مصحف

تیسری قسط.

اس کی آنکهیں کانچ سی سنہری تهیں اور ہلکا سا کاجل بهی ان کو دہکا دیتا تها – وہ بلاشبہ گهر کی سب سے حسین لڑکی تهی – 

اس کا اور مسرت کا مشترکہ کمرہ دراصل کچن کے ساته ملحقہ اسٹور روم تها- بہت چهوٹا’ نہ بہت بڑا- عرصہ پہلے اسے کاٹھ کباڑ سے خالی کروا کے ان دونوں کو ادهر منتقل کر دیا گیا تها – اس کے ساتھ باتھ روم نہ تها ‘ اس لیے ان کو لاونج پار کر کے گیسٹ باتھ روم کی طرف جانا پڑتا تها
باہر لاونج میں ناعمہ چاچی کے چهوٹے معاذ اور معیذ فٹبال ادهر ادهر مارتے دوڑتے پهر رہے تهے
” تمیز نہیں ہے تم لوگوں کو ‘ ديکھ کر کهیلا کرو ‘ میں سو رہی تهی -” 
کچن کے کهلے دروازے پہ کهڑی ‘ کسی سے بات کرتی ناعمہ چچی فورا مڑیں –
” اب میرے بچے کهیلے بهی نا ‘ تمهارا تو کام ہی سونا ہے ‘ نہ دن دیکها نہ رات ‘ ہر وقت بستر ہی توڑتی رہتی ہو.” 
” ہاں تو میرے باپ کے پیسے سے یہ بستر آئے تهے ‘ توڑوں  يا  پهوڑوں ‘ میری مرضی – ابا کی ڈیتھ سے پہلے اسد چچا تو غالبا بے روزگار تهے نا -” وہ بهی محمل تهی سارے حساب فورا چکا کر بے نیازی سے باتھ روم کی طرف چلی گئی – ادهر ناعمہ چچی بڑبڑاتی ره گئیں – 
منہ هاتھ دهو کر اس نے اپنے سلکی بهورے بال دونوں ہاتهوں میں سمیٹ کر اونچے کیے اور پونی باندهی- بہت اونچی سی بهوری یہ پونی ٹیل اس پہ بہت اچهی لگتی تهی – وہ زرا بهی سر ہلاتی تو اونچی پونی ساتھ  ہی گردن کے اوپر جهولتی –
اس کی آنکهیں کانچ سی سنہری تهیں اور ہلکا سا کاجل بهی ان کو دہکا دیتا تها – وہ بلاشبہ گهر کی سب سے حسین لڑکی تهی – 
” اسی لیے تو جلتی ہیں یہ سب -” اسے ہنسی آ گئی- ایک نظر خود پہ ڈالی- جینز کے اوپر کهلا سا کرتا اور گردن کے گرد لپٹا دوپٹہ ‘ مفکر کی طرح ایک پلو سامنے کو لٹکتا اور دوسرا کمر پہ گرتا وہ واقعی سب سے منفرد تهی – 
کچن میں تائی مہتاب نگٹس نکال کر مسرت کے سامنے رکھ رہی تهیں ‘ جو بہت تابعداری سے ایک طرف چائے کا پانی چڑها کر ‘ دوسری طرف کڑاہی میں تیل گرم کر رہی تهیں – اس پہ نظر پڑی تو نگٹس رکهتے ہوئے ذرا لاپرواہی سے گویا ہوئیں – 
” یہ بچوں کے لیے فرائی کر دو مسرت ‘ اب ہر کوئی تو باہر سے منہ مار کر نہیں آتا نا -” 
” بجا فرمایا تائی اماں ! یہاں تو لوگ گهر کے اندر ہی دوسروں کے مال پہ منہ مارتے ہیں -” وہ اطمینان سے کہہ کر کولر سے پانی کا گلاس بهرنے لگی – 
“زبان کو سنبهالو لڑکی ‘ توبہ ہے ‘ ہماری بیٹیاں تو کبهی ایسے ہمارے آگے نہ بولیں -” 
” آپ برا مت مانیں بهابهی بیگم ! میں سمجها دونگی -” گهبرا کر مسرت نے ایک ملتجی نگاه محمل پہ ڈالی – وہ کندها اچکا کر کهڑے کهڑے پانی پینے لگی – 
” سمجها دینا ‘ بہتر ہوگا -” اس پہ ایک تنفر بهری نگاه ڈال کر تائی مہتاب باہر چلی گئیں – ناعمہ چچی پہلے ہی جا چکی تهیں – اب مسرت اور محمل ہی کچن میں رہ گئے تهے – 
” اب یقینا برتن بهی آپ کو ہی دهونے ہوں گے ‘ اماں !” 
