مصحف

مصحف
قسط نمبر 46
تحریر عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
46 ۔

“محمل تم!” وہ کچھ کہتے کہتے پهر رک گئی، جیسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ کیا کہے-
” یو اینڈ یور اوور ایکٹنگ!” ہونہہ-” وہ چهوٹا لڑکا پهر بےزاری سے کہہ اٹها تها- فرشتے نے چونک کر اسے دیکها-
” سنی پلیز بیٹا! جاو یہاں سے ، مجهے بات کرنے دو-“
” میں کیوں جاؤں ؟ میری مرضی، آپ دونوں چلی جائیں-”
” فرشتے یہ کون ہے؟ کیوں ضد کر رہا ہے؟” وہ الجھ کر پوچھ رہی تهی- مگر فرشتے دوسری طرف متوجہ تهی-
” آئی ڈونٹ وانٹ ٹو گو-” وہ بدتمیزی سے چیخا تها-
” شٹ اپ تیمور! اینڈ گیٹ آوٹ، تم دیکھ نہیں رہے کہ میں ماما سے بات کر رہی ہوں-”
فرشتے کہہ رہی تهی اور اسے لگا کسی نے اس کے اوپر ڈهیروں پتهر لڑهکا دیے ہوں-
” تم نے…. تم نے تیمور کہا فرشتے؟” وہ ساکت رہ گئی تهی-
” ہاہ! شی از ناٹ مائی مام!” وہ سر جهٹکتا اٹھ کر باہر گیا اور اپنے پیچهے زور سے دروازہ بند کیا-
” تم نے تیمور کہا؟ نہیں، یہ میرا تیمور ….نہیں….. میرا تیمور کہاں ہے؟” اس کا دل بند ہو رہا ہے، کہیں کچھ غلط تها، فرشتے نے آہستہ سے گردن اسکی طرف موڑی- اس کی سنہری آنکهوں میں گلابی سی نمی اتر آئی تهی-
” محمل! تمہیں کچھ یاد نہیں؟”
” کیا….. کیا یاد نہیں؟ میرا بچہ کہاں ہے؟” وہ گهٹی گهٹی سی سسک اٹهی- کچھ تها جو اسکا دل ہولا رہا تها-
” محمل… ” اس کی آنکهوں سے آنسو نکل کر گالوں پہ لڑهکنے لگے، بےاختیار اس نے محمل کے ہاتھ تهام لیے-
” تمہارا ایکسیڈینٹ ہوا تها-“” فرشتے میں پوچھ رہی ہوں کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟”
” تمہارے سر پہ چوٹ آئی تهی، تمہارا اسپائنل کارڈ ڈیمج ہوا تها-”
” فرشتے! میرا بچہ-” اس کی آواز ٹوٹ گئی- وہ بےقراری سے فرشتے کی بهیگی آنکهوں کو دیکھ رہی تهی-
” محمل…. محمل! تم بےہوش ہو گئی تهیں، تم کوما میں چلی گئی تهیں- ” مجهے پتا ہے، صبح میرا ایکسیڈنٹ……”
” وہ صبح نہیں تها، سات سال پہلے تها-”
وہ سکتے کے عالم میں اسے دیکهتی رہ گئی-
” وقت سات سال آگے بڑھ گیا ہے- تمہیں کچھ یاد نہین؟ وہ ساری باتیں جو میں تم سے اتنے برس کہتی رہی؟ وہ دن وہ راتیں جو میں نے ادهر تمہارے ساتھ گزاریں ، تمہیں کچھ یاد نہین-؟”
وہ پتهر کا بت بن گئی تهی- فرشتے کو لگا وہ اس کی بات نہیں سن رہی-
” ڈاکٹرز کہتے تهے- تم کبهی بهی ہوش میں آ سکتی ہو-ہم نے بہت ویٹ کیا تمہارا محمل، بہت زیادہ- ” آنسو متواتر اس کے دمکتے چہرے پہ گر رہے تهے-
وہ گم صم سی اسے دیکهے گئی- گویا وہ وہاں تهی ہی نہیں-
“میں نے تمہارے اٹھ جانے کی بہت دعائیں کیں محمل-” میں نے اپنا پی ایچ ڈی بهی چهوڑ دیا’ تمہارے ایکسیڈنٹ کے دوسرے مہینے میں آ گئی تهی، پهر واپس گئی، مگر دل ہی نہ لگ سکا- میں پڑھ ہی نہیں سکی- پهر میں نے سب پڑهائی چهوڑ دی اور تمہارے پاس آ گئی- اتنے برس محمل، اتنے برس گزر گئے، تمہیں کچھ بهی ہاد نہیں؟ محمل-”
