(شیخ خالد زاہد)
ہم پاکستانی جس سے محبت کرتے ہیں اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں، ویسے تو ہم نفرت کرنے والے لوگ ہیں نہیں لیکن جس سے کرتے ہیں اسے پاتال کی گہرائیوں میں دفن کردیتے ہیں۔ اب وہ کوئی کھیل بھی ہوسکتا ہے، چاہے وہ کوئی فرد ہو، وہ کوئی تفریح یا تفریح گاہ ہو یا پھر وہ کوئی روایت ہو۔عدیم ہاشمی صاحب کایہ شعر پاکستانی مزاج کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے کہ
محبت ہو تو بے حد ہو، نفرت ہو تو بے پایاں
کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا!
بد قسمتی سے ہمارا یہ قومی مزاج جوکہ کبھی کبھی جنونیت کی شکل بھی اختیار کرلیتا ہے، بغیر حقیقت جانے بغیر تحقیق کئے کتنی ہی زندگیوں کونگل چکا ہے،ہمیں سب سے پہلے جب بھی رمضان آتا ہے تو سیالکوٹ میں ہجوم کے ڈنڈوں سے قتل ہونے والے دوبھائیوں کا خیال ضرور آتا ہے، پھرعبدالولی خان یونیورسٹی، مردان کے مشال خان کا بھی خیال آجاتا ہے، ابھی تازہ ترین واقع ملازم پر کتے چھوڑنے والا ہے اور معلو م نہیں ایسے کتنے ہی ہیں جنہیں ہم سب کسی نا کسی طرح سے جانتے ہیں اور کتنے ہی ایسے واقعات دوردراز علاقوں میں ہوتے ہیں کہ جن تک ہماری یا کسی بھی قسم کے ابلاغ کی رسائی نہیں ہے۔ مذکورہ واقعات جنونیت کی زد میں آتے ہیں چاہے وہ فرد واحد کی جنونیت ہو یا پھر واحد سے تبدیل ہوکر اجتماعی جنونیت میں منتقل ہوجائے۔
تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور کمزور کو کھاجانے کی چاہ میں مبتلاء رہا ہے اور مفادات کی خاطر کمزور طاقتور کی غیر مشروط حمایت بھی کرتا دیکھائی دیتا ہے جوکہ آج اکیسویں صدی میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن ایک ایسی قوت ہے جو ہمیشہ سے طاقتور کو کمزور کرنے کیلئے جدو جہد کرتی رہی ہے جسے تحریک آزادی کے نام سے جانا جاتا ہے ،یہ قطعی ضروری نہیں کہ آزادی کی تحریک کسی خطہ زمین کو آزاد کرانے کیلئے چلائی جائے بلکہ یہ تو بنیادی حقوق پر غاصب لوگوں کے خلاف بھی چلائی جاتی رہی ہے۔ دنیا اگر مذہبی تعصب کو بالائے طاق رکھے تو تاریخ میں دو ایسی تحریکیں ہیں کہ جنہوں نے دنیا میں ناصرف سرحدی تبدیلی کی بلکہ معاشرتی تبدیلی کی بھی داغ بیل ڈالی، ان دونوں تحریکوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ہجرت،جب خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے سلامتی کی تحریک چلائی تو آپکو اور پیروکاروں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا اور آپ نے ہجرت کی اسی طرح سے تحریک آزادی جو ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ ریاست کے قیام کیلئے چلائی گئی اسکے نتیجے میں بھی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی گئی، دونوں ہی تحریکوں کا محرک دوقومی نظریہ تھامکہ سے مدینے ہجرت بھی نفاذ اسلام اور اسلام کی مکمل بحالی یا اسلام کی سربلندی کیلئے کی گئی اور پاکستان کیلئے کی جانے والی جدوجہد کا کے پیچھے بھی لاالہ اللہ کا نعرہ کار فرما رہا۔