“دهو بهی دوں تو کیا ہے ‘ ان کے احسان کم ہیں ہم پہ -” وہ مصروف سی ایک ایک کر کے نگٹس کڑاہی میں ڈال رہی تهیں- 
محمل نے ایک گہری سانس لی اور آستینیں موڑ کر سنک کی طرف متوجہ ہوئی – اسے علم تها کہ اگر وہ نہ کرے گی تو مسرت کو ہی کرنا ہوگا اور ابهی تو انہوں نے رات کا کهانا بهی تیار کرنا تها – 
” رہنے دو بیٹا ! میں کر لونگی -” 
” مجهے پتہ ہے آپ کر لیں گی مگر میں بهی ان لوگوں پہ ذرا احسان کرنا چاہتی ہوں -” وہ برتن دهو کر فارغ ہوئی تو مسرت ٹرالی بهر چکی تهیں- 
” محمل یہ باہر لے جاو ‘ سب لان میں ہونگے -” وہ بنا احتجاج ٹرالی گهسیٹنے لگی – لان میں روز شام کی طرح کرسیاں لگی ہوئی تهیں – 
آغا کریم اخبار کهولے دیکه رہے تهے ‘ ساته ہی مہتاب تائی اور ناعمہ چچی باتیں کر رہی تهیں – ناعمہ چچی سب سے چهوٹے چچا اسد کی بیوی تهیں ‘ جو قریب ہی بیٹهے غفران چچا سے کچھ کہہ رہے تهے – غفران چچا اور محمل کے ابا آغا ابراہیم جڑواں تهے – آغا کریم ان سے بڑے اور اسد چچا چاروں بهائیوں میں سب سے چهوٹے تهے – 
غفران چچا کی بیگم فضہ چچی برآمدے میں کهڑی ‘ اپنی بیٹی کو آواز دے رہی تهیں – اسے ٹرالی لے کر آتا ديکھ کر مسکرائیں.- 
” ارے محمل جان ! تم اکیلی لگی رہیں ‘ ندا یا سامیہ کو کہہ دیا ہوتا ‘ تمہاری ہیلپ کروا دیتیں -” 
فضہ چچی ناعمہ اور مہتاب کی طرح زبان کی کڑوی نہ تهیں ‘ بلکہ اتنی میٹهی تهیں کہ جب یہ مٹهاس اپنے لبوں سے دوسرے کے حلق میں انڈیلتیں تو وہاں کانٹے اگ آتے تهے – 
” اٹس اوکے -” وہ بهی بس مسکرا کر ٹرالی آگے لے گئی – اب کیا کہتی کہ ندا اور سامیہ نے پہلے کونسے کام کیے تهے جو اب کرتیں – اگر وہ انہیں بلاتی تو وہ فورا چلئ آتیں ‘ ایک دو چیزیں پکڑاتیں ‘ چولہا جلاتیں ‘ باتیں بگهارتیں ‘ اور پهر آہستہ سے کهسک جاتیں – اس کے بعد فضہ چچی سب کو ایک ایک چیز “یہ چکهیں ‘ میری سامیہ نے بنائی ہیں -” اور میری ندا کے ہاته میں تو بہت ذائقہ ہے -” کہہ کر پیش کرتیں – اس پہ مہتاب تائی ان کی تعریف تو نہ کرتیں مگر مسرت اور محمل کو کاہلی کے وہ طعنے ملتے کہ اس سارے قصہ سے بچنےکو محمل نے کبهی ان دونوں کو بلانے کی غلطی نہ کی تهی – مگر فضہ چچی کی یہ میٹهی زبان ہی تهی کہ وہ نہ کبهی ان کو پلٹ کے جواب دے سکی ‘ نہ ہی کچھ  جتا سکی تهی – وہ موقع ہی نہ دیتی تهیں – 
