تهاما تو وہ رک گئی چند لمحے- کهڑی رہی پهر گہری سانس لے کر اس کی طرف گهومی-
” تمہیں ہمایوں مل گیا محمل! تم اب بهی ناجوش ہو؟” وہ بہت دکهی سی ہو کر بولی تهی- محمل نے بےچینی سے لب کچلا- فرشتے اسے غلط سمجھ رہی تهی-
” نہیں، میں صرف اس خوشی کو محسوس کرنا……”
” جسٹ اسٹاپ اٹ-” وہ بہت خفا تهی- محمل چپ سی ہو گئی- چند لمحے دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی ، پهر فرشتے نے آگے بڑھ کر اسکے دونوں شانوں پہ اپنے ہاتھ رکهے اور اسے بالکل اپنے سامنے کیا-
” تم واقعی ناخوش ہو؟”
” نہیں، مگر اب سب سے میرا دل کٹ کے رہ گیا ہے-”
” لوگوں کی روح تک کٹ جاتی ہے محمل! سب قربان ہو جاتا ہے وہ پهر بهی راضی ہوتے ہیں اور تم…… تم اب بهی شکر نہیں کرتیں؟” اس کی سنہری آنکهوں میں سرخ نمی سی ابهری تهی- اس کے ہاتھ ابهی تک محمل کے کندهوں پہ تهے۔
” نہیں، میں بہت شکر کرتی ہوں، مگر…. مگر بس کچھ عجیب لگ رہا ہے جیسے……”
” بس کر محمل! اس نے تاسف سے سر جهٹک کراپنے ہاتھ ہٹائے اور تیزی سے بهاگتی ہوئی باہر نکل گئی-”
اسے یونہی شک سا گزرا کہ وہ رو رہی تهی-
وہ دل مسوس کر رہ گئی- اس نے شاید فرشتے کو ناراض کر دیا تها- لیکن وہ ٹهیک کہتی تهی، وہ واقعی ناشکری کر رہی تهی- صرف زبان سے الحمدللہ کہنا کافی نہیں ہوتا- اصل اظہار تو رویے سے ہوتا ہے-” کدهر گم ہو؟” آواز پہ وہ چونکی- ہمایوں سامنے کاونٹر سے ٹیک لگائے کهڑا بغور اسے دیکھ رہا تها- وہ جهجک سی گئی-
” فرشتے چلی گئی؟” وہ کاونٹر سے ہٹ کر فریج کی طرف بڑها اور اسے کهول کر پانی کی بوتل نکالی-
” فرشتے بہت اچهی ہے، ہے نا؟” اس نے ڈهکن کهول کر بوتل منہ سے لگائی-
” بیٹھ کر بئیں پلیز-” وہ خود کو کہنے سے روک نہ سکی- وہ بوتل منہ سے ہٹا کر ہنس دیا تها-
” فرشتے نے تمہیں بهی اچهی لڑکی بنا دیا ہے-”
” تو کیا پہلے میں بری تهی؟” وہ برا مان گئی
” ارے نہیں ، تم تو ہمیشہ سے اچهی تهیں- ” مسکرا کر کہتے اس نے بوتل پهر لبوں سے لگائی- محمل نے دیکها، وہ بیٹها نہیں تها، اب بهی کهڑا ہو کر پی رہا تها- خود کو بدلنا بهی آسان نہیں ہوتا، لیکن دوسرے کو بدلنا بہت ہی کٹهن، ” اچها یہ بتاؤ، تمہارا دل کیوں کٹ کر رہ گیا؟”
اف! وہ تو شاور لینے گیا تها- کب آ کر سب سن گیا تها اسے تو پتا ہی نہ چلا تها-
” وہ….. دراصل……” گهر سے کسی نے کال نہیں کی تو میں-”
” وہ کیوں کریں گے کال؟ ان کی اس شادی میں مرضی شامل نہیں تهی- فرشتے نے بہت مشکل سے انہیں راضی کیا تها، وہ اس بات پہ ابهی تک غصہ ہیں، آئی تهنک-”
وہ یکدم ٹهٹهکی-
“فرشتے نے……-” اس نے فقرہ ادهورا چهوڑ دیا-
” اس نے کتنی مشکل سے انکو راضی کیا، تم جانتی ہو!” وہ پهر بوتل سے گهونٹ بهر رہا تها-
وہ دم بخود سی اسے دیکهے گئی- کیا وہ کچھ نہیں جانتا؟ اسے نہیں معلوم کہ کیسے ان دونوں نے فواد کے دیے کاغذ پہ دستخط کیے تهے-؟ فرشتے نے اسے کچھ نہیں بتایا؟ مگر کیوں-؟
“تم فکر مت کرو، ہم نے یہ شادی ان سے زبردستی کروائی ہے، ان کو کچھ عرصہ ناراض رہنے دو- ڈونٹ وری-”
” تو وہ واقعی کچھ نہیں جانتا- وہ بتائے یا نہیں ؟” اس نے لمحے بهر کو سوچا اور پهر فیصلہ کر لیا- اگر فرشتے نے کچھ نہیں بتایا تو وہ کیوں بتائے؟ چهوڑو، جانے دو-
” صرف ان کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے یا آپ کے ساتھ بهی؟”
” تو تم اس لیے پریشان تهیں؟” اس نے مسکرا کر سر جهٹکا- ” تمہیں لگتا ہے کوئی ہمایوں داؤد کو مجبور کر سکتا ہے؟”
” مجبورا” قائل تو کر سکتا ہے نا!”
” نہیں کر سکتا- قطعا” نہیں-”
“پهر آپ نے….. آپ نے کیوں شادی کی مجھ سے؟”
“اگر تم یہ چاہتی ہو کہ میں یہ کہوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا تها، وغیرہ وغیرہ، تو میں ایسا نہیں کہونگا، کیونکہ واقعی مجهے تم سے کوئی طوفانی قسم کی محبت نہیں تهی- ہاں- تم مجهے اچهی لگتی ہو اور میں نے اپنی مرضی سے تم سے شادی کی یے- اور میں اس فیصلے پہ بہت خوش ہوں-”
اس کا انداز اتنا نرم تها کہ وہ مسکرا دی- دل پہ لدا بوجھ ہلکا ہو گیا-” یعنی آپ خوش ہیں؟”
” آف کورس محمل! ہر بندہ اپنی شادی پہ خوش ہوتا ہے- بنیادی طور پہ میں بہت پریکٹیکل انسان ہوں- لمبی بات نہیں کرتا اور مجهے بےکار کی مبالغہ آرائی نہیں پسند- میں کوئی دعوی کرونگا نہ وعدہ- یہ تم وقت کے ساتھ دیکھ لو گی کہ تم اس گهر میں خوش رہو گی-“.
وہ جیسے کهل کر مسکرا دی- اطمینان اور سکون اس کے رگ و پے میں اتر گیا تها-