شازیہ عندلیب
حصہء اول
معافی وہ قبول ہوتی ہے جو صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ اسکی عملی تلافی بھی کی جائے۔
معافی کابہترین طریقہ وہ ہے جس میں انسان اپنے عیب اور دوسروں سے کی گئی ذیادتیوں کا خود جائزہ لے اور ذیادتی کی معافی نہیں بلکہ عملی طور پر تلافی بھی کرے۔
زبانی کلامی معافی کی حیثیت کسی فنکار کے ڈائیلاگ سے ذیادہ اہم نہیں جسکا اثر صرف ڈرامہ کے ایک سین تک ہی رہتا ہے۔
پوسٹ میں شئیر کی گئی معافی کی حیثیت اس ٹافی سے ذیادہ نہیں جو کسی بچے کو بہلانے کے لیے دی جاتی ہے۔
اسی طرح اکثر لوگ اچھی باتیں اور معافیاں آگے شئیر کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے تبلیغ کر دی اور نیک کام کر دیا جسکا انہیں بے بہا اجر عظیم ملے گا۔بلکہ بعض لوگ تو اجر عظیم کمانے کے لیے کڑی شرائط بھی عائد کر دیتے ہیں جیسے یہ کہ یہ کہ اس پوسٹ کو دس بیس یا پنچ لوگوں میں شئیر کریں بہت ثواب ہو گا اور اگر شئیر نہ کی تو بس پھر آپکی خیر نہیں یا پھر بہت پچھتائیں گے وغیرہ وغیرہ۔
اگر سروے کیا جائے تو آپکو شائید ہی کوئی ایسا شخص ملے جس کے دن محض میسج دس بندوں کو آگے بھیجنے سے پھر گئے ہوں اسے اعلیٰ عہدہ اور بیشمار نیکیاں مل گئی ہوں۔ہاں البتہ ایسے میسجز بھیجنے والوں کو صلواتیں ضرورر سننے کو ملیں گی۔
اچھی بات شئیرکرنے کا اتنا فائدہ نہیں جتنا فائدہ اس پر عمل کرنے میں ہے۔ اس ر عمل کر کے پھر لوگوں کو بتائیں تب کسی پر اچر ہو گا اور خود پہ بھی فخر ہو گا۔
جی تو اب کون مانگتا ہے معافی؟؟
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
حصہء اول