تحریرنمرہ احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
“قسط نمبر 32
یعنی کہ اگر میں آپ کو اس مطلب کی واضع دلیل نہ دوں تو اسے محض میری بات سمجھ کر آپ جهٹلا دیں گی؟ یعنی آپ کو میری بات کے اوپر مزید کوئی دلیل چاہیئے؟”
” جی!” اس نے ہولے سے سر ہلا دیا-
” پورے ہال میں ایک اضطراب سی لہر دوڑ گئی- لڑکیاں قدرے پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکهنے لگیں-
” یعنی آپ ایک دینی اسکالر کو چیلنج کر رہی ہیں؟”
” سر ! میں بہت ادب سے دلیل مانگ رہی ہوں-”
” اگر اس کی دلیل قرآن و حدیث میں نہ ہو ، تو کیا آپ” یقین” کا مطلب “موت” تسلیم کریں گی؟”
” نہیں، سر کبهی بهی نہیں-”
“ہوں-” ڈاکٹر سرور نے گہری سانس لے کر ہال پہ ایک نظر دوڑائی ” کیا کوئی اور بهی ہے جو اپنی عمر سے طویل تجربے کے حامل اسکالر کو چیلنج کرے؟ کسی اور بهی دلیل چاہیئے-”
بہت سے سر نفی میں ہل گئے- وہ اکیلی کهڑی تهی-
” یعنی تین سو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی کو دلیل چاہئے؟ یہی پڑها رہے ہیں آپ لوگ اس مسجد میں؟ کون ہیں آپ کی کلاس کی انچارج؟”
میڈم مصباح کهڑی ہوئیں-
” کیا آپ اس ناکام کلاس رپورٹ کی ذمے داری لیتی ہیں؟ ون آوٹ آف تهری ہنڈرڈ کی؟”
” جی سر!” میڈم مصباح کا قدرے سر جهک گیا- ڈاکٹر سرور نے محمل کو دیکها-
” کیا آپ کو ابهی بهی دلیل چاہیئے؟”
” جی سر!”
وہ کچھ دیر خاموشی سے اسکا چہرہ دیکهتے رہے، پهر ہلکے سے مسکرائے-
” المدثر آیت 43-47 میں یقین کا لفظ موت کے لیے استعمال ہے، وہاں سے ہم دلیل لیتے ہیں کہ یہاں بهی یقین سے مراد موت ہی ہے- مجهے خوشی ہے کہ آپ نے مرعوب ہوئے بغیر ادب کے دائرے میں رہ کر مجھ سے دلیل مانگی، اور مجهے افسوس ہے کہ صرف ایک بچی نے یہ جرآت کی- باقی سب خاموش رہیں- دو سو ننانوے لڑکیوں میں یقینا” ابهی یہ کمی موجود ہے جو کہ ایک قرآن کلاس کی ناکام کارکردگی کا ثبوت ہے- کیا کوئی شخص ڈگریوں کا پلندہ لے کر آپ کے سامنے آئے، خود کو سب سے بڑا مذہبی اسکالر بتائے- تو آپ اس کی بات کق بطور دلیل مان لیں گی، کیا آپ کو پہلے ہی دن نہیں بتایا گیا تها کہ دلیل صرف قرآن اور حدیث ہوتی ہے؟ کسی عالم کی بات دلیل نہیں ہوتی، پهر؟”
بہت سے گلابی اسکارف میں لپٹے سر جهک گئے- محمل سرخرو اپنی نشست پہ بیٹهی-
ڈاکٹر سرور اور بهی بہت کچھ کہہ رہے تهے، مگر وہ سورہ المدثر کهول کر اس آیت کو کاونٹر چیک کر رہی تهی-
(سورہ المدثر کی 43-47 تک کا ترجمہ ڈاکٹر سرور کی تصدیق کر رہا تها-)
” محمل!”