لاو لاو جلدی کرو دونوں ماں بیٹی لگتی ہیں پهر بهی گهنٹہ لگ جاتا ہے – 
” تائی آپ کوئی ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتیں – کم از کم آپ کو ہم ماں بیٹی پہ چلانا تو نہیں پڑے گا -” وہ تیزی سے کہہ کر ٹرالی وہیں چهوڑے واپس چلی گئی – سب باتیں چهوڑ کر ادهر دیکهنے لگے تهے- 
” احسان کرنے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا -” تائی نے ٹرالی اپنی طرف کهینچی – آغا کریم نگاہیں چرا کر پهر سے اخبار میں گم ہو چکے تهے- 
وہ واپس کچن کی طرف آئی تو فواد تیزی سے سیڑهیاں پهلانگتا نیچے آ رہا تها – 
” چائے لگ گئی ؟” آخری سیڑهی اترتے مصروف سے انداز میں کہتے وہ کلائی پہ گهڑی بانده رہا تها – 
” اسنیکس لے گئی ہوں ‘ چائے لاتی ہوں -” وہ زیادہ غور سے سنے بغیر باہر نکل گیا – محمل نے رک کر لمحہ بهر کو اسے جاتے دیکها – 
وہ مہتاب تائی کا بڑا بیٹا تها – حنان ‘ وسیم اس کے بعد تهے اور سدرہ اور مہرین سب سے چهوٹی تهیں – فواد ‘ آغا جان کے آفس جاتا تها ‘ اونچا لمبا ‘ خوش شکل تو تها ہی مگر ڈریسنگ اور دولت کی چمک دمک سے مزید پر کشش اور ہینڈسم لگتا تها – خاندان کا سب سے پاپولر لڑکا ‘ جس پہ ہر لڑکی کا دل اور لڑکی کی ماں کی نظر تهی – ندا اور سامیہ ہوں ‘ یا ناعمہ چچی کی مغرور ‘ نخریلی آرزو ‘ سب فواد کے آگے پیچهے پهرتیں – رضیہ پهپهو تو اپنی اکلوتی فائقہ کے لیے کبهی فواد کو ڈنر پہ بلا رہی ہیں تو کبهی فائقہ انڈوں کو حلوہ بنا کر اس کے لیے لا رہی ہے – فواد میٹها شوق سے کهاتا تها سو یہ لڑکیاں ماوں کے بنائے کو اپنا کہہ کر بہت شوق سے پیش کرتی تهیں – مگر وہ بهی سدا کا بے نیاز تها – اپنی اہمیت کا احساس تها کہ بے نیازی اور اتراہٹ کم نہ ہوتی تهی – اور وہی توتها جس پہ مہتاب تائی گردن اونچی کر کے پهرتی تهیں ‘ ورنہ حنان تو بمشکل ایف اے کر کے دبئی ایسا گیا کہ نہ تو پهر خط لکها ‘ نہ ہی پهوٹی کوڑی گهر بهیجی – تعلیمی ریکارڈ اسکا اتنا برا تها کہ تائی کڑهتی رہتی تهیں – مگر یہ وسیم تها جس نے تائی اور آغا کریم کا ہر جگہ سر شرم سے جهکایا تها – 
نالائق ‘ نکما ‘ ایف اے میں دو بار فیل ہو کر پڑهائی چهوڑ کر آوارہ گردی میں مشغول ‘ سگریٹ کا عادی…….. اور کہنے والے تو دبے لفظوں کہہ بهی دیتے تهے کہ ان گلیوں کا بهی پرانا شناسا ہے جہاں دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں – 
