مصحف

قسط نمبر 7

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد

ساری رات وہ وقفے وقفے سے آنسو بہاتی رہی تهی- ٹهیک سے سو بهی نہ سکی- صبح اٹهی تو سر بهاری بهاری سا ہو رہا تها – بمشکل ہی سوکها توس اور چائے کی آدهی پیالی حلق سے اتاری اور باہر نکل آئی۔ –
اسٹاپ پہ معمول کی ٹهنڈی صبح اتری تهی- بنچ پہ وہ سیاہ فام لڑکی ویسے ہی بیٹهی خاموشی سے سیدھ میں دیکھ رہی تهی- گود میں سیاہ جلد والی کتاب رکهی تهی اور اس کے سیاہ ہاتھ کے کناروں پہ مضبوطی سے جمے تهے-
آج وہ قدرے تهکی تهکی اور پژمردہ تهی،سو جا کر بنچ پہ بيٹھ ہی گئی – دس منٹ ہی کاٹنے تهے تو اتنا کیا احتراز برتنا- سیاہ فام لڑکی نے ذرا سی گردن اس کی جانب موڑ لی-
“رات کو ٹهیک سے سوئی نہیں؟”
“بس ایسے ہی-” وہ دوسری جانب دیکهنے لگی-
سامنے سڑک خالی تهی ، دوسری طرف اکادکالوگ بس کے منتظر سے ٹہل رہے تهے –
“لوگوں کی ستائی ہوئی ہو؟”
اس نے چونک کر اسے دیکها –
“آپ کیسے کہہ سکتی ہیں؟” محتاط انداز میں پوچها-
“تمہارے چہرے پہ لکها ہے ، تمہارا دل غمگین اور روح بوجهل ہے – تم تکلیف میں ہو اور لوگوں کی باتیں تم سے برداشت نہیں ہوتیں- ہے نا؟”
“معلوم نہیں-” اس نے بظاہر لاپرواہی سے شانے اچکائے – البتہ اندر دل زور سے دهڑکا تها-
“اور تم مستقبل کے بارے میں خوفزدہ اور ماضی کے بارے میں غمگین ہو شاید-”
“شاید-” اب کے واضح وہ چونکی تهی- بےاختیار ہی لبوں سے پهسلا تها-
“تم اپنا مستقبل اور اپنی تمام پریشانیوں کا حل جاننا چاہتی ہو- کچھ ایسا ہو جس سے یہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچهے پهرنے لگیں، تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آگرے، مال و دولت تم پہ نچهاور ہو جائے، تم سب کو اپنی مٹهی میں کر کے دنیا پہ راج کرو، کیا تم یہی نہیں چاہتیں؟”
“ہاں-” محمل نے بے بسی سے اسے دیکها – اسکا دل موم کی طرح پگهل رہا تها- وہ سیاہ فام لڑکی اس کی ہر دکهتی رگ کو اپنے ہاتھ میں لے رہی تهی-” میں یہی چاہتی ہوں-”
“اور اگر میں تمہیں ایسا کچھ دے دوں تو ؟”
“کیا یہ……. یہ کتاب؟” اس نے جهجهکتے ہوئے پوچها- اسے لگ رہا تها وہ زیادہ دیر تک resist نہ کر پائے گی –
“ہاں اگر تم یہ لو گی تو سب کچھ تمہاری مٹهی میں آجائے گا،  سب کچھ -” محمل متزبب سی لب کچلنے لگی- اس لڑکی کی باتیں بہت پرفریب ، بہت پرکشش تهیں ، اسے لگا وہ جلد ہی پهسل پڑے گی – بہک جائے گی-
” کیا یہ سب اتنا آسان ہے ؟”
“شاید نہیں – تمہیں اس کتاب کے عمل کرنے میں بہت مشقت لگے گی ، مگر ایک دفع سیکھ جاو گی تو سب آسان ہو جائے گا- زندگی سہل ہو جائے گی اور پهر جن کے لیے تم روتی ہو،وہ تمہارے لیے روئیں گے- وہ تمہارے پیچهے آئیں گے- ”
بس کا تیز ہارن اسے ماحول میں واپس لایا- وہ چونکی اور بیگ کا اسٹریپ کندهے پہ ڈالے اٹه کهڑی ہوئی دس منٹ ختم ہو چکے تهے-
“میری بس…….”