فرشتے نے ہولے سے اس پتهر کے مجسمے کو ہلایا- وہ ذرا سا چونکی پهر اس کے لب کپکپائے-
” میرا…. میرا تیمور؟”
” یہ تیمور تها ، ہم اسے سنی کہتے ہیں-”
مگر وہ کیسے مانتی؟ وہ جسے کوئی کالونی کا بچہ سمجهی تهی، وہ اس کا اپنا بچہ تها- یہ کیسے ممکن تها؟ اسے تو لگا تها کہ وہ بس ایک دن کے لیے سوئی ہے یا پهر شاید دن کا ایک حصہ- پهر صدیاں کیسے بیت گئیں؟ اسے کیوں نہیں پتا چلا؟ اور تیمور….. نہیں-
اسے کاٹ میں کیٹا اپنا نومولود بچہ یاد آیا-
” فرشتے! وہ میرا بچہ ہے- اوہ خدایا-” اس نے بے یقینی سے آنکهیں موند کر کهولیں- ” وہ اتنا بدل گیا ہے؟”
” بہت کچھ بدل گیا ہے محمل- کیونکہ وقت بدل گیا ہے- وقت ہر شے پر اپنے نشان چهوڑ جاتا ہے-”
” ہمایوں؟” اس کے لب پهڑ پهڑائے- ” ہمایوں کہاں ہے؟”
” نرس نے جب بتایا تو میں نے اسے کال کر دیا تها- مگر….. ” وہ لمحے بهر کو ہچکچائی- ” وہ میٹنگ میں تها، رات تک آ سکے گا-”
” نہیں فرشتے ، تم اسے بلاؤ، پلیز بلاؤ، اس سے کہو، محمل جاگ گئی ہے- محمل اسکا انتظار کر رہی ہے- وہ میرے ایک فون پر ہی دوڑ آتا تها-”
” وہ سات سال پہلے کی بات تهی محمل! وقت کے ساتھ یہاں سب کچھ بدلتا ہے، لوگ بهی بدل جاتے ہیں-”
” وہ کیوں نہیں آیا؟” وہ کهوئی کهوئی سی بولی تهی- عجیب بےیقینی سی بےیقینی تهی-
” محمل! پریشان مت ہو- پلیز ، دیکهو-”
” وقت ہمایوں کو نہی. بدل سکتا- میرا ہمایوں ایسا نہیں ہے، میرا تیمور ایسا نہیں یے-”
وہ ہذیانی انداز سے چلائی- اتنی بےیقینی تهی کہ اسے رونا نہیں آ رہا تها-
فرشتے چلی گئی اور وہ منہ پہ چادر ڈالے آنکهیں موندے لیٹی رہی- اسے یقین نہ تها کہ فرشتے نے اس سے سچ بولا ہے، اسے لگ رہا تها کہ یہ سب ایک بهیانک خواب ہے، اور ابهی وہ آنکھ کهولے گی تو وہ خواب ٹوٹ جائے گا
پهر اس نے آنکھ ہی نہ کهولی، اسے ڈر تها کہ اگر خواب نہ ٹوٹا تو وہ ٹوٹ جائے گی-
جانے کتنا وقت گزرا وہ لمحوں کا حساب نہ رکھ پائی- اور اب کونسے حساب باقی رہ گئے تهے؟
دروازے پہ ہولے سے دستک ہوئی- اس نے لمحے بهر کو آنکهیں کهولین- ہوا سے چہرے پہ پڑی چادر سرک گئی- منظر صاف واضع تها-
کهلے دروازے کے بیچ وہ کهڑا تها-
اس کی نگاہیں وہیں ٹهہر سی گئیں- وقت تهم گیا، لمحے ساکن ہو گئے- وہ اسے ویسا ہی لگا تها- اتنا ہی وجیہہ اور شاندار، مگر اسکا جذبات سے عاری چہرہ اس پہ چهائی سنجیدگی، نہیں، وہ شاید ویسا نہیں رہا ته-
وہ آہستہ سے قدم اٹهاتا بیڈ کے قریب آیا اور پائینتی کے پاس رک گیا-
” ہمایوں !” تڑپ کے رہ گئی- آنکهوں سے بےاختیار آنسو بہنے لگے-
” ہوں، کیسی ہو؟” وہ پائینتی کے قریب کهڑا رہا، اس سے آگے نہیں بڑها- آواز میں بهی عجیب سرد مہری تهی-
” ہمایوں!” وہ رونے لگی تهی- یہ سب کیا ہے؟ یہ کہتے ہیں کہ اتنے سال گزر گئے، مہری نیند اتنی لمبی کیوں ہو گئی-؟
” معلوم نہیں- ڈاکٹرز کب تمہیں ڈسچارج کریں گے؟ وہ کلائی پہ بندهی گهڑی دیکھ رہا تها- جیسے جانے کی جلدی ہو- اس کے لہجے کیں کوئی ناراضی کا عنصر نہیں تها، بلکہ بہت ہموار لہجہ تها- لیکن شاید ان کے درمیان کچھ بهی باقی نہ رہا تها-
