تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
” ہیلو!”
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے ، گهٹنوں پہ پراسپیکٹس رکهے سرسری سا پڑھ رہی تهی جب دروازہ کهلا- آواز پہ محمل نے سر اٹهایا-
چوکهٹ میں آرزو کهڑی تهی- ریڈ ٹراؤزر کے اوپر سلیولیس سفید شرٹ ، یہ اسکا مخصوص ایکسر سائز کا لباس تها- کٹے ہوئے بال شانوں تک آتے تهے-پتلی کمان کی طرح بهنویں اٹهائے وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تهی-
” کیسی ہو؟” انداز دوستانہ تها- محمل بمشکل سنبهل پائی-
“ٹهیک ہوں – آپ کیسی ہیں؟” وہ سیدهی ہو بیٹهی اور پراسپیکٹس نامحسوس انداز سے ایک طرف کهسکا دیا-
” فٹ-” وہ بےتکلفی سے اس کے بیڈ کے کنارے ٹک گئی- اندر آتے ہوئے اس نے دروازہ پورا بند کر دیا تها- محمل بےیقینی سے اسے دیکه رہی تهی ، جو عادتا بالوں میں انگلیاں چلاتی، اپنی پتلی بهنووں کو سکیڑے کمرے کا جائزہ لے رہی تهی-
” کتنا چهوٹا کمرہ ہے تمهارا محمل؟ ایٹ لیسٹ آغاجان کو تمہیں پراپر بیڈروم دینا چاہیئے تها- بعض دفعہ آغاجان بہت زیادتی کر جاتے ہیں- ہے نا؟” اس نے رائے مانگی- محمل نے اک نظر دروازے کو دیکها وہ بند تها-
” معلوم نہیں-”
” تم کہو تو میں ابا سے کہہ کر تمہیں بڑا روم دلا دوں؟”
یہ خیال اتنے سالوں میں تو آپکو آیا نہیں – آج کیوں؟
” اٹس اوکے- میں خوش ہوں-” اس نے پهر سے بند دروازے کو دیکها- ” مجهے آغاجان سے کوئی شکایت نہیں-”
” خیر ، آغاجان ہی کی کیا بات ہے- خود فواد نے تمہارے ساتھ کتنی زیادتی کی- کم آزکم گهر کی عزت ہی کا خیال کیا ہوتا-”
” آپ کو، آپ کو میرا یقین ہے؟” اسے جهٹکا لگا تها-
آف کورس- فواد کو کون نہیں جانتا اور اب تو یہ لوگ تمہارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں-”
” کیسی سازشیں؟” وہ محتاط ہوئی-
” یہ تم سے اس اےایس پی کے خلاف بیان دلوائیں گے – کیا نام تها اس کا ؟ ہمایوں؟” اس کا انداز بےحد سرسری تها-
” ہمایوں داؤد-” بات کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگی تهی-
” ہاں اسی کے گهر فواد تمہیں لے گیا تها نا- کدهر رہتا ہے وہ؟” اب آرزو بہت لاپرواہی سےکہتی ادهر ادهر زیادہ دیکھ رہی تهی-
” یہ تو مجهے نہیں پتا آرزو باجی کہ وہ کس کا گهر تها-”
” فون نمبر تو ہو گا تمهارے پاس؟”
” جی ہے- آپ کو چاہیئے؟”
” ہاں بتاؤ!” آرزو ایک دم الرٹ سی ہوئی- سارا سرسری پن اوڑنچهو ہوگیا-
” ون فائیو پہ کال کرلیں، یہی نمبر ہوتا ہے پولیس والوں کا- اس نے مسکراہٹ دبائے پراسپیکٹس پهر سے اٹها لیا-
خیر ، رہنے دو- مجهے کچھ کام ہے ، چلتی ہوں-” آرزو ناگواری سے کہتے ہوئے تیزی سے اٹھ کر باہر نکل گئی-
” ان کا بهی کیسا دل ہے ، فٹبال کی طرح فواد اور ہمایوں کے درمیان لڑهکتا رہتا ہے- ہونہہ-” اس نے استہزائیہ سر جهٹک کر پهر سے پراسپیکٹس اٹها لیا-
آج کتنے ہی دنوں بعد وہ خود سے ناشتے کی میز پہ موجود تهی- کسی نے اس کو مخاطب نہ کیا، وہ خود بهی خاموشی سے تیز تیز لقمے لے رہی تهی- یونیفارم کی سفید شلوار قمیص پہنے اور بےبی پنک اسکارف گردن میں ڈالے، بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے، وہ اپنی پلیٹ پہ جهکی تهی-