تحریکوں کی بنیاد بھی جنون ہی ہوتا ہے جسکی ترجمانی شاعر کہ یہ الفاظ کر رہے ہیں کہ جنون سے اور عشق سے ملتی ہے۔ انگنت زندگیوں کی قربانی اور مال و دولت کی قربانی اور اپنے پیاروں کی قربانیوں کی بدولت پاکستان بطور پاک سر زمین حاصل کر لی۔ ملک سے محبت کے اظہار کیلئے لکھنے والوں نے ملی نغمے لکھے، نظمیں لکھیں، ڈرامے لکھے اور آنے والی نسلوں کو یہ باور کرانے کیلئے کہ آج ہم جس آزاد سرزمین پر کھڑے ہیں اسکے پیچھے خون کے آنسوؤں ڈوبی قربانیوں کی طویل داستان ہے، سرحدوں کے محافظوں نے اپنی ذمہ داریاں اپنی قیمتی جانوں کے نظرانے دے کر نبھائی ہیں اور تاحال نبھا رہے ہیں اور نسلوں کو آزادی کی اہمیت بتانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہم پاکستانی ہر سال آزادی کا جشن بھرپور طریقے سے مناتے ہیں یہ لکھوں کہ میرے پیارے دیس کا کوناکونا سبز ہلالی جھنڈیوں سے ڈھکا ہوا ہوتا ہے،امیر کیا غریب کیا وطن کی محبت سے ہر فرد ہی سرشار دیکھائی دیتا ہے۔ساری رات چراغاں کیا جاتا ہے غرض یہ کہ جشن کا حقیقی رنگ ۴۱ اگست کو دیکھنے والے دیکھتے ہیں۔ یہ سب کچھ وہ ہے جو دیکھتی آنکھ دیکھ سکتی ہے اب بات کرلیتے ہیں ان تلخیوں کی جو اس طرح سے ناچتی گاتی دیکھائی نہیں دیتیں، اور سوال یہ بنتا ہے کہ ہمارے ملک میں کچرے کا ایک بحران پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے گنجان آبادی والے علاقے گلی محلوں میں کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جگہ جگہ نکاسی آب کی لائینیں ٹوٹی ہوئی ہے۔
ہم نے لفظ آزادی کو یاد رکھا ہے شائد ہمارے بزرگوں نے ہمیں آزادی کی روح اور اسکے جزیات سے روشناس نہیں کروایا۔آج ہماری ذمہ داریوں میں ایک بہت بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو آزادی کی روح تک رسائی دلائیں اور اسکے لئے جیسے ہی اسکول اور دیگر درس و تدریسی ادارے کھلتے ہیں تو ان میں ہونی اسمبلی میں آزادی پر مختصر تقریر ہونی چاہئے، ایک تو طالبعلم اپنے استاد کو اپنی دستیابی سے آگاہ کرے کہ کل وہ اسمبلی میں آزادی کی اہمیت پر روشنی ڈالے گااس طرح ہر ماہ کی جانے والی سب سے اچھی تقریر کو انعام سے بھی نوازا جائے اور اب تو تقریباً ہر تدریسی ادارے کا سماجی ابلاغ بھی ہے تو وہاں بھی روزانہ کی جانے والی تقاریر نشر کی جائیں اس سے جہاں بچوں میں زور ِ خطابت اور اعتماد بڑھے گا وہیں بنیادی مقصد یعنی آزادی کا تحفظ کرنے کیلئے بھی تیار ہوجائینگے۔ ہماری زمینی سرحدوں کے محافظ اپنی جانوں کے نظرانے پیش کرتے چلے جا رے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہے ہیں لیکن کیا اقدار کے محافظوں نے اپنی ذمہ داریاں نبہائی ہیں قطعی نہیں کیوں کہ آج ہمارے معاشرے میں ہونے والے واقعات اس بات کی کھلی گواہی ہیں کہ قدروں پر ڈاکہ پڑچکا ہے انکے محافظوں نے یہ ڈاکہ خود ڈلوایااور اسکے عوض چند سکے لے لئے۔