“جاؤ -” سیاه فام لڑکی مسکرا دی-
وہ تیز تیز قدموں سے چلتی بس کی جانب بڑه گئی- دل ابهی تک زور زور سے دهک دهک کر رہا تها-
“محبوب قدموں میں’لوگ مٹهی میں، دولت نچهاور، اور دنیا پہ راج……”
“کیا یہ سب ممکن تها؟” وہ اس کے کہے گئے الفاظ پہ سارا راستہ غور کرتی رہی تهی – لیکن پهر بار بار خود کو جهڑک دیتی-
یہ کالے علم ، سفلی علم ، جادو ٹونے، چلے وغیرہ برے کام تهے ‘ اسے ان میں نہیں پڑنا چاہیے – اسے ایسا سوچنا بهی نہیں چاہیے-
کالج کے دروازے پہ اترتے ہوئے اس نے فیصلہ کر لیا تها کہ وہ آئیندہ اس سیاه فام لڑکی کے قریب بهی نہیں جائے گی – بنچ پہ بیٹهے گی ، نہ ہی اس سے بات کرے گی- اسے ڈر تها کہ اگر ایک دفعہ پهر اس نے اس کی آفر سن لی تو شاید وہ اسے قبول کر کے کسی ایسے گمنام راستے پہ نکل پڑے جہاں سے واپسی کا سفر ناممکن ہو-
اس روز سدرہ کے رشتے کے سلسلے میں کچھ  لوگ آ رہے تهے- یہ خبر مسرت نے اسے تب دی جب وہ گهر بهر کی صفائیاں اور لڑکیوں کی پهرتیاں دیکھ کر حیران سی ماں کی طرف آئی تهی ، ورنہ تو جب بهی سہ پہر میں لاونج کا دروازہ آہستہ سے کهول کر آتی تو گهر میں سناٹا اور ویرانی چهائی ہوتی تهی اور آج…..
لمبی سی سامیہ بانس کے جهاڑو سے چهت کے جالے صاف کر رہی تهی، سدرہ ڈرائنگ روم کی ڈیکوریشن کو از سر نو ترتیب دے رہی تهی- ایک آرزو ہی تهی جو ٹیرس پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے بیٹهی، کانوں پہ واک مین لگائے کسی میگزین کے ورق الٹ رہی تهی- بےپرواہ، بےنیاز اور مغرور ، شکر کہ وہ خوبصورت نہ تهی ورنہ شاید وہ آسمان سے نیچے نہ اترتی-
رشتہ سدرہ کا ہے اور یہ خودغرض خاندان سارے کا سارا لگا ہوا ہے ،مطلب؟”
“اونہہ آہستہ بولو-” مسرت نے گهبرا کر ادهر ادهر دیکها، پهر آہستہ سے بتانے لگیں- ” دراصل بهابهی بیگم کا محض اندازہ ہی ہے کہ رشتہ سدرہ کا ہی ہو گا- نعمان بهائی کی بیگم نے خصوصا کسی کا نام نہیں لیا، سو فضہ کو شاید کچھ امید ہو-”
“نعمان بهائی کی بیگم کون ؟”
” تمہارے ابا کی دور کی رشتہ دار ہیں ، ان کا بیٹا ایروناٹیکل انجینئر ہے، بہت اچها گهرانا ہے اور ایک بیٹی ہے شادی شدہ ، آسٹریلیا میں رہتی ہے – نعمان بیگم نے کسی کے ڈریعے کہلوایا ہے -”
” اور یہ ساری لڑکیاں اس امید پہ لگی ہوئی ہیں کہ شاید وہ انکا رشتہ مانگ لیں – واٹ ربش!” وہ تمسخرانہ ہنس کر اپنے کمرے کی طرف چکی گئی-
شام میں مسرت نے اسے کچن میں مدد کے لیے بلوا لیا تها –
” اچار گوشت، بریانی، سیخ کباب، فرائڈ مچهلی اور کتنا کچھ کریں گی آپ ؟” وہ برتنوں کے ڈهکنے اٹها اٹها کر جهانکتے ہوئے پوچھ رہی تهی –
” یہ سب تو تیار ہے، تم میٹهے میں دو چیزیں، اور رشین سلاد بنا دو، اور چائے کے ساته اسنیکس بهی -”
” چائے بهی اور کهانا بهی ؟” وہ کمر پہ ہاتھ رکهے حیرت سے بولی – ” اتنا کچھ کس لیے ؟ کیا رشتوں کا کال تها سدرہ باجی کے لیے ؟”
” اونہہ، آہستہ بولو-”
” میں کسی سے ڈرتی تهوڑی ہوں ؟ ابهی جا کر منہ پر بهی کہہ سکتی ہوں-”
” اور تمہارے اس کہنے پہ باتیں تو مجهے سننی پڑتی ہیں محمل!” وہ تهکن سے آزردہ سی بولیں تو وہ خاموش سی ہو گئی، پهر دوپٹہ کی گرہ کس کر کام میں جت گئی-