لیکچر کے بعد وہ کاریڈور میں سے گزر رہی تهی جب فرشتے نے اسے پیچهے سے پکارا- اس کے قدم وہیں تهم گئے- مگر وہ مڑی نہیں- فرشتے تیز تیز چلتی اس کے قریب آئی-
” آئی ایم پراوڈ اف یو محمل!” وہ یقینا” بہت خوش تهی- گرے اسکارف میں مقید اسکا چہرہ دمک رہا تها-
محمل اجنبی نظروں سے اسے دیکهتی رہی-
” ڈاکٹر سرور تم سے بہت خوش ہیں، انہوں نے ایک سیمینار کے لیے تمہارا نام دے دیا ہے، اور تم میرے ساتھ جا کر ادهر سپیچ کرو گی-”
” آپ کے ساتھ؟” وہ بولی تو اس کی آواز میں خزاؤں کی سی خشکی تهی- پهر.مجهے نہیں جانا-”
” کیا مطلب؟” فرشتے کی مسکراہٹ پہلے مدهم ہوئی پهر آنکهوں میں حیرت ابهری-
” مجهے جهوٹے لوگ سخت ناپسند ہیں؟”
“محمل!” وہ ششدر سی رہ گئی” میں نے کون سا جهوٹ بولا ہے؟”
” یہ سوال آپ خود سے کیوں نہیں کرتیں؟”
” تم سے کسی نے کچھ کہا ہے؟”
” میں بچی نہیں ہوں فرشتے-” وہ گویا پهٹ پڑی تهی- اندر ابلتے لاوے کو باہر کا راستہ مل گیا تها-” آپ کیوں گئیں میرے آغاجان کے پاس؟ کیا لگتے ہیں وہ آپ کے؟ میں ایک یتیم لڑکی ہوں، کیا آپ کو یتیم کے مال میں سے حصہ چاہیئے؟ کیوں کی آپ نے ایسی حرکت؟ آپ کو جانے کس اونچی مسند پہ بٹها رکها تها میں نے، بہت بری طرح سے خود کو گرایا ہے آپ نے- میں سوچ بهی نہیں سکتی تهی کہ آپ ایسے کریں گی، کیا رشتہ ہے آپکا مجھ سے، آپ جهوٹ نہیں بولتیں، مگر سچ چهپانا بهی تو جهوٹ ہوتا ہے- میں نے پو چها آپ کی پهپهو کی بیٹی کا کیا نام ہے، آپ نے نہین بتایا-کیوں؟ آخر کیوں؟”
فرشتے کا چہرہ سفید پڑ گیا تها- جذبات سے عاری بالکل ساکت، جامد، وہ بنا پلک جهپکے محمل کو دیکھ رہی تهی- کتنی ہی دیر وہ کچھ کہہ نہ سکی، پهر آہستہ سے لب کهولے-
” کیونکہ میری پهپهو کی بیٹی کا نام فائقہ ہے-”
” جی-” اس کا دماغ بهک سے اڑ گیا-
” میں نے کہا تها نا کہ تم نہین جانتیں- میری پهپهو کی بیٹی کا نام فائقہ ہے- میں فرشتے ابراہیم ہوں، آغا ابراہیم کی بیٹی، جاؤ، اپنے گهر میں کسی سے بهی پوچھ لو، مگر وہ کیوں بتائیں گے؟ وہ میری حیثیت تسلیم نہیں کرتے تو کیسے بتائیں گے-”
وہ تهکے تهکے انداز میں کہہ کر اس کے ایک طرف سے نکل کر چلی گئی- محمل مڑ کر اسکو جاتا بهی نہ دیکھ سکی- اسے تو جیسے کسی نے ادهر ہی برف کا بنا دیا تها- وہ دهوا. دهواں ہوتے چہرے کے ساتھ بیچ کاریڈور میں بت بنی کهڑی تهی-
” فرشتے ابراہیم-”
” آغا ابراہیم کی بیٹی-”
اسے پوری مسجد میں ان چند الفاظ کو گونج پلٹ پلٹ کر سنائی دے رہی تهی-
اسے نہیں معلوم وہ کن قدموں پہ چل کے مسجد کے گیٹ تک آئی تهی- بو وہ پتهر کا بت بنی خود کو گهسیٹتی ہر شے سے غافل چلتی جا رہی تهی- اس کا بیگ اور کتابیں کلاس میں رہ گئے تهے، اس نے انہیں ساتھ نہیں لیا تها- اسے لگ رہا تها کہ اس کا بہت کچھ مسجد میں کهو گیا ہے، وہ کیا کیا سمیٹتی؟