” محمل!” فضہ چچی نے خود ہی اسے مخاطب کر لیا- وہ بغور اسے دیکھ رہی تهیں- ” کالج جوائن کر لیا ہے؟”
توس پہ جیم لگاتے حسن نے چونک کر اسے دیکها جو سر جهکائے ناشتے میں مگن تهی- اونچی بهوری پونی سے ایک لٹ نکل کر گال کو چهو رہی تهی- فضہ کے پکارنے پہ اس نے گردن اٹهائی-
” نہیں – ایک انسٹیٹیوٹ میں ایڈمیشن لیا ہے-”
” کیا پڑهتی ہو ادهر؟”
” میں بتانا ضروری نہیں سمجهتی-” وہ کرسی دهکیلتی اٹھ گئی تهی- حسن کی نگاہوں نے دور تک اسے باہر جاتے دیکها تها-
اسکول کی ایک راہداری میں لگے قد آدم آئینے کے سامنے کهڑے ہو کر اس نے اسکارف کو سر پر رکها اور چہرے کے گرد نفاست سے لپیٹ کر پن لگائی، یوں کہ دمکتی سنہری رنگت والا چہرہ’ بےبی پنک بیضوی ہالے میں مقید ہو گیا- اونچی پونی ٹیل کے باعث پیچهے سے اسکارف قدرے اوپر اٹھ گیا-
” ہوں نائس-” وہ خود کو سراہتی واپس برآمدے تک آئی- گهر سے اسکارف لے کر آنا اسے عجیب سالگ رہا تها ، سو یہیں آ کر اس نے اسے سر پر لیا تها-
برآمدے سے چوڑی سیڑهیاں نیچے ہال میں جاتی تهیں- ساتھ ہی جوتوں کا ریک پڑا تها- اس نے جوتے ریک پہ اتارے اور ننگے پاؤں سنگ مرمر کے ٹهنڈے زینے اترنے لگی-
وسیع و عریض Prayer ہال بهرا ہوا تها- قالین پہ سفید چادریں بچهی تهیں- ان پہ بہت سلیقے سے صفوں میں ڈیسک لگے تهے- وہ ڈیسک زمین سے بازو بهر ہی اونچے تهے، جیسے عموما مدرسوں میں ہوتے ییں- ڈیسکوں کے پیچهے سفید یونیفارم اور بےبی پنک اسکارف سے ڈهکے سروں والی لڑکیاں سفید چادروں پہ دوزانو مؤدب سی بیٹهی تهیں-
محمل نے آہستہ سے آخری سیڑهی پہ پاؤں رکها- وہ ہال کے آخر میں تهی- اس کے سامنے ان ساری صفوں میں بیٹهی لڑکیوں کی پشت تهی- سامنے اونچے فارم پہ میڈم کی کرسی اور ٹیبل تهی- ان کے پیچهے دیوار پہ وہ کیلی گرافی آویزاں تهی-
” قرآن ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں-”
اسے لگا وہ ان لڑکیوں کی طرح نیچے نہیں بیٹھ سکے گی- سو ہال کے آخر میں دیوار کے ساتھ لگی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی-.اس کی کتابیں خاصی انٹرسٹنگ تهین-کتاب الطهارت، کتاب الزکوۃ، کتاب ال صلوۃ، کتاب ال صیام، کتاب الحج و عمرہ…. … چهوٹے چهوٹے کتابچے تهے- باقی ایک سیپارہ تها- پہلا سیپارہ، بہت بڑئ سائز کا، ہر صفحے پہ بڑی بڑی عربی کی پانچ سطور تهیں اور ہر دو کے درمیان تین خالی لائینیں تهیں غالبا نوٹس لینے کے لیے- عربی کے ہر لفظ تلے اس کا اردو ترجمہ ایک چوکور خانے میں لکها تها یوں ہر لفظ الگ الگ نظر آتا تها-
وہ دس منٹ لیٹ تهی- میڈم مصباح کا لیکچر شروع ہو چکا تها-
“سب سے پہلے تو آپ لوگ یہ ذہن میں رکهیں کہ یہاں آپکو دین پڑهایا جائے گا، مذہب نہیں، دین اور مذہب میں بہت فرق ہوتا ہے- دین religion کو کہتے ہیں- اور مذہب ، عقیدے یا اسکول آف تهاٹ school of thought کو- دین پڑهنے سے پہلے ایک بات ذہن میں نقش کر لیں اور گرہ سے بانده لیں-دین میں دلیل صرف قرآن کی آیت یا حدیث صلی اللہ علیہ وسلم سے دی جا سکتی ہے-”
اب وہ سورت فاتحہ سے آغاز کر رہی تهیں-