” میں ٹهیک ہو جاؤنگی نا ہمایوں؟” جیسے وہ تسلی کے دو بول سننا چاہتی تهی-
” ہوں-” وہ اب جیبوں میں ہاتھ ڈالے تنقیدی نظروں سے اطراف کا جائزہ لے رہا تها-
یہ سب کیا ہو رہا تها اس کے ساتھ- ہمایوں….. اور تیمور…. وہ اس کے ساتھ یوں کیوں کر رہے تهے؟
” ہمایوں…… مجھ سے بات تو کریں-”
” ہاں، کہو ، میں سن رہا ہوں- ” وہ متوجہ ہوا، لمحے بهر کو نگاہ اس پہ جهکائی-
اس کے آنسو تهم گئے- وہ بالکل چپ ہو کر رہ گئی- یہ تو محبت کی نگاہ نہ تهی- یہ تو خیرات تهی، بهیک تهی-
وہ چند لمحے منتظر سا اسے دیکهتا رہا، پهر واپس جانے کے لیے مڑا-
اسی پل دروازے میں فرشتے کا سراپا ابهرا- وہ ہاتھ میں فروٹ باسکٹ پکڑے تیزی سے اندر آ رہی تهی- ہمایوں اس کے ایک طرف سے نکل کر باہر چلا گیا-
فرشتے نے پلٹ کر اسے جاتے دیکها-
” ہمایوں ابهی تو آیا تها- اتنی جلدی چلا بهی گیا؟ کیا کہہ رہا تها؟ اچنبهے سے کہتے ہوئے اس نے گردن اسکی جانب موڑی- محمل کے چہرے پہ کچھ تها کہ وہ لمحے بهر کو چپ سی ہو گئی-
فکر مت کرو- وہ ہر کسی سے ایسے ہی بی ہیو کرتا ہے- وہ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لیے آگے بڑهی اور فروٹ باسکٹ سائیڈ ٹیبل پہ رکهی-
مگر میں کسی تو نہیں تهی فرشتے؟” وہ ابهی تک نم آنکهوں سے کهکے دروازے کو دیکھ رہی تهی-
ٹهیک ہو جائے گا سب کچھ تم فکر کیوں کرتی ہو-
” مگر وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا ته؟” اس کی آنکهیں پهر سے ڈبڈبائیں-
محمل دیکهو، اس تبدیلی نے وقت لیا ہے تو اس کو ٹهیک ہونے میں بهی وقت لگے گا- تم اس کو کچھ وقت دو- وہ اس کے ریشمی بهورے بال نرمی سے ہاتھ میں پکڑے برش کر رہی تهی-
وقت، وقت، وقت….. وہ ایک ہی تکرار ہر جگہ دہرائی جا رہی تهی- اس وقت نے کیا کچھ بدل دیا تها، اسے آس کا آندازہ آہستہ آہستہ ہو رہا تها-
وہ اپنے نچلے دهڑ کو حرکت نہیں دے سکتی تهی- وہ اپنے پاؤں نہيں ہلا سکتی تهی- اٹھ کر بیٹھ نہیں سکتی تهی- خود کهانا نہیں کها سکتی تهی- اپنے پاؤں پہ کهڑی ہونے کے قابل نہیں رہی تهی، یہ سب کیا ہو گیا تها-
” اس دن، اس دن جب میں گهر سے باہر نکلی تهی تو میں نے صبح کی دعائیں نہیں پڑهی تهیں- یہ سب اسی لیے ہوا ہے فرشتے کہ میں دعائیں پڑهے بغیر گهر سے باہر نکلی تهی، ہے نا؟”وہ نرمی سے اس کے بال سلجها رہی تهی، جب وہ بهیگی آنکهوں اور رندهے گلے سے کہنے لگی- فرشتے نے گہری سانس لی، کہا کچھ نہیں-
” نہ تها کہ اس کو اللہ سے کام آتا کچھ بهی، مگر ایک حاجت تهی یعقوب علیہ السلام کے دل میں، تو اس نے اسے پورا کیا-” بہت دهیرے سے کسی نے اس کے دل میں سرگوشی کی تهی- وہ یک لخت چونک سی گئی تهی- ” نہ تها کہ اس کا اللہ سے کام آتا کچھ بهی، مگر ایک حاجت تهی یعقوب علیہ السلام کے دل میں ، تو اس نے اسے پورا کیا-”
اس نے سننے کو کوشش کی، کوئی اس کے اندر مسلسل یہ الفاظ دہرا رہا تها- دهیمی، مدهر آواز، ترنم اور سوز سے پر- اس کا دل دهڑکنا بهول گیا وہ ایک دم سناٹے میں آ گئی-