ہم نمود و نمائش میں پڑگئے ہیں ہم بنیادوں کو مضبوط کرنے والے لوگ تھے، ہم روائتوں کی پاسداری کرنے والے لوگ تھے کسی نے ہم سے ان تمام صفات کے بدلے ہمیں مادہ پرستی کی طرف راغب کردیا اور ہوتے ہوتے ہم یہاں پہنچ گئے کہ ہم نے ہر اس عمل کو جسکا عملی طور پر مظاہرہ ہوتا ہے اپنے عقائد کی بنیاد پر تہواروں میں شامل کر لیا ہے۔ ہم اپنے آباؤ اجداد کی قربانیوں کے نتیجے میں ملنے والی عظیم آزادی کو کسی فریم میں سجا کر اسٹور کے کسی کونے میں رکھ آئے ہیں اگر یوں لکھ دوں تو غلط نہیں کہ ہم نے اس آزادی کو قید کر کے رکھ دیا ہے اور ہم نے آزادسرزمین پر آنکھ تو کھولی لیکن جہاں آنکھ کھولی وہ جگہ قید میں تھی سب اپنے آپ کو خواہشات کا مفادات کا اور سب سے بڑھ کر ذاتیات کا غلام بنا لیا ہے۔ایسا نہیں کہ یہ قوم قربانی دینے سے ڈرتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے ہماری تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی عوام نے ملک کی بقاء کیلئے جان مال ہر قسم کی قربانی دی ہے اور دیتی ہی جا رہی ہے۔ لیکن ہماری معاشرتی اقدار جس کی بنیاد پر دوقومی نظریہ وجود میں آیا تھا وہ ہماری زندگیوں سے ہمارے برتاؤ سے نکلتے نکلتے تقریباً نکل ہی چکی ہیں، جس کی جگہ اغیار کے طور طریقوں نے لے لی ہیں تو بھلا ہم کس طرح سے آزاد ہوئے، سوچیں غلام ہوجائیں یا غیروں کے تابع ہوجائیں تو بھلا آزادی، آزادی تو نہیں کہلائے گی۔
کورونا نے معاشرتی اقدار پر، انسانی زندگیوں پر اپنے گھیرے نقش و نگار بنا دئیے ہیں، پاکستان میں اس وباء پر بہت حد تک قابو پانے کے بعد تدریسی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہماری خصوصی التجاء ہے کہ اساتذہ اب اپنی نسلوں کی بنیادوں پر کام کریں، ہر استاد اپنے اپنے شعبے میں ماہر ہے اور کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر، انجینئر، کمپیوٹر، وغیرہ کی بہترین تعلیم مہیہ کر رہے ہیں اور معاشیات کیلئے خوب مواد فراہم کر رہے ہیں لیکن کیا پاکستانیت اور پاکستان کے حصول کا بنیادی عنصر دوقومی نظریہ پر بھی کام کر رہے ہیں، کیا آپ بطور پاکستانی اور خصوصی طور پر ایک استاد اپنا صحیح حق ادا کر رہے ہیں۔ ذرا سوچئیے! قربانیا ں، معاشرتی اقدار اور آزادی کی نعمت کہاں ہے۔ یاد رکھیں کہ نعمت کی قدر نا کی جائے تو نعمت واپس لے لی جاتی ہے ۔ باقی کشمیر اور فلسطین کی صورتحال سے کون واقف نہیں ۔آئیں اس سال جشن آزادی پر یہ عہد کریں کہ اپنی آنے والی نسلوں کو پاکستان سے حقیقی محبت کرنا سیکھائیں گے تاکہ ہمارے گلی محلے یونہی کچرے کا ڈھیر نا بنے رہیں اور ان کیساتھ نشونما پانے والی ہماری نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہی کچرا، یہی بدبو اور یہی غلاظت ہمیشہ کیلئے جگہ نا بنالے (خاکم بدہن)۔
—