برابر والے بنگلے کی دیوار کے ساتھ وہ نصب بنچ پہ وہ گر سی گئی-
” آغا ابراہیم کی بیٹی، فرشتے ابراہیم-”
اس کا دماغ انہی دو جملوں پہ منجمد ہو گیا تها- آگے بڑهتا تها نہ پیچهے-
دور کہیں یاد کے پردےپہ آغاجان کی آوازلہرائی-
” اس لڑکی سے کچھ بعید نہیں، آج پهر میرے آفس آ گئی تهی-”
” پهر آ گئی تهی-” اس کا ذہن جیسے چونک کر بیدار ہونے لگا تها، وہ پہلے بهی ادهر جاتی رہتی تهی- وہ سب اس کو جانتے تهے- اور شائد اس سے خائف بهی تهے- تو کیا وہ واقعی آغا ابراہیم کی بیٹی تهی-؟
” نہیں-” اس نے تنفر سے سر جهٹکا، ” آغا ابراہیم کی صرف ایک بیٹی ہے، اور وہ ہے محمل ابراہیم- میری کوئی بہن نہیں ہے، یہ میں نہیں مانتی-”
وہ زور زور سے نفی میں سر ہلا رہی تهی اسے لگ رہا تها آج اس کے دماغ کی رگ پهٹ جائے گی- غصہ تها کہ اندر ہی اندر ابلا جا رہا تها-
” کیا واقعی وہ ابا کی بیٹی ہے؟ مگر اس کی ماں کون ہے؟ میری اماں…….؟ نہیں- مگر مجهے کون بتائے گا؟ آغاجان اور تائی تو کبهی نییں…. اماں کو تو شائد پتا بهی نہ ہو! پهر کس سے پوچهوں؟-”
وہ چکرا کر رہ گئی اور سر دونوں ہاتهوں میں گرا دیا- مگر اگلے ہی لمحے جیسے جهٹکے سے سر اٹهایا-
” ہمایوں!” اور پهر اس نے کچھ نہیں سوچا اور گیٹ کی طرف لپکی-
” صآحب اندر ہیں؟ مجهےاندر جانا ہے-”
” جی- آپ چلی جاؤ-” چوکیدار فورا” سامنے سے ہٹا- وہ اندر کی طرف دوڑی-شاہانہ طرز کا لاؤنج خالی تها- وہ ادهر ادهر دیکهتی آگے بڑهی، پهر کچن کے کهلے دروازے کو دیکھ کر رکی- کچه سوچ کر وہ کچن میں آئی-
ماربل فلور کا چمکتا صاف ستهرا کچن خالی پڑا تها- چمچوں کا اسٹینڈ سامنے ہی تها- اس نے لیک کر ایک بڑی چهری نکالی، اور آستین میں چهپا کر باہر آئی-
“ہمایوں؟” لاؤنج میں کهڑے گردن اوپر کر کے اس نے پکارا- آواز گونج کر لوٹ آئی- اس کا کمرہ اوپر تها، یہ تو اسے یاد تها- وہ تیز تیز سیڑهیاں چڑهنے لگی- سیاہ ماربل کی چمکتی سیڑهیاں گولائی میں اوپر جا رہی تهیں- وہ بالائی منزل پہ رکی، ادهر ادهر جهانکا، پهر تیسر ی منزل کی سیڑهیوں کی طرف جانے لگی- دفعتا” سامنے والے کمرے سے اس کی آواز آئی-
” بلقیس؟” وہ اندر سے غالبا” ملازمہ کو آواز دے رہا تها-
وہ دوڑ کر اس کمرے کے دروازے تک آئی-
” دروازہ کهولیں!” اس نے دروازہ بجایا، اور پهر دهڑا دهڑ بجاتی چلی گئی-
” کون؟” ہمایوں نے حیران سا ہو کر دروازہ کهولا- اسے دیکھ کر وہ بری طرح چونکا تها-
” تم؟ خیریت-”
” مجهے آپ سے کچھ پوچهنا ہے، ٹهیک ٹهیک بتائے گا- ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا!”
وہ اتنے جارحانہ انداز میں غرائی تهی کہ وہ پریشان ہی ہو گیا-
” کیا ہوا ہے محمل؟”
” میری بات کا جواب دیں-”
” اچها اندر آجاؤ-” وہ اسے راستہ دیتے ہوئے پیچهے ہوا- بلیک ٹراؤزر پہ گرے آدهے بازووں والی شرٹ پہنے، ہاتھ مین تولیہ پکڑے وہ غالبا” ابهی نہا کر نکلا تها- ماتهے پہ بکهرے گیلے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تهے-
وہ دو قدم اندر آئی، یوں کہ اب دروازے کی چوکهٹ میں کهڑی تهی-
” آپ فرشتے کے کزن ہیں؟”
” ہاں، کیوں؟”
” فرشتے کس کی بیٹی ہے؟ اس کا باپ کون یے؟-”
” باپ؟” وہ ذرا چونکا” اس نے تم سے کچھ کہا ہے؟”
” میں نے پوچها ہے، فرشتے کس کی بیٹی ہے؟” وہ دبی دبی سی غرائی تهی-
” ادهر بیٹهو، آرام سے بات کرتے ہیں-” وہ اس کو راستہ دیتا اس کے بائیں طرف سے قریب آیا- ” میں بیٹهنے نہین آئی، مجهے جواب چائیے-”
” ادهر بیٹهو تو سہی، ٹهنڈے دماغ سے میری بات سنو-” وہ بچوں کی طرح اسے بہلاتے ہوئے آگے بڑها، اور نرمی سے اس کا ہاتھ تهامنا چاہا-
” ہاتھ مت لگائیں مجهے وہ بدک کر پیچهے ہٹی-”
” محمل! ادهر آؤ-” وہ دو قدم آگے اس کے قریب آیا ہی تها کہ محمل نے اچانک آستین میں چهپی چهری نکالی-
” مجهے آپ پر ذرا بهروسہ نہیں ہے- دور رہیں مجھ سے-” وہ چهری کی نوک اس کی طرف کیے دو قدم اور پیچهے ہٹی تهی-
” چهری کیوں لائی ہو؟ مجهے مارنے؟” اس کے ماتهے پہ بل پڑےاور، آنکهوں میں غصے کی لہر ابهری- وہ تیزی سے بڑها اور محمل کا چهری والا ہاتھ کلائی سے پکڑ کر مروڑا-
” چهوڑیں مجهے، ورنہ میں آپ کو مار دونگی-” وہ اس کی مضبوط گرفت کے باوجود کلائی چهڑانے کی کوشش کر رہی تهی- دوسرے ہاتھ سے اس نے اس کے کندهے کو پیچهے دهکیلنا چاہا- ہمایوں اس کے چهری والے ہاتھ کا رخ دوسری طرف موڑ رہا تها، اور پهر اسے پتا ہی نہیں چلا اور چهری کی تیز دهار گوشت میں اترتی چلی گئی-
محمل کو لگا وہ مرنے والی ہے، اس نے خون ابلتے دیکها اور پهر اپنی چیخ سنی- مگر نہیں اسے چهری نہیں لگی تهی- پهر؟
وہ کراہ کر پیچهے ہٹا تو محمل کی کلائی آزاد ہو گئی- ہمایوں کے دائیں پہلو می. سے خون ابل رہا تها- وہ چهری پہ ہاتھ رکهے لڑکهڑا کر دو قدم پیچهے ہٹا تها-
” اوہ میرے اللہ! یہ میں نے کیا کر دیا ہے؟” خوف سے اس کی آنکهیں پهٹ گئیں-
چهری پہ رکها ہمایوں کا ہاتھ خون سے سرخ پڑنے لگا تها- وہ درد کی شدت سے آنکهیں بند کیے دیوار کے ساتھ بیٹهتا چلا گیا-
وہ دہشت زدہ سی اسے دیکھ رہی تهی- اس کا پورا جسم کانپنے لگا تها- یقین ہی نہیں آ رہا تها کہ یہ سب اس نے کیا ہے- خدایا، یہ اس نے کیا کر دیا تها-
وہ پهٹی پهٹی آنکهوں سے اس کو دیکهتی قدم قدم پیچهے ہٹنے لگی- اور پهر ایک دم مڑی اور تیزی سے سیڑهیاں پهلانگتی گئی- پوری قوت سے لاؤنج کا دروازہ کهول کر وہ باہر بهاگی تهی-
چوکیدار گیٹ پہ نہیں تها- کہاں تها، اسے پرواہ نہ تهی- وہ تیز دوڑتی ہوئی مسجد میں داخل ہوئی تهی-
” فرشتے، فرشتے کدهر ہیں؟ پهولی سانسوں کے درمیان پوچهتی ذرا دیر کو وہ ریسیپشن پہ رکی تهی-
” فرشتے باجی لائبریری میں ہونگی یا-“…
اس نے پوری بات نہیں سنی اور راہداری میں دوڑتی گئی-
لائبریری کے اسی کونے می. کرسی ڈالے وہ دونوں ہاتهوں سے چہرہ چهپائے بیٹهی تهی- وہ بدحواس سی بهاگتی ہوئی اس کے سامنے جا رکی-
آہٹ پہ فرشتے نے چہرے سے ہاتھ ہٹایے اسے دیکھ کر اس کی نگاہیں جهک گئیں-
” میں جانتی ہوں ، تم ہرٹ ہوئی ہو-” ایک گہری سانس لے کر وہ اپنی رو میں کہنے لگی تهی” اور میں نے اسی ڈر سے تمہیں پہلے یہ نہیں بتا” کہتے کہتے فرشتے نے نگاہیں اٹهائیں- اور پهر اگلے الفاظ اس کے لبوں پہ دم توڑ گئے-
محمل کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تهیں-
” محمل کیا ہوا؟” وہ پریشان سی کهڑی ہوئی-
” فرشتے .. فرشتے…..وہ ہمایوں… ” وہ رو دینے کو تهی-
” کیا ہوا ہمایوں کو؟ بتاو محمل!” اس نے فکر مندی سےمحمل کو دونوں شانوں سے تهام کر پوچها-
” وہ- ہمایوں- ہمایوں مر گیا-”
محمل کے شانوں پہ اس کی گرفت ڈهیلی پڑ گئی-
” یہ کیا کہہ رہی ہو؟”
” میں نے جان- جان بوجھ کر نہین- ہمایوں کو- وہ اسے چهری لگی گئی- مں نے غلطی سے، اسے میری-”
” وہ کدهر ہے ابهی؟ فرشتے نے تیزی سے بات کاٹی-”
” اپنے گهر….. بیڈروم میں-”
فرشتے نے اگلا لفظ نہیں سنا اور تیزی سے باہر کی طرف بهاگی تهی- وہ کہیں بهی جاتی تهی تو ہمیشہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے جاتی تهی- آج اس نے اسکا ہاتھ نہیں تهاما تها- آج وہ اکیلی بهاگی تهی-
اسے خود بهی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تها- بس وہ بهی فرشتے کے پیچهے لپکی تهی-
” ہمایوں… ہمایوں-” وہ محمل کے آگے بهاگتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی تهی اور اسے آوازیں دیتی سیڑهیاں چڑھ رہی تهی-
” ہمایوں؟”
وہ آگے پیچهے گول سیڑهیوں کے دہانے پہ رکی تهیں- ہمایوں کمرے کی بیرونی دیوار کے ساتھ لگا زمین پہ بیٹها تها- خون آلود چهری اس کے ایک طرف رکهی تهی-
” ہمایوں! تم ٹهیک ہو؟” وہ پریشان سی اس کے سامنے گهٹنوں کے بل بیٹهی تهی- اس نے جیسے چونک کر آنکهیں کهولیں-
” تم ادهر……؟” اپنے سامنے گهٹنوں کے بل بیٹهی فرشتے سے ہوتی ہوئی اس کی نظر اس کے پیچهے کهڑی محمل پہ جا رکی-
” مجهے محمل نے بتایا کہ-”
” فرشتے ، تم جاؤ اور اس بے وقوف لڑکی کو بهی لے جاؤ-”
” مگر ہمایوں-”
” میں نے احمر کو کال کردی ہے، پولیس پہنچنے والی ہے، تم دونوں کی موجودگی ادهر ٹهیک نہیں ہے- جاؤ-” وہ درد کی شدت سے بدقت بول پایا تها-
مگر…. …” فرشتے نے تذبذب سے گردن موڑ کر محمل کو دیکها جو سفید چہرہ لیے ادهر کهڑی تهی- اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تها کہ اس وقت وہ کیا کرے-
” میں نے کہا نا .. جاؤ-” وہ گهٹی گهٹی آواز میں چلایا-
” اچها-” وہ گهبرا کر اٹھ کهڑی ہوئی-
” نہیں- میں نہین جاؤنگی- بےشک مجهے پولیس پکڑ لے، مگر میں-”
” محمل! جاؤ!!!!! وہ زور سے چیخا تها-
” چلو محمل!” فرشتے نے جیسے فیصلہ کر.کے اس کا ہاتھ پکڑا اور سیڑهیاں اترنے لگی-
” ہمایوں! میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا – آئی ایم سوری- – آئی رئیلی ایم-” فرشتے اس سے آگے اسکا ہاتھ کهینچتی ہوئی سیڑهیاں اتر رہی تهی، مگر وہ اسی طرح گردن موڑ کر ہمایوں کو دیکهتی روہانسی سی کہے جا رہی تهی-
” جسٹ گو!” وہ وہیں سے جهنجلا کر بولا تها- وہ اب سیڑهیوں کے درمیان مین تهیں، وہان سے اسے ہمایوں کا چہرہ نظر نہیں آ ریا تها- آنسو اس کی آنکهوں سے ابل پڑے تهے- فرشتے اس کا ہاتھ کهیںچ کر اسے باہر لے آئی تهی-
” تم کیوں گئیں اس کے گهر محمل؟ مجهے بتاؤ ادهر کیا ہوا تها؟” مسجد کے گیٹ پر فرشتے نے پوچها تو اس نے اپنا ہاتھ زور سے چهڑایا-
” محمل! ناراض مت ہو- ابهی وہاں میری اور تمہاری موجودگی ٹهیک نہیں ہے-”
” وہ ادهر مر رہا ہے اور آپ-” اس کی آنکهوں سے متواتر آنسو گر رہے تهے-
وہ ابهی اسے ہسپتال لے جائیں گے- زخم بہت زیادہ نہین تها- وہ ٹهیک ہو جائے گا مگر تم نے کیوں مارا اسے-؟
” میں بهلا یوں ہمایوں کو.مار سکتی ہوں- میں کر سکتی ہوں ایسا؟ ” وہ ایک دم.پهوٹ پهوٹ کر رونے لگی تهی- فرشتے بری طرح سے چونکی تهی- محمل کے چہرے پہ چهایا حزن، ملال، اور وہ آنسو- وہ عام آنسو تو نہ تهے- ” میں نے جان بوجھ کر نہین کیا ایسا- آئی سوئیر-”
” اچها اندر آؤ، آرام سے بات کرتے ہیں-” اس نے خود کو سنبهال کر کہنا چاہا مگر وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تهی-
” انہوں نے بهی یہی کہا تها- میرا قصور نہیں تها-” وہ اسی طرح گیٹ پہ کهڑے روئے چلی جارہی تهی- ” وہ ٹهیک تو ہو جائیں گے فرشتے؟”
” ہوں-” فرشتے نے شاید اس کی بات نہیں سنی تهی- بس گم صم سی اس کی آنکهوں سے گرتے آنسو دیکھ رہی تهی- وہ واقعی عام آنسو نہ تهے-
” میں گهر جا رہی ہوں – پلیز- آپ مجهے ہمایوں کے بارے میں بتاتی رہیے گا-
” اچها-” اس نے غائب دماغی سے سر ہلا دیا-
محمل اب درختوں کی باڑ کے ساتھ دوڑتی ہوئی دور جا رہی تهی- وہ جیسے نڈهال سی ، گیٹ سے لگی، یک ٹک اسے دیکهے گئی-
ہاں، وہ آنسو بہت خاص تهے-
جاری ہے………