یہ الفاظ، یہ بات، یہ سب بہت جانا پہچانا تها- شاید یہ ایک آیت تهی-
ہاں ، یہ آیت تهی، سورہ یوسف، تیرہواں سپارہ، جب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو غالبا” نظر بد سے بچاو کے لیے احتیاطا” شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی تاکید کی تهی- تو اس پہ اللہ تعالی نے جیسے تبصرہ کیا تها کہ ان بهائیوں کو اگر اللہ کی مرضی و منشاء ہوتی تو پهر اللہ کے فیصلے سے کوئی بهی نہ بچا پاتا، مگر وہ احتیاط تو یعقوب علیہ السلام کے دل کی ایک حاجت تهی تو یعقوب علیہ السلام نے اسے پورا کیا-
ایک خاموش لمحے میں اس پہ کچھ آشکار ہوا تها، اسے ایسے ہی ہونا تها، وہ جو کر لیتی، یہ اللہ کی مرضی تهی، ہو کر رہی تهی، یہ اس کی تقدیر تهی، شاید اس کی دعاوں نے اسے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ہو، مگر کیا اس سے بهی کوئی بڑا نقصان ہو سکتا تها؟ کوما، معذوری، بیزار شوہر، بدکتا ہوا بچہ- اب کیا رہ گیا تها زندگی میں؟
” کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو؟”
کسی نے پهر اس کو ذرا خفگی سے مخاطب کیا تها- وہ پهر سے چونکی، اور قدرے مضطرب ہوئی- یہ کون اسے بار بار اندر ہی اندر مخاطب کر رہا تها؟ یہ کون تها؟
” فرشتے، پلیز مجهے کچھ دیر کےلئے، پلیز مجهے اکیلا چهوڑ دو-” وہ بہت بےبسی سے بولی تو فرشتے کا اس کے بالوں میں برش کرتا ہاتھ رک گیا- پهر اس نے جیسے سمجھ کر سر ہلا دیا-
” اوکے-” اس نے برش سائیڈ پہ رکها اور اٹھ کر باہر نکل گئی-
” ہم نے بسایا تم کو زمین میں اور ہم نے اس میں تمہارے لیے زندگی کے سامان بنائے، کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو-” ( سورہ اعراف)
کوئی اس کے اندر ہی اندر اسے جهنجهوڑ رہا تها، پکار رہا تها- اس کے اندر باہر اتنا شور تها کہ وہ سن نہ پا رہی تهی، سمجھ نہ پا رہی تهی، فرشتے گئی تو اس نے انکهیں موند لیں-
اب اس کے ہر سو اندهیرا اتر آیا، خاموشی اور تنہائی، اس نے غور سے سننا چاہا، چند ملی جلی آوازیں بار بار گونج رہی تهیں-
” ہم تم میں سے ہر ایک کو آزمائیں گے، شر کے ساتھ اور خیر کے ساتھ-”
” کہہ دو ، بےشک میری نماز، میری قربانی، اور میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ ہی کے لیے ہے جو رب ہے تمام جہانوں کا-”
اسکے ذہن میں جیسے جهماکا سا ہوا، ایک دم اندر باہر روشنی بکهرتی گئی- اس نے جهٹکے سے آنکهیں کهولیں-

” میرا قرآن….. میرا کلام پاک، میرا مصحف-”

وہ کبهی قرآن کے بغیر گهر سے نہیں نکلا کرتی تهی- اس روز بهی وہ اس کے ہاتھ میں تها- بلکہ بیگ میں رکها تها- جب وہ ایکسیڈنٹ کے بعد ادهر لائی گئی ہو گی تو یقینا” وہ بهی ساتھ آیا ہو گا، پهر اسے ادهر ہونا چاہئے-
مگر سات سال، اسے یاد آیا، وہ سات سال درمیان میں آ گئے تهے- ان کے پیچهے تو گویا ہر شے دهول میں گم ہو گئی تهی- اوہ خدایا، وہ کیا کرے؟

جاری ہے……!

اپنا تبصرہ لکھیں