” الحمد للہ.. .. عربی کے الفاظ تین یا چار حروف سے بنتے ہیں جنہیں ہم روٹ ورڈ کہتے ہیں- الحمد میں “حمد” کا روٹ ورڈ حامیم دال ( ح م د) ہے- یعنی تعریف، اسی ” حمد” سے حامد ، حماد ، احمد ، محمد ، حمید ، محمود بنتے ہیں- حامد، تعریف کرنے والا’ احمد تعریف والا، حمید خوب خوب تعریف والا……. جب آپ قرآن کو لٹرل ورڈ ڈیفینیشن پہ پڑهیں گے تو آپ اتنا انجوائے کریں گے کہ بس- جیسے “سجدہ” کا روٹ ورڈ “سجد” ہے اس سے مسجد ، ساجد، سجدہ بنتا ہے-”
پڑهانے کا انداز دلچسپ تها- محمل تیزی سے نوٹس لے رہی تهی- اس نے بارہا سوچا کہ یہ فیصلہ صحیح تها یا غلط مگر اندر سے وہ متذبذب ہی رہی تهی-
اگلے کچھ روز وہ پڑهائی میں اتنی مصروف رہی کہ فرشتے سے مل ہی نہ سکی- تجوید، تفسیر، حدیث کی پڑهائی…….. پڑهائی ٹهیک تهی اور بس ٹهیک ہی تهی- کوئی غیر معمولی چیز تو اسے ابهی تک نظر نہ آئی تهی-البتہ اپنی رائے صحیح لگی کہ قرآن میں وہی کچھ تها جو اس نے سوچا تها- نماز کا حکم، زکوۃ دینا، مال خرچ کرنے کی تاکید- مومن ، کافر، منافق کی تعریف وہی، مدینہ کے منافقوں کا ذکر- بهئی اب مسلمان ہیں ، اتنا تو پڑھ ہی رکها تها- ہاں وہ باتیں تو ہرگز نہ تهیں جس کا ذکر وہ سیاه فام لڑکی کیا کرتی تهی-
البتہ وہ قرآن کو بہت دهیان سے پڑهتی ، الفاظ کے معنی یاد کرنے کی کوشش کرتی ، نوٹس لیتی، اور روٹ ورڈز سمجهتی- اہستہ آہستہ اسے احساس ہوا کہ وہ کتنا غلط قرآن پڑهتی تهی- الفاظ کو مجهول ادا کرتی تهی-
مثلا ب(بازیر) بی ہوتا ہے، مگر وہ بازیر (بے) پڑهتی تهی اور یہ ساری امیاں ، نانی دادیاں جو ہمیں قرآن سکهاتی ہیں ، وہ عموما غلط تلفظ سے مجہول ہی پڑهتی ہیں- س، ؛ اور ث کا فرق ہی نہیں پتہ چلتا- جب ہم زبر زیر کو بہت لمبا کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم قرآن میں ایک حرف کا اضافہ کر رہے ہیں – زبر کو کهینچ کر الف کااضافہ کر رہے ہیں- قرآن میں تحریف کر رہے ہیں- معانی بدل رہے ہیں- انگریزی کو تو خوب برٹش اور امریکن لہجے میں بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن جس کو عربی لب و لہجے میں پڑهنے کا حکم ہے اور جس میں زبر زیر کو اصل سے زائد کهینچنا بهی حرام درجے کی غلطی شمار ہوتا ہے، اس کے سیکهنے کواہمیت نہیں دیتے-
مسجد میں ایک اور عجب رواج تها- اسے شروع میں تو عجب ہی لگا اور بعد میں اچها- وہاں ہر کسی کو سلام کیا جاتا تها- راہداریوں میں سے گزرتے ‘ سیڑهیوں پہ چڑهتے اترتے، جو بهی لڑکی نظر آتی، اس کو مسکرا کر سلام کیا جاتا- بهلے کسی کو آپ جانتے ہیں یا نہیں، مگر سلام فرض تها- کسی کو مخاطب کرنے کے لیے بهی ” ایکسکیوزمی” کی جگہ السلام علیکم کہہ کر کیا جاتا-
” ایکسکیوزمی ” کہہ کر معافی کس چیز کی مانگیں جو ہوئی ہی نہیں؟ دعا کیون نہ دیں؟” فرشتے نے بہت پہلے ہنس کر بتایا تها تو وہ سوچتی رہ گئ تهی –
ان تمام سوچوں کے برعکس محمل قرآن کو عزت دیتی – اس وقت بهی وہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹهی صبح کے نوٹس پڑھ رہی تهی- جب دروازہ ہولے سے بجا-
اس نے حیرت سے سر اٹهایا- یہ کهٹکهٹا کر کون آئے گا بهلا اس کے کمرے می؟
” جی؟” دروازہ ہولے سے کهلا- وہ الجھ کر آہستہ آہستہ کهلتے دروازے کو دیکهے گئی- یہاں تک کہ وہ پورا کهل گیا، اور لمحے بهر کو تو وہ سن سی ہوگئی، پهر جیسے بوکهلا کر نیچے اتری-
آ….آغاجان…..آپ؟”
وہ دہلیز میں کهڑے تهے اطراف کا جائزہ لیتے کمر پہ ہاتھ باندهے اندر داخل ہوئے-
” آپ ……. آپ بیٹهیں آغاجان!” چهوٹا سا کمرہ تها، وہ انہیں کہاں بٹهاتی- جلدی سے سیپارہ اوپر شیلف پہ رکها اور بیڈ کی چادر ٹهیک کی- وہ خاموشی سے بیڈ پہ بیٹھ گئے-
“ادهر آؤ بیٹا، مجهے تم سے بات کرنی ہے-”
یہ اس واقعے کے بعد پہلی دفعہ تها جب وہ اس سے مخاطب ہوئے تهے- اور انداز میں خاصی نرمی تهی- وہ کسی معمول کی طرح ان کے سامنے آ بیٹهی-
” جج….. جی-”
” محمل!” وہ بغور اسکا چہرہ دیکهتے آہستہ سے بولے- محمل سانس روکے انکو دیکهے گئی-
” فواد نے تمهارے ساتھ برا کیا، بہت برا- میں تم سے اس کی طرف سے معافی مانگتا ہوں-”
” نہیں….. نہیں آغاجان پلیز-” انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹهائے- تو وہ موم کی طرح پگهلنے لگی، بےاختیار ان کے ہاتھ پکڑ لیے-
” تمہارے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں ، میں جانتا ہوں ، اور اب میں انکا ازالہ کرنا چاہتا ہوں-”
” جی؟” وہ کچھ سمجھ نہ پا رہی تهی-
” میں جائیداد میں سے تمہارا حصہ الگ کرنا چاہتا ہوں تاکہ تم اس کی دیکھ بهال کر سکو- ففٹی پرسنٹ کی تم مالک ہو- تم وہ حصہ لے لو- میں نے وکیل کو پیپرز تیار کرنے کا کہہ دیا ہے-”
وہ حق دق انکا چہرہ دیکھ رہی تهی-
” کیا تم اپنا حصہ لینا چاہتی ہو؟”
” جج…. جیسے آپ کہیں-” بعض دفعہ اپنے حقوق کی بات اکیلے میں کہنا آسان ہوتا ہے بہ نسبت اپنے مخالفین کے سامنے- وہ اور کچھ کہہ ہی نہ سکی- بس یک ٹک انہیں دیکهے گئی جو اس کے سامنے بیڈ کی پائینتی پہ بیٹهے تهے-
” میں آج جائیداد کے کاغذ سائین کر دیتا ہوں مگرتم ، میری ایک شرط ہے، وہ لمحے بهر کو رکے، ان کی نگاہیں اس کے چہرے پہ جمی تهیں، وہ پلک نہیں جهپک رہے تهے، اسے دیکھ رہے تهے جو دم سادهے انکی منتظر تهی-
” مگر تم فواد کے خلاف نہیں بلکہ ہمایوں داؤد کے خلاف اغوا کے جرم کا بیان دو گی کورٹ میں-”
وہ اده کهلے لب اور پهٹی پهٹی نگاہوں سے انہیں دیکهے گئی-
” عدالت نے ہمیں تاریخ دے دی ہے- اگلے ماہ کی تاریخ، میں چاہتا ہوں کہ تم عدالت میں اپنے بیان سے نہ پهرو، تا کہ میں جائیداد کے کاغذ تمہارےحوالے کر دوں- جیسے ہی تم کورٹ میں بیان دوگی ، میں دستخط کر دونگا-”
وہ اٹھ کهڑے ہوئے- وہ انہیں دیکهنے کے لیے گردن بهی نہ اٹها سکی-
” تمهارے پاس وقت ہے، خوب اچهی طرح سوچ لو- اور اسے ایک بزنس ڈیلنگ سمجهو- یہ تمہیں آئندہ ابراہیم کی بزنس ایمپائر سنبهالنے میں مدد دے گی-” وہ دروازے کی طرف بڑهے-
” مجهے منظور ہے-” وہ تیزی سے بولی، فیصلہ کرنے میں اسے ایک پل لگا تها-” بهاڑ میں گیا ہمایوں، حبس بیجا میں تو اس نے بهی مجهے رکها تها-”
انہوں نے ذرا سامڑ کر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکها تها-
” تم اچهی بزنس وومن بن سکتی ہو ٹیک کئیر-” اور دروازہ کهول کر باہر نکل گئے-
کیا یوں ہمایوں گرفتار ہو جائے گا؟ اور…. اور فواد….. کیا وہ گهر آجائے گا؟ نہیں…….! مگر جائیداد- اپنے مقام کو پا لینے کی خواہش – کبهی وہ بهی تائی پہ یونہی حکم چلا سکے- سب اس کی عزت کریں- اس کے حکم سے گهر میں کام ہوں، کیا اس نے صحیح کیا؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تها-
جاری ہے……….