چائے کی ٹرالی اس نے بہت اہتمام اور محنت سے سجائی تهی – اس وقت بهی وہ پنجوں کے بل بیٹهی ٹرالی کے نچلے حصے میں پلیٹیں سیٹ کر رہی تهی، جب مہتاب تائی کچھ کہتی ہوئیں کچن میں داخل ہوئیں – سدرہ ان کے پیچهے تهی –
” سب تیار ہے؟”
“جی” اس نے بیٹهے بیٹهے گردن اٹهائی- مہتاب تائی قدرے عجلت میں نظر آرہی تهیں –
” ٹهیک ہے سدرہ! تم یہ لے جاو اور مٹهائی کدهر ہے ؟ میرا خیال ہے چائے کے بعد ہی بات پکی کر دیتے ہیں، مٹهائی تب تک سیٹ کر لینا -”
” وہ تو رشتہ مانگنے آئی ہیں تائی! بات اتنی جلدی پکی کر دیں گی؟” وہ حیران سی ہاتھ جهاڑتی کهڑی ہوئی اور تائی بهی کسی اور موڈ میں تهیں ، سو بتانے لگیں –
” ہاں تو مزید اب کیا انتظار، لڑکا اتنا اچها اور خوش شکل ہے، پهر ہمارے پاس کوئی کمی تهوڑی ہے- منگنی آرام سے مہینے دو تک کریں گے اور شادی سال ڈیڑھ تک- ایسی دهوم دهام سے شادی کروں گی سدرہ کی کہ زمانہ دیکهے گا -” ان کے انداز سے تکبر کی بو آتی تهی –
ایک لمحے کو محمل کا دل چاہا، نفیس سی وہ خاتون جو ڈرائنگ روم میں بیٹهی ہیں، وہ سدرہ کو ناپسند کر کے چلی جائیں- اور تائی صدمے سے بیمار ہی ہو جائیں – آخر خود پہ غاصب لوگ کسے اچهے لگتے ہیں ؟ مگر شاید ادهر تو سارے پلان بن چکے تهے-
سدرہ نازک ہیل کی ٹک ٹک کرتی ٹرالی دهکیلتی لے گئی اور وہ خالی کچن میں خاموشی سے کرسی پہ بيتھ گئی-
مسرت بهی مہمانوں کے پاس تهیں ، جانے کیسے تائی کو انکے گهر کا فرد ہونے کا خیال آیا تها اور ان کو وہیں بٹها لیا تها-
“ٹشو…… محمل ٹشو!” ناعمہ چچی نے زور کی آواز لگائی تو وہ تیزی سے اٹهی-
” ٹشو رکهنا بهول گئی تهی؟ اف-” وہ ٹشو کا ڈبا اٹها کر بهاگی، بس لاونج میں لمحے بهر کو رک کر بڑے آئینے میں خود کو دیکها-
اونچی پونیٹیل، سیاہ جینز پہ لمبا سفید کرتا اور گردن کے گرد مخصوص انداز میں لپٹا ٹائی اینڈ ڈائی دوپٹہ جسے وہ بہت سے جوڑوں کے ساتھ  چلاتی تهی – یہ غالبا پچهلی سے لچهلی بقر عید پہ بنوایا گیا جوڑا تها جو اب تک خاصا گهس چکا تها-
“خیر،کون سا میرے رشتے کے لیے آئے ہیں-” وہ شانے اچکا کر ڈرائنگ روم کی جانب بڑه گئی-
نفیس اور باوقار سی نعمان بیگم بڑے صوفے پہ تکلف سے بیٹهیں مسکراتے ہوئے تائی مہتاب کی بات سن رہی تهیں- اسے آتے ديکھ کر قدرے خوش دلی سے اٹھ کهڑی ہوئیں –
“محمل بیٹا! آپ اب آئی ہو، کب سے پوچھ  رہی تهی تمہاری تائی سے -” وہ ایک دم گڑ بڑا سی گئی، لیکن پهر سنبهل کر آگے بڑھ کر ملی-
” السلام علیکم-”
“وعلیکم السلام-” اتنی دیر سے پوچھ  رہی تهی تمهارا-”
” وہ میں……”
” ہاں آئی نو بیٹا، تم اس اہتمام میں لگی ہوئی ہو گی – مجهے یاد ہے جب میں کریم بهائی کی عیادت کے لیے آئی تهی تو اس اکیلی بچی نے سارا کهانا بنایا تها -” وہ اسے اپنے ساتتھبٹها کر پیار سے دیکهتے ، دو برس پرانی بات کر رہی تهیں-
وہ گهبرا کر کبهی تائی کے تنے نقوش کو دیکهتی تو کبهی سدرہ کی متغیر ہوتی رنگت کو- وہ تو بس ٹشو دینے آئی تهی، پهر اتنا استقبال چہ معنی وارد-