وہ سر جهٹک کر کچن میں آئی تو مسرت جلدی جلدی کپڑے سے سلیب صاف کر رہی تهیں – انکی پیالی میں آدها کپ چائے پڑی تهی – ان سے کچھ کہنا بیکار تها- اس نےٹرے اٹها لی- 
لان میں فضہ چچی کے ساته والہ کرسی پہ فواد بیٹها تها – وہ اسے مسکرا کر بہت توجہ سے کچھ  بتا رہی تهیں اور وہ لاپرواہی سے سن رہا تها –
محمل اسکے کپ میں چائے انڈیل ہی رہی تهی کہ وہ کہہ اٹها – 
” میرے کپ میں چینی مت ڈالنا -” 
“نہیں ڈالی-” وہ پنجوں کے بل گهاس پہ بیٹهی سب کو چائے اٹها کر دے رہی تهی –
” ارے بیٹا ‘ چینی کیوں نہیں پی رہے ؟” فضا چچی بہت زیادہ فکر مند ہوئیں –
” یونہی کچھ  ویٹ لوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں -” 
” اتنے تو اسمارٹ ہو اور کیا لوز کروگے ؟” آرزو اسی پل سامنے والی کرسی پہ آ بیٹهی تهی ” اور میری چائے میں آدها چمچہ چینی ‘ محمل !” 
وہ فواد کے بالکل سامنے ٹانگ پہ ٹانگ چڑها کر بیٹهی تهی – چست سا سفید ٹراوزر اور اوپر قدرے کهلے گلے والی ریڈ شارٹ شرٹ- کندهوں تک اسٹیپ میں کٹے بال ‘ اور گندمی عام سا چہرہ جسکو بہت محنت سے اس نے قدرے پرکشش بنایا تها مگر پتلی کمان سی آئی براز اس کو بہت شاطر دکهاتی تهیں – 
“فٹ تو رکهنا پڑتا ہے خود کو – محمل یہ کباب پکڑانا -” فواد نے ہاته بڑها کر کہا تو محمل نے فورا کباب کی پلیٹ اٹها کر دینی چاہی اور دیتے دیتے اسکی انگلیاں فواد کے ہاتهوں سے مس ہوئیں – وہ چونکا تو گهبرا کر محمل نے پلیٹ چهوڑ دی – وہ گر جاتی اگر وہ تهام نہ لیتا- محمل نے فورا ہاتھ کهینچ لیا – وہ پلیٹ پکڑے یک ٹک اسے ديکھ رہا تها – چونک کر ‘ سب کچھ بهول کر ‘ جیسے اسے پہلی دفعہ دیکها ہو -بس لمحے بهر کا عمل تها – اس نے رخ پهیر کیا تو وہ بهی دوسری جانب متوجہ ہو گیا – 
فضہ چچی اور آرزو کسی اور طرف متوجہ تهیں – کسی نے بهی وہ لمحہ محسوس نہ کیا تها جو آ کر گزر بهی چکا تها اور فواد ‘ وہ وقفے وقفے سے اس پہ ایک نگاہ ڈالتا تها ‘ جو پنجوں کے بل گهاس پہ بیٹهی سب کو چائے سرو کر رہی تهی – ذرا سا سر جهکاتی تو بهوری پونی ٹیل اور اونچی لگتی – سر اٹهاتی تو پونی ساتھ ہی جهولتی اور وہ کانچ سی سنہری آنکهیں ان ساری لڑکیوں کے پاس اس جیسا کچھ  بهی تو نہ تها – 
وہ چائے کے سپ لیتا خاموشی سے اسے دیکهتا رہا.
جاری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں