مصحف فیس بک ٹویٹر واٹس ایپ ادب اگست 8, 2015August 8, 2015 0 تبصرے 80 مناظر تحریر عمیر احمد انتخاب راحیلہ ساجد قسط نمبر51 ۔ ” آپ اس معاملے میں نہیں بولیے گا-” ” مگر ایک دفعہ تو مصالحت کی ایک کوشش….” ” پلیز فرشے! مجهے بهکاری مت بنائیں!” اس نے کچھ ایسی بے بسی سے کہا تها کہ فرشتے لب کاٹتی رہ گئی- ” مگر…. وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ کیا اس نے تمہیں وجہ بتائی ہے؟-” ” کیا میں نہیں جانتی؟ ہونہہ!” اس نے تلخی سے سر جهٹکا- ” وہ ایک معذور عورت کے سہارے کب تک رہے، کب تک میری خدمت کرے؟ وہ میری بیماری سے اکتا گیا ہے، میں جانتی ہوں-” ” کیا یہی واحد وجہ ہے؟” ” اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے ؟” ” واللہ اعلم، خیر جو بهی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا، اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس پہ اپنے دل کو بهی راضی کر لینا- لو یو سسٹر!” اس نے اپنے ہاتھ محمل کے ہاتهوں سے ہٹائے اور ہولے سے اس کا گال تهپتهپاتی کهڑی ہو گئی- ” بس یہ یاد رکهنا کہ میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور جب تک تم ٹهیک نہیں ہو جاتیں، میں تمہیں چهوڑ کر کییں نییں جاؤنگی- اوکے-” محمل نے نم آنکهوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا- جب سے ہمایوں نے علیحدگی کی بات کی تهی، وہ لاکھ فرشتے کے سامنے خود کوصابر شاکر ظاہر کرتی ، اندر سے وہ مسلسل ٹوٹ پهوٹ کو شکار تهی- اس کی یادداشت میں ہمایوں کے ساتھ بیتا ایک ہی سال تها- باقی کے ماہ و سال ذہن کے پردے پہ اترے بغیر ہی سرک گئے تهے- اور وہ ایک سال جو اس نے اس گهر میں محبتوں اور چاہتوں کے بیچ گزارا تها- جب وہ دونوں گهنٹوں باتیں کرتے تهے- وہ کینڈل لائٹ ڈنرز، وہ لانگ ڈرائیوز، وہ روز ہمایوں کے لیے تیار ہونا، وہ ٹیرس پہ جا کر رات کو باتیں کرنا، وہ ایک ساتھ کی گئی شاپنگز…… ہر شے اس کی یاد داشت پہ کل کی طرح گزرتی تهی اور ہر یاد اس کے دل پہ مزید آنسو گراتی جاتی تهی- اور اگر تیمور بهی اس کے ساتھ نہ رہا ، تب وہ کیا کرے گی؟ کدهر جائے گی؟ اگر ہمایوں نے اسے گهر سے نکال دیا، تو وہ کہاں رہے گی؟ کیا اپنے چچاؤں کے پاس؟ کیا وہ اسے رکهیں گے؟ یا فرشتے کے ساتھ؟ مگر فرشتے خود تنہا تهی- ہمایوں کے گهر میں مہمان تهی- پهر وہ کیا کرے گی؟” یوں لگتا تها کہ چلچلاتی دهوپ میں اسے لا کهڑا کیا گیا تها- نہ چهت، نہ سائبان، مستقبل کا خوف کسی بهیانک آسیب کی طرح اس کے دل سے چمٹ گیا تها- بار بار یہ سوال ذہن میں اٹهتے اور وہ بمشکل ان کو جهٹلا پاتی- اور پهر آخر کب تک وہ یوں ان کو جهٹکے گی؟ کبهی نہ کبهی تو اسے ان کا جواب چاہئے هو گا اور جس کتاب سے جواب مل جایا کرتے تهے، اس کے صفحے بار بار ایک ہی آیت سے کهل جاتے تهے- کبهی ایک جگہ سے کهل جاتی تو کبهی دوسری جگہ سے اور یہی قصہ سامنے آ جاتا- ” اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطتہ-” مگر ہیکل سلیمانی کا دروازہ کہاں تها؟ وہ تو بن سواری شہر سے نکال باہر کی جا رہی تهی- اندر کیسے جاتی؟ وہ سہ پہر بہت زرد سی اتری تهی- بلقیس نے اسے بیڈ سے وہیل چئیر پہ بٹهایا اور باہر لے آئی- تیمور لاؤنج میں صوفے پہ کتابیں پهیلائے بیٹها تها- اسے آتے دیکھ کر ایک خاموش نظر اس پہ ڈالی، اور پهر نگاہیں کتاب پہ جما دیں- وہ پیاسی نظروں سے اسے دیکهتی رہی، یہاں تک کہ بلقیس وہیل چئیر لاؤنج کے داخلی دروازے تک لے آئی- دروازے کی چوکهٹ پہ لگے گلاس بیل بوٹوں اور نقش و نگار کے درمیان اسے صوفے پہ بیٹهے تیمور کا چہرہ نظر آیا جو بہت غور سے اسے باہر جاتے دیکھ رہا تها- بلقیس وہیل چئیر لان میں لے آئی- تازہ ہوا کا جهونکا چہرے سے ٹکرایا تو بهورے بال پیچهے کو اڑنے لگے- اس نے آنکهیں موند کر لمحے بهر کو موسم کی تازگی اپنے اندر اتارنا چاہی- تب ہی دیوار کے اس پار سے مدهم مدهم سی بهنبهناہٹ سماعت میں اتری- ” اور قسم ہے رات کی جب وہ چها جاتی ہے-” اس نے چونک کر آنکهیں کهولیں- اسے گهر آئے مہینہ ہونے کو آیا تها مگر وہ مسجد کبهی نہین گئی تهی- نہ جانے کیوں؟ ” بلقیس! مجهے مسجد لے چلو-” ایک دم سے اسکا دل مچل گیا- بلقیس نے فرماں داری سے سر ہلا کر وہیل چئیرکا رخ موڑ دیا- ” فرشتے کہاں ہیں؟” اس نے سوچا اسے بهی ساتھ لے لے- ” وہ کهانا کها کر سو گئی تهیں-” ” چلو ٹهیک ہے-” وہ جانتی تهی ، فرشتے تهکی ہوئی ہو گی- صبح بهی وہ فزیوتهراپسٹ کے ساتھ محمل کی ایکسرسائزز اور پهر مساج کرنے میں لگی رہی تهی- پهر… سبزی لانا اور گهر کی نگرانی- وہ شام کو مسجد جائے گی ہی، پهر ابهی اسے کیوں تهکائے سو اس نے فرشتے کو بلانے کا ارادہ ترک کر دیا- مسجد کا ہرا بهرا گهاس سے مزین لان ویسا ہی خوب صورت تها جیسا وہ چهوڑ کر گئی تهی- سفید ستونوں پہ کهڑی عالیشان اونچی عمارت چمکتے سنگ مر مر کے برآمدے…. کونوں میں رکهے سبز لہلہاتے گملے شور مچاتی دنیا سے دور ہنگامے سے پاک ٹهہرا ہوا کونا کونا سکون میں ڈوبا ماحول- مسجد کے اندر کوئی اور ہی دنیا تهی- ٹهنڈی تازگی بهری باوقار سی دنیا- اس کے درو دیوار سے سکون ٹپکتا تها- وہ جیسے بچوں کی طرح کهل اٹهی تهی- آنکهوں کیں چمک آ گئی اور بےاختیار ادهر ادهر گردن گهماتی وہ ہر ہر شے دیکھ لینا چاہتی تهی- بلقیس آہستہ آہستہ وہیل چئیر آگے بڑها رہی تهی- برآمدے میں سنگ مر مر کی سیڑهیاں اترتی تهیں- ان پہ مسلسل اوپر نیچے لڑکیاں آ جا رہی تهیں- سفید یونیفارم کے اوپر لائٹ گرین اسکارف، پہنے وہ مسکراتی ہوئی خوش باش لڑکیاں ہاتهوں میں قرآن اور کتابیں پکڑے ہر کسی.کو مسکرا کر سلام کرتی آس.پاس نظر آ رہی تهیں- ” وعلیکم السلام…. وعلیکم السلام…. وہ مسکرا کر ہر کسی کے سلام.کا جواب دے رہی تهی- وہ وہاں کسی کو نہيں جانتی تهی اور نہ کوئی اسے جانتا تهاپهر بهی سلام کرنا اور سلام کرنے میں پہل کرنے کی حرص رکهے ہر کوئی پاس سے گزرتے ہوئےسلام کرتا تها- اس کا پور پور خوشی میں ڈوب رہا تها- یہ ماحول، یہ درودیوار تو اس کی زندگی کا حصہ تهے- وہ کیسے اتنا عرصہ ان سے کٹی رہی؟ وہ نم آنکهوں سے وہیل چئیر پہ بیٹهی مسکراتے ہوئے سب کے سلام کا جواب دے رہی تهی- نہ کسی نے رک کر ترس سے پوچها کہ اسے کیا ہوا ہے، نہ کسی نے ترحم بهری نگاه ڈالی – نہ کوئی تجسس نہ کرید، وہ کونے مین وہیل چئیر پہ بیٹهی ساری چہل پہل دیکھ رہی تهی- پهر کتنی ہی دیر وہ وہاں بیٹهی رہی یہاں تک کہ بلقیس نے مرکز تک جانے کے اجازت مانگی- ” رات صاحب کے کوئی سرکاری مہمان آنے ہیں اور فرشتے بی بی نے مجهے گوشت بنوانے کا کہا تها، میں بهول ہی گئی- آپ بیٹهو میں لے آتی ہوں- ” نہیں آج میں بهی تمہارے ساتھ جاؤنگی- آج دل کر رہا ہے دنیا کو پهر سے دیکهنے کا-” ایک الوہی سی چمک نے محمل کے چہرے کا احاطہ کر رکها تها- وہ اس ماحول مین آ کر جیسے بہت خوش تهی اور اس خوشی کو اپنے اندر سمیٹ کر اب وہ دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار تهی- آج اسے بازار جانے سے ڈر نہین لگ رہا تها- بلقیس عادتا” چهوٹی موٹی ادهر ادهر کی باتیں کرتی اس کی وہیل چئیر چلاتی مرکز تک لے آئی- مرکز وہاں سے بہت قریب پڑتا تها- وہ گوشت بنوانے دکان مین چلی گئی جبکہ محمل باہر بیٹهی رہی- گاڑیاں بیت تیزی سے گزر رہی تهیں- لوگ بہت اونچا بول رہے تهے- موٹرسائیکلیں بہت شور مچا رہی تهیں- روشنیاں بہت تیز تهیں- ذرا سی دیر میں ہی سارا سکون ہوا ہو گیا- اس کا دل گهبرانے لگا- ” جلدی کرو بلقیس-” وہ لفافے تهامے دکان سے باہر آئی تو محمل سخت اکتا چکی تهی- ” بس بی بی! یہ سامنے والے پلازہ میں ہوٹل ہے- تیمور بابا کے لیے پزا لے لوں- ورنہ بابا کهانا نہیں کهائے گا- بس بی بی پانچ منٹ-” وہ تیز تیز وہیل چئیر دهکیلتی کہہ رہی تهی- محمل نے بےزاری اور بےچینی سے سڑک کو دیکها- وہ فرآٹے بهرتی گاڑیاں اسے بہت بری لگ رہی تهیں- ایسی ہی کسی گاڑی نے اسے کبهی ٹکر ماری تهی- بلقیس ایک فاسٹ فوڈ کے سامنے اسے کهڑا کر کے اندر چلی گئی- وہ اس ریسٹورنٹ کی گلاس والز کو تکتے اس گاڑی کو یاد کرنے لگی، جس نے اسے ٹکر ماری تهی- نہ جانے وہ کون تها یا تهی؟ پکڑا بهی گیا یا نہیں ؟ کیا ہمایوں نے اس پہ مقدمہ کیا ہو گا؟ اسے جیل بهیجا ہو گا؟ مگر یوں مقدمہ کرنے سے اسکا نقصان تو پورا نہیں ہو سکتا تها- ” خیر جانے دو ، میں نے معاف کیا سب کو-” اس نے سر جهٹکا اور پهر بےچین اور منتظر نگاہوں سے ریسٹورنٹ کی گلاس وال کو دیکها-بلقیس جانے کہاں گم ہو گئی تهی- وہ یونہی بےزاری سے نگاہ ادهر ادهر گهماتی رہی دفعتا” بری طرح ٹهٹهکی- ریسٹورنٹ کی گلاس وال کے اس طرف کا منظر صاف واضح تها- کونے والی میز پہ وہ بیٹها مسکراتے ہوئے ، والٹ کهولتا ہمایوں ہی تها- وہ یک ٹک اس کی مسکراہٹ کو دیکهے گئی- کیا اسے مسکرانا یاد تها؟ کیا اسے مسکرانا آتا تها؟- اور تب اس کی نظر ہمایوں کے مقابل بیٹهی لڑکی پہ پڑی- شولڈر کٹ بال، سلیولیس شرٹ، دوپٹہ ندارد، کمان کی طرح پتلی آئی بروز……. وہ مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہی تهی- اور ہمایوں سر جهٹک کر مسلسل مسکرائے جا رہا تها- اس لڑکی کو وہ اچهی طرح پہچانتی تهی- وہ آرزو تهی- وہ واقعی آرزو تهی- ہمایوں اب والٹ سے چند نوٹ نکالتے ہوئے کچھ کہہ رہا تها- جبکہ وہ ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تهی- دوموں کے درمیان بےتکلفی واضح اور عیاں تهی- ” تو یہ بات تهی ہمایوں داؤد! تمہیں آرزو ہی ملی تهی-” اس نے غم سے لب کاٹتے ہوئے سر جهٹکا تها- فرشتے ٹهیک کہتی تهی- یقینا” وجہ کوئی اور تهی- اس کی معذوری کا تو بہانہ تها- اصل وجہ تو وہ پتلی کامنی سی ابرو والی شاطر لڑکی تهی جو اس کے شوہر کے ساتھ سرعام لنچ کر رہی تهی- اس نے کہا تها، وہ ہمایوں کو اس سے چهین لے گی، اس نے ٹهیک ہی کہا تها- محمل نے کرب سے سوچا- کسی نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی، اور پهر گردن اٹها کر سامنے دیکها- فرشتے حیران سی اس کے سامنے کهڑی تهی- زرد شلوار قمیض میں ملبوس دوپٹہ شانوں پہ پهیلائے اس نے گیلے بهورے بال سمیٹ کر دائیں شانے پہ ڈال رکهے تهے- شاید ابهی وہ نہا کر آئی تهی- ” کدهر گم ہو محمل؟ کب سے تمہیں بلا رہی ہوں؟-” وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے کارپٹ پہ بیٹهی اور اس کے دونوں ہاتھ تهام لیے- دائیں شانے پہ پڑے اس کے گیلے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک کر دامن کو بهگو رہے تهے- ” آپ ٹهیک کہتی تهیں فرشتے-” وہ جیسے ہار گئی تهی- فرشتے کو لگا وہ رو رہی ہے، مگر اس کے آنسو باہر نہیں اندر گر رہے تهے- ” میں نے آج خود ان دونوں کو دیکها ہے-” ” کن دونوں کو؟” وہ بری طرح چونکی- ” ہمایوں… اور.. اور آرزو کو-” ” آرزو؟ اسد انکل کی بیٹی آرزو؟” ” ہاں وہی، کیا اسد چچا کی ڈیتھ ہو گئی ہے؟” ” تم نے انہیں کدهر دیکها؟” وہ اس کا سوال نظر انداز کر گئی تهی- ” مرکز کے ایک ریسٹورنٹ میں- وہ دونوں لنچ کر رہے تهے یا شاید ہائی ٹی- فرشتے ہمایوں ہنس رہے تهے میں تو سمجهی تهی کہ وہ ہنسنا بهول ہی گئے ہیں-” ” مگر یہ بهی ہو سکتا ہے کہ….. پتا نہیں مگر…. وہ متذبذب تهی، کچھ کہتے کہتے رک گئی- ” مجهے پتا ہے وہ آرزو کی وجہ سے میرے ساتھ یوں کر رہے ہیں- اس نے کہا تها وہ ہمایوں کو مجھ سے چهین لے گی اور اس نے کر دکهایا- کیا وہ کبهی اس گهر میں آئی ہے؟” ” ہاں وہ اکثر آتی رہتی ہے، مگر تمہارے گهر شفٹ ہو جانے کے بعد وہ کبهی نہیں آئی-” ” واقعی؟” اسے حیرت بهی ہوئی اور غصہ بهی آیا- آخر وہ کس حیثیت سے آئی تهی اس کے گهر؟ ” آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ اندر کیوں آنے دیا؟” ” یہ میرا گهر نہیں ہے محمل! مجهے اس کا حق نہیں ہے-” محمل چپ سی ہو گئی- اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تها- ہمایوں کے کچھ گیسٹ آنے ہیں چائے پہ- ابهی پہنچنے والے ہونگے، میں ذرا کچن دیکھ لوں-” وہ اس کے ہاتهوں سے ہاتھ نکال کر اٹھ کهڑی ہوئی- گیلے بال شانے سے پهسل کر کمر پہ جاگرے- ” آپ….آپ بہت اچهی ہیں فرشتے-” وہ کہے بغیر نہ رہ سکی- ” وہ تو مجهے پتا ہے-” وہ نرمی سے مسکرائی اور دوپٹے کا پلو سر پہ ڈالا، پهر اچهی طرح چہرے کے گرد حصار بنا کر دایاں پلو بائین کندهے پہ ڈال دیا- یوں کہ بال اور کان چهپ گئے- ” تم آرام کرو-” وہ باہر نکل گئی اور محمل وہیں اداس ، ویران سی بیٹهی رہ گئی- ” باہر سے چہل پہل کی مدهم آوازیں آ رہی تهیں- کافی دیر بعد اس نے کهڑکی سے ہمایوں کی گاڑی کو آتے دیکها تها- اس کے ہمرا دو تین معزز اشخاص بهی تهے- ہمایوں اسی لباس میں تها جس میں ابهی شام میں آرزو کے ساتھ بیٹها تها- گویا وہ واقعی وہی تها، یہ اس کا واہمہ نہ تها- وہ حسرت و یاس سے کهڑکی سے لگی ان کو اندر جاتے دیکهتی رہی- اس کے کمرے میں اندهیرا اتر آیا تها- باہر روشنی تهی- باہر والے اسے نہیں دیکھ سکتے تهے، اور وہ “باہر والا” تو شاید اب کبهی بهی اسے نہ دیکھ سکے- اس کے پاس اب بہتر انتخاب تها- جوان، اسٹائلش، زندگی سے بهر پور عورت، بےشک وہ محمل کی طرح خوبصورت نہ تهی، مگر اس کی تراش خراش کی گئی شکل ” اب” کی محمل سے حسین لگتی تهی- کیا کبهی حالات بدلیں گے، کیا کبهی ہمایوں لوٹے گا؟ کیا کبهی اس کی معذوری ختم ہو گی؟ کیا کبهی تیمور اس کے پاس آئے گا؟ کیا یہ گهر اس کا رہ سکے گا؟ کیا وہ دربدر کر دی جائے گی؟ کیا وہ بے سہارا چهوڑ دی جائے گی؟ اندر کا خوف اور بےبسی آنسووں کی صورت مین آنکهوں سے نکل کر چہرے پہ لڑهکنے لگی- مستقل ایک بهیانک سیاہ پردے کی مانند ہر طرف چهاتا دکهائی دے رہا تها، اس نے کرب سے آنکهیں میچ لیں- ” اللہ اس چیز سے بڑا ہے ، جس سے مین ڈرتی اور خوف کهاتی ہوں-” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وہ ایک کلمہ وہ بار بار زیر لب دہرا رہی تهی- یہاں تک کہ اندر کا کرب قدرے کم ہوا اور ذرا سکون آیا تو اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹهائے- ” اگر ان لوگوں نے مجهے چهوڑ ہی دینا ہے، نکال ہی دینا ہے ، تو مجهے کسی بےقدرے کے حوالے مت کرنا، میرے مالک! کوئی امید کا سرا دکها دے، کوئی روشنی دکها دے؛” وہ بنا لب ہلائے دعا کے لیے اٹهے ہاتهوں کو دیکھ رہی تهی- آنکهوں سے آنسو اسی طرح بہہ رہے تهے- پهر جب وہ بہت رو چکی تو چہرہ پونچها اور سائیڈ ٹیبل پہ رکها اپنا سفید کور والا قرآن اٹهایا- اس کے فنٹ کور پہ مٹا مٹا سا”م” اسی طرح لکها تها- اسے یاد نہ تها کہ اس نے آخری دفعہ تلاوت کہاں چهوڑی تهی، پتا نہیں نشان کہں لگایا تها یا نہیں- بس جہاں سے صفحہ کهلا اس نے پڑهنا شروع کر دیا- لاشعوری طور پر وہ اللہ تعالی سے رہنمائی چاہتی تهی- ” اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچهی ہو سکتی ہے، جو اللہ کی طرف بلائے اور اچهے عمل کرے اور کہے، بےشک میں مسلمانوں میں سے ہوں-” اس نے اگلی آیت پڑهی- ” اور بهلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں سو(برائی کو) اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو، پهر دفعتا” وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، یوں ہو جائے گا گویا کہ تمہارا حمیم( گہرا جاں نثار دوست) ہو-” اس نے اچنبهے سے ان آیات کو دیکها- کیا اب بهی کوئی امید تهی کہ وہ شخص اس کا حمیم بن سکتا ہے؟ اب تو کچھ باقی نہیں رہا تها، سب ختم ہو گیا تها- اس نے اس آیت کو دوبارہ پڑها- بہت ہی عجب ماجرا تها- آج وہ اپنے شوہر خو دوسری عورت کے ساتھ خوش گپياں کرتے ہوئے دیکھ آئی تهی- اپنے اس شوہر کو جو برملا اس سے علحدگی کا کہہ چکا تها- اس کا اپنا بچہ اس سے بدکتا تها- اس سے نفرت کرتا تها- اس کی بےانتہا امید دلانے والی بہن بهی آج خاموش تهی، آج اس نے بهی امید نہین دلائی تهی کہ ہمایوں کا رویہ سب کے سامنے تها- اس نے پهر سے پڑها- ” پهر دفعتا” وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، ہوں ہو جائے گا گویا تمہارا حمیم ہو- اور اس خوبی کو ان لوگوں کے سوا کوئی اور نہیں حاصل کر سکتا جو بہت صبر کرتے ہیں اور اس خوبی کو ان کے علاوہ کوئی حاصل نہیں کر سکتا جو بہت قسمت والے ہوتے ہیں-” میں اتنی صبر کرنے والی اور بڑی قسمت والی کہاں ہوں اللہ تعالی؟ اس نے یاس سے سوچا تها- کیا واقعی وہ کبهی ان عداوتوں کو پگهلا نہیں سکے گی؟ کیا اسے مایوس ہو جانا چاہیئے-؟ اس نے قرآن بند کر کے شیلف پہ رکها، اور وہیل چئیر کو گهسیٹتی ہوئی کهڑکی کے پاس لے آئی- قدآور کهڑکی شفاف شیشوں کے اس پار ڈوبتی شام کا منظر نمایاں تها- دور اوپر کہیں آدها چاند بادلوں سے جهانک رہا تها- یہاں تک کہ شام ڈوب گئی اور چاندنی سے کهڑکی کے شیشے روشن ہو گئے- وہ اسی طرح اندهیرے میں ڈوبے کمرے میں بیٹهی، گردن اٹهائے چاند کو دیکه رہی تهی- ” ادفع بالتی ہی احسن-“( دور کرو اسے اس طریقے سے جو بہترین ہو) جو بہترین ہو جو بہترین ہو ایک آواز بار بار اس کی سماعت میں گونج رہی تهی- وہ چپ چاپ چاند کو.دیکهے گئی-جاری ہے… Post Views: 100