“آپ یہ ڈرم اسٹکس لیں نا بهابهی، یہ …..” تائی نے ان کی توجہ بٹانی چاہی-
” ارے یہ تو میری فیورٹ ہے، محمل تم نے بنائی ہے نا، مجهے یاد ہے تم نے اس دفعہ بهی کهانے میں یہ بنائی تهیں اور فری ( بیٹی) اسپیشلی تم سے ریسیپی پوچھ کر گئی تهی -”
اور  اسے سمجھ  نہیں آ رہا تها کہ کیا کرے، بےبسی و بےچارگی سے وہ بمشکل سر ہلا پا رہی تهی – ادهر تا ئی  مہتاب اب پریشان ہو رہی تهیں – یہی تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا تها، سدرہ کے رشتے کے لیے آنے والی ہر مہمان کو وہ محمل اور مسرت کی بنائی گئ چیزیں ” یہ میری سدرہ   نے  بنائی ہیں” کہہ کر پیش کرتی تهیں، مگر جانے کب وہ خاتون ان کے گهر کی ساری سن گن لے گئی تهیں-
“بس بهابهی ! بچیاں ماشاءاللہ سب ہی سگهڑ ہیں ہمارے گهر میں -” فضہ چچی نے بظاہر مسکرا کر بات سنبهالی مگر قدرے بےچین وہ بهی تهیں- کہیں کچھ  بہت غلط تها-
” جی مگر یہ سب تو سدرہ نے بنایا ہے – بےچاری صبح سے لگی ہوئی تهی-” مسرت نے جلدی سے کہا-
” جی جی -” تائی مہتاب نے فورا تائید کی-
” ویری گڈ سدرہ-” بیگم نعمان اب باکس پیٹیز لے رہی تهیں-” یہ باکس پیٹی تو بہت اچهی بنائی ہے- سدرہ اس کی فلنگ میں کیا کیا ڈالا ہے؟”
اور سدرہ کے تو فرشتوں کو بهی علم نہ تها کہ باکس پیٹی میں ڈلتا کیا کیا ہے- وہ ایک دم کنفیوز سی ماں کی شکل دیکهنے لگی-
دراصل میں کوکنگ کا بہت شوق رکهتی ہوں اور میرے بچوں کا ٹیسٹ بهی اعلی ہے، نعمان صاحب خود منفرد اور اچهے کهانوں کے رسیا ہیں – اس لیے ہمیشہ کہتے ہیں کہ بہو ڈهونڈنا تو اس کے ہاتھ کا دائقہ چکھ  کر ہی رشتہ مانگنا- ویسے تو آپ کی ساری بچیاں ہی ماشاءاللہ بہت خوبصورت اور سلیقہ مند ہیں مگر محمل تو مجهے خاص طور پہ عزیز ہے – سعیدہ آپا نے ذکر تو کیا ہوگا کہ میں کسی خاص مقصد کے لیے آ رہی ہوں تو اب لمبی چوڑی کیا تمہید باندهوں مہتاب آپا، فرقان تو آپ کا دیکها بهالا ہے ، اللہ کا شکر ہے، اس نے ہر طرح سے نوازہ ہے ہمیں- بس محمل کے لیے میں آپ لوگوں کے پاس سوال کرنے آئی ہوں ، اگر ہو سکے تو اسے میری بیٹی بنا دیں-”
اور مہتاب تائی سے مزید سننا دشوار ہو رہا تها –
“محمل- تم اندر جاو-” انہوں نے خود کو بمشکل نارمل رکهتے ہوئے اشارہ کیا رو جو حق دق بیٹهی سن رہی تهی ، تیزی سے باہر نکل گئی-
پیچهے کیا باتیں ہوئیں, کس نے کیا کہا، کب ان خاتون کو کهانا کهلائے بغیر رخصت کر دیا گیا اور تائی کے بند کمرے میں سارے بڑوں کی کیا گفتگو ہوئی، وہ ہر شے سے دور اپنے کمرے میں کان لپیٹے پڑی رہی-
اس کا دل کچھ  بهی کرنے کو نہیں چاه رہا تها- عجیب سی کیفیت تهی، جیسے بند غار میں روشنی اور ہوا کا کوئی روزن کهل گیا ہو- بےکیف اور روکهی پهیکی زندگی میں ایک دم ہی بہت خوشگوار اور سر سبز سا موڑ آیا تها- امیدیں پهر سے زندہ ہو گئیں تهیں اور اسے لگ رہا تها کہ ایک نئی زندگی بانہیں پهیلائے اس کے استقبال میں کهڑی ہے-
” ایروناٹیکل انجینئر خوش شکل فرقان ماں باپ کا اکلوتا بیٹا اچهے کهانوں کا شوقین-”
اس کے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے تهے –
جاری ہے………

اپنا تبصرہ